"FBC" (space) message & send to 7575

خدا کا منصوبہ کیا ہے ؟

کرہ ٔ ارض و ہ واحد سیارہ ہے ‘ جہاں زندگی پائی جاتی ہے ۔اس سیارے کو زندگی کے لیے قابلِ رہائش (Habitable)بنانے کے لیے بہت سے ایسے انتظامات کیے گئے ہیں ‘ ایک عام شخص کو ساری زندگی جن کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں اس زمین پر آکسیجن رکھی گئی ہے‘ جو دوسرے سیاروں پر نہیں ہے ۔ مائع حالت میں پانی رکھا گیا ہے ۔ اوزون کی تہ سورج کی روشنی کو فلٹر کرتی ہے ۔ زمین کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے پیدا ہونے والے مقناطیسی میدان رکھے گئے ہیں ‘ جو کہ سورج کی تابکاری کو واپس خلا کی طرف لوٹا دیتے ہیں ؛ اگر یہ مقناطیسی میدان نہ ہوتے تو اکثر جاندار کینسر کا شکار ہو جاتے ۔ اسی طرح پودے پیدا کیے گئے ہیں اور ان میں سورج کی روشنی اور زمین میں موجود پانی کو استعمال کر کے آکسیجن پیدا کرنے کا عمل رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح ان پودوں ‘ ان کی جڑوں اور پتوں کو کھا کر جانور اپنا پیٹ بھرتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ جانور ایک دوسرے کو کھاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ جب تک کوئی بھی جاندار زندہ رہتا ہے‘ اسے کھانے کے لیے پودے یا گوشت وغیرہ ملتا رہتا ہے ۔ 
اسی طرح زمین کی اوپر والی تہہ میں مٹی ایسے رکھی گئی ہے کہ جس میں پودوں کے بیج پھوٹ سکتے ہیں ‘ پودے اس مٹی میں سے اپنی جڑوں کے ذریعے پانی حاصل کر سکتے ہیں ؛ اگر یہ مٹی habitableنہ ہوتی ‘تو سارے بندوبست کرنے کے بعد بھی یہاں اس زمین پر زندگی کبھی پھل پھول نہ سکتی ۔ 
زمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ‘ ان میں انسان کا ذوق سب سے اعلیٰ رکھا گیا ہے ۔ باقی تو ایک دوسرے سے جڑ کر زمین پر ہی لیٹ کر سو جاتے ہیں ۔ انسان نرم بستر کا بندوبست کرتا ہے ۔ باقی تو مٹی پہ پڑی ہوئی آنتیں بھی کھا جاتے ہیں ۔ انسان کو اس سے گھن آتی ہے ۔ باقی تو سب کچھ کچا ہی چٹ کر جاتے ہیں۔ انسان اپنی خوراک کو آگ پہ پکا کر کھاتا ہے ۔ باقی تو گرم پانی پی جاتے ہیں ‘ انسان اسے فریج یا گھڑے میں ٹھنڈا کر کے پیتا ہے ۔ 
یہ سب کچھ تو اپنی جگہ‘ لیکن کچھ کام انسان نے ایسے کیے ہیں ‘ جن سے کرہ ٔ ارض پہ زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ زمین پر اس وقت 9ممالک کے پاس 16ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک نا صرف ایک شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے ‘بلکہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے دنیا میں اس قدر تابکاری پھیل سکتی ہے ‘ گلوبل وارمنگ کی شدت میں اس قدر اضافہ ہو سکتاہے کہ شاید اس زمین پہ زندہ چیزوں کا باقی رہنا ہی ممکن نہ رہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند صدیوں میں اتنی تیزی سے انسان نے زیرِ زمین دفن فاسل فیولز (تیل ‘ کوئلہ‘ گیس) نکال کر استعمال کیے ہیں کہ کرہ ٔ ارض کے درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان فاسل فیولز کے استعمال سے کاربن کے اخراج (Carbon Emission)میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ کرہ ٔ ارض کا درجہ حرارت کئی ڈگری تک بڑھ گیا ہے ۔ حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ انٹارکٹکا سمیت قطبین پر برف کے پہاڑ تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔ سائنسدانوں کا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی میں سمندروں کی سطح میں چار سے 8انچ کا اضافہ ہو چکا ہے ۔اس صدی میں کئی فٹ تک مزید اضافہ متوقع ہے ۔ امریکہ ‘ چین اور بھارت سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں ۔ عالمی سطح پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیاجا رہا ہے ۔بڑے ممالک ان چیزوں پر اتفاق کر رہے ہیں کہ جن سے گرین ہائوس گیسز کا اخراج روکا جا سکے ۔ گزشتہ صدیوں میں کرّہ ء ارض کے درجہ حرارت سمیت انسان کے پاس آج اتنا ڈیٹا موجود ہے کہ وہ خرابی کو با آسانی سمجھ سکتاہے ‘ خواہ اسے سلجھانے کے لیے اقدامات بڑے ممالک کی منافقت کی وجہ سے اٹھائے نہ جا سکیں ۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ معاملات اب اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ جہاں انسان کوشش کر کے بھی خرابی کو روک نہیں سکتا۔ جیسے ایک عمارت کی بنیاد وں میں دراڑ آجائے ‘تو اسے بالآخر گرنا ہی ہوتاہے ۔ اب یہ انہدام ہو گا کب‘ یہ بحث طلب موضوع ہے ۔ 
یہ سب باتیں اپنی جگہ ‘ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ جس خدا نے اتنی بڑی منصوبہ بندی سے کرہ ٔ ارض پہ زندگی پیدا کی۔ زمین کو سورج سے ایک مناسب فاصلے پر ٹہرایا۔ اسے اپنے محور پر گھومتا ہوا بنایا تاکہ سورج کی روشنی دونوں طرف پڑ سکے ۔ جس نے اس زمین کے نیچے لوہے سے مقناطیسی میدان پیدا کیے ۔ جس نے اوزون پیدا کی۔ جس نے سارے جاندار بنائے۔ ان کا مرکزی اعصابی نظام (Central nervous system) بنایا۔جس نے بارش کا بندوبست کیا اور سبزہ اگایا ۔ جس نے ہوائوں سے بیجوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ آمدرفت کا بندوبست کیا۔ جس نے ہر جاندار میں اپنی جان کی حفاظت کا جذبہ پیدا کیا۔ جس نے جلد میں درد محسوس کرنے کا نظام رکھا۔ جس نے مخلوقات کے دلوں میں اولاد کی محبت پیدا کی ۔ جس نے جسم میں Nervesکی صورت میں ایسی تاریں بچھائیں ‘ جن سے درد کا احساس جلد سے دماغ تک جا سکے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جس نے انسان کے دماغ میں اتنی صلاحیت پیدا کی کہ وہ زمین کھود کر نیچے سے فاسل فیولز نکال سکے اور زمین پہ اپنا وقت سہولت اور آرام سے گزار سکے ۔ جس نے انسان کو اتنی صلاحیت دی کہ وہ لوہا نکال کراس سے میزائل اور انجن بنا سکے ۔ کیا اسے نہیں پتا تھا کہ انسان کیسے جوہری ہتھیار بنائے گا‘ کتنا لوہا نکال کر کتنے میزائل بنائے گا ۔ کتنا کاربن جلا کر فضا کو آلودہ کرے گا ۔ کیا اتنی باریک منصوبہ بندی کرنے والے خدا کو یہ علم نہیں تھا کہ بڑھتے بڑھتے انسانی آبادیاں پورے کرہ ٔ ارض پہ پھیل جائیں گی ۔ ہر طرف انسانوں کے سمندر ہوں گے ۔ انسان جنگلات ختم کر دے گا ۔ دریائوں کو خشک کر دے گا ۔ 
سب سے بڑی بات یہ کہ خدا کہتا ہے کہ زمین پہ کوئی ذی روح ایسا نہیں ‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو...ایک ایک کیڑے اور ایک ایک جرثومے کی پوری زندگی کی خوراک کا بندوبست کر کے‘ پھر خدا نے زندگی کی ساری قسموں کو پیدا کیا تھا۔خدا کو پتہ تھا ہر چیز کا ۔جیسا کہ حدیث کہتی ہے کہ انسان اجاڑنے والی مکروہ چیزیں (جوہری ہتھیار) نصب کرے گا ‘ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا کا منصوبہ کیا تھا ؟ جب انسان ایسی صورتِ حال تک پہنچ جائے گا ‘ جہاں آبادیاں بڑھتے بڑھتے قابو سے باہر ہونے لگیں گی‘ پینے والے پانی کی قلت ہوگی اور سمندروں کا کھارا پانی آبادیوں پہ چڑھنا شروع ہو جائے گا اور جب دنیا میں ڈیڑھ ہزار جوہری ہتھیار نصب کر دیے جائیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ 
میرا ذہن یہ کہتاہے کہ یہ کہانی کا اختتام ہے ۔جس وقت ہم نے زمین پہ آنکھ کھولی تو یہ کلائمیکس کا وقت تھا۔ آخری پیغمبرؐ کو پردہ فرمائے چودہ سو سال ہو چکے ۔ انسانوں کے دو تین ہی گروپ ہیں ۔ ایک خدا پرست (جو کہ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان ہیں )‘ دوسرے بت پرست اور تیسرے خدا کو نہ ماننے والے ۔ مسلمانوں ‘ عیسائیوں ‘ یہودیوں اور بت پرستوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا وقت آچکا ہے ۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ نشانیاں اور حادثات اس طرح ہم پہ ظاہر ہوں گے ‘ جیسے تسبیح ٹوٹ جائے تو اس کے دانے زمین پہ گرنے لگتے ہیں ۔
خواہ ہمیں یہ بات اچھی لگے یا بری ‘لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس زمین پر زندگی کی یہ کہانی اپنے اختتام کے قریب ہے ! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں