کبھی کبھی آدمی سوچتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہ توبہ کیوں نازل ہوئی ۔ شیطان پر یہ توبہ کیوں نہ ہوسکی ۔ آدم علیہ اسلام شجرِ ممنوعہ کو چھو لینے کی وجہ سے جنت سے نکال دئیے گئے تھے ۔ اس کے بعد وہ بے حد غمزدہ تھے۔ پھر قرآن کہتاہے : پھر القا کیے گئے آدم پر کچھ(توبہ کے) کلمات اس کے رب کی طرف سے تو اس کی توبہ قبول کر لی ۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔
جہاں تک مجھے سمجھ آتی ہے ‘ میں اس پزل کے ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہوا دراصل یہ کہ آدم علیہ السلام کو اللہ نے وہ علم دیا تھا کہ جو فرشتوں کے پاس نہیں تھا۔ وہ ہر چیز کا ایک نام رکھتے تھے اور اس کی خصوصیات سمجھ لیتے تھے۔ اس بنیاد پر جب اللہ نے فرشتوں کے مقابل آدمؑ کو علم کے میدان میں اتارا تو آدمؑ نے انہیں ناک آئوٹ کر دیا ۔ یہاں ایک مسئلہ یہ تھا کہ آدمؑ کو جھوٹ اور دھوکے کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں تھا۔ انہیں کبھی جھوٹ اور دھوکے سے واسطہ ہی نہیں پڑا تھا۔پہلی بار جب ایک انسان نے دوسرے کو قتل کیا تو اسے لاش چھپانے کا بھی علم نہیں تھا ۔
شیطان کم علم نہیں تھا ۔ اس نے اپنی آنکھوں سے سیارہ ء ارض پہ زندگی کو پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔ اسے اچھی طرح سے علم تھا کہ کرّ ہ ء ارض پہ پیدا ہونے والی مخلوقات کس طرح سے اپنی جبلتوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کا خون بہادیتی ہیں۔ یہاں یہ بات اپنے ذہن میں رکھیے کہ انسان کا دل‘ گردے‘ جگر پھیپھڑے ‘ خون ‘ شریانیں ‘ nervesاور جلد سب کچھ اسی طرح ہی ہے ‘ جیسا کہ بھینس یا بکرے میں ۔انسان اسی کرّہ ء ارض کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ سورۃ دہر کی پہلی آیت میں خدا یہ فرماتا ہے کہ انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا تھا‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ انسان کو غصہ بھی اسی طرح سے آتا ہے ‘ جیسے بھینس کی کٹی کو کوئی چھیڑے تو وہ ٹکر مارنے کو دوڑتی ہے ‘ بالکل انسانی ماں کی طرح ۔ غصے سمیت ساری جبلتیں جو جانوروں میں ہیں ‘ وہی انسان میں بھی پائی جاتی ہیں ۔شیطان چونکہ زمین پر رہنے والے جانداروں میں ان جبلتوں کو اپنی آنکھوں سے پھلتے پھولتے دیکھ چکا تھا ‘ اس لیے اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ خدا کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ میں جیسے چاہوں گا ‘ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو گمراہ کر ڈالوں گا ۔
تو شیطان نے آدم علیہ السلام کو سبز باغ دکھائے کہ اس درخت کا پھل کھائو‘ تمہیں یہ ملے گا‘ وہ ملے گا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا جو ہر چیز کا علم رکھتاہے ‘ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ شیطان آدم علیہ السلام کو کیسے دھوکہ دے کر ورغلا دے گا۔ اللہ کو یہ بات معلوم تھی‘ لیکن اس نے پہلی دفعہ ایسی مخلوق پیدا کی تھی ‘ جسے ہدایت اور گناہ میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی تھی ۔ اسی طرح انسان میں یہ فنکشن بھی uniqueتھا کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوتا‘ غم زدہ ہوتا اور توبہ کرنے والا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ علم بھی اللہ نے دیا ۔ توبہ بھی اللہ نے نازل کی تو آدمؑ نے خود کیا کیا؟ جواب ‘ آدم علیہ السلام اپنی غلطی پر شرمندہ ‘بلکہ از حد غم زدہ ہوئے ۔انہوں نے اپنی غلطی پر standنہیں لیا۔ جو اپنی غلطی کو تسلیم کرے گا ‘ وہی توبہ کر سکتا ہے ۔ جو اکڑ کر کھڑا ہو جائے‘ اس نے کیا توبہ کرنی ہے ۔
قرآن کہتاہے کہ شیطان نے انکار تو کیا ہی ‘ اس نے اپنی غلطی پر standلیا اور تکبر کیا۔آدم ؑ میں نادم ہونے اور معافی مانگنے کی یہ خاصیت دوسری سب مخلوقات سے منفرد تھی ۔شیطان کا پاگل پن دیکھیے کہ وہ علم ‘طاقت اور خواہش کے ذریعے آدم ؑ کا مقابلہ کر رہا تھا؛حالانکہ اگر اس نے مقابلہ کر نا ہی تھا تو وہ توبہ کے میدان میں کرتا ۔ آدم ؑ کو تو اللہ جسے بھی سجدہ کرنے کا حکم دیتے‘ آدمؑ اسی وقت سجدہ کر دیتے ۔ یہاں یہ بات اپنے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھا لیں کہ غصے سمیت ساری جبلتیں وہی ہیں‘ جو کہ رینگنے والے کیڑوں (reptiles)سے آگے میملز اور پھر Primatesتک آئی ہیں ۔ اللہ نے اس زمین پر زندگی ایک بہت طویل عرصے میں بتدریج تخلیق کی ہے ۔ یہ سب جبلتیں اور خواہشات کروڑوں برسوں میں ہم تک پہنچی ہیں ۔ اسی لیے یہ اس قدر سخت ہو چکی ہیں کہ ان کے خلاف انسان کبھی بھی نہیں لڑ سکتا ‘ جب تک کہ اسے اللہ کی طرف سے مدد حاصل نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ایک شخص جو طبعاً نیک بھی ہو ‘ وہ بھی غصے میں ایسے ایسے کام کرتاہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ۔
یقینا انسان کو زمین پر اتارنے کا فیصلہ پہلے سے ہی ہو چکا تھا۔خدا نے خود کو حجاب میں لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ زمین پر انسان کی آزمائش بہت پیچیدہ کر دی گئی ۔ اس میں عورت سے لے کراولاد اور مال اور زمین پر موجود وسائل پر قبضے کی خواہشات شامل تھیں ۔وقت گزرتا گیا ۔ آخری پیغمبر کو پردہ فرمائے چودہ صدیاں ہو چکیں۔ معاملات اس طرف جا رہے ہیں ‘ جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس انسان دوسرے سیاروں پہ آبادیاں بسانے کی خواہش کر رہا ہے ۔ اپنے ضائع ہوجانے والے اعضا کو لیبارٹری میں پھر سے اگانے کی تیاری ہے۔ انسان بارشیں برسانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔جینز میں مداخلت سمیت انسان اس طرف بڑھ رہا ہے ‘ جہاں وہ خدا ئی کا دعویٰ کر دے گا ۔
آج کا انسان اپنے آپ کو خوش قسمت کہہ سکتاہے ۔ اس لیے کہ آج جس قدر علم انسان کے پاس ہے ‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک بچّہ بھی کائنات کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے ۔ آج کا انسان بد قسمت بھی ہے ۔ اس لیے کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے ۔ خوراک خالص نہیں رہی ۔ طرزِ زندگی بیمار کر دینے والا ہے‘ جب آپ سائنسدانوں سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ انسان کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ نظامِ شمسی سے باہر کسی سیارے پر اتر سکے‘ وہاں زندگی بسا سکے ۔ نظامِ شمسی کے اندر جو مریخ جیسے سیارے ہیں ‘ وہاں بھی زندگی گزارنا اس قدر مشکل ہے کہ جو ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے۔ انسان انٹارکٹکا پر مستقل آبادنہیں ہو سکا ‘ جو زمین ہی کا ایک ٹکڑا ہے ‘ دوسرے سیاروں کو تو چھوڑ ہی دیجیے ‘ جہاں آکسیجن تک نہیں ہے ۔
انسان خدائی کا دعویٰ کرنے کی طرف جا تو رہا ہے لیکن وہ کبھی بھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ کسی دوسرے سیارے پر جا کر آباد ہو سکے اور کائنات کی وسعتوں میں ہمیشہ زندہ رہ سکے ۔ ایک حادثہ ہونا ہے ‘ جسے قرآن'' القارعہ ‘‘کہتاہے ۔ ایک بہت خوفناک دھماکہ ‘ جس کے جھٹکے سے کرّہ ء ارض کے اوپر رکھے ہوئے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے ۔انسان کو اس زمین پر آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسی زمین میں یہ آزمائش مکمل ہو گی۔
جب آپ سائنسدانوں سے پوچھتے ہیں‘ تو وہ کہتے ہیں کہ انسان کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ نظامِ شمسی سے باہر کسی سیارے پر اتر سکے‘ و ہاں زندگی بسا سکے ۔ نظامِ شمسی کے اندر جو مریخ جیسے سیارے ہیں ‘ وہاں بھی زندگی گزارنا اس قدر مشکل ہے کہ جو ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے