اُس نے کہا : بطور ایک وکیل‘ بڑے بڑے جرائم پیشہ لوگوں سے مجھے واسطہ رہتا تھا۔ ان میں سے ایک ایک کی داستان مجھے معلوم تھی ۔ خوف کی وادی میں زندگی گزارنے والے لوگ ۔ میں انہیں اس خوف سے نکلنے کا راستہ بتایا کرتا۔ انہیں قانون کی گرفت سے نکلنے کی تدابیر سمجھاتا۔ بڑے محلات میں رہنے والے لوگ ‘ جن کے جرائم ساری زندگی ان کا پیچھا کرتے رہتے ؛حتیٰ کہ انہیں موت آجاتی ۔ قانون کی گرفت سے بچ بھی جاتے تو دشمن کے ہاتھوں قتل کر دیے جاتے ۔ اکثر کے پاس اس انجام سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی صورت تھی اور وہ یہ کہ وہ اپنے دشمن کے آگے بھاگنے کی بجائے اسے اپنے آگے بھگاتے رہیں ۔
اس روز میں ایک ہوٹل کی ریسیپشن پہ کھڑا تھا۔ اپنا موبائل فون میں نے چارجنگ پر لگا رکھا تھا۔ ایک اہم مؤکل سے مجھے ضروری بات کرنا تھی مگر بیٹری ختم ہو چکی تھی۔وقت گزاری کے لیے میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ہلکا ہلکا میوزک بج رہا تھا اور پرسکون ماحول میں جوڑے بات چیت کر رہے تھے ۔ ہال کے ایک طرف کچھ پارٹیشنز کے ذریعے ایک راستہ سا بنا دیا گیا تھا۔ ماحول خوشگوار تھا۔یکایک ہلچل سی ہوئی۔ ایک طرف سے ایک موٹا سا آدمی بھاگتا ہوا آیا اور ان پارٹیشنز کے پیچھے دبک کر بیٹھ گیا۔ سب نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بے چارگی کی تصویر تھا۔ موٹاپے کی وجہ سے اس کے لیے زمین پر بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس کے ماتھے سے پسینہ بہہ رہا تھا ۔ خدا جانے وہ کس افتاد کا شکار تھا۔سب حیرت اور ناگواری سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ میں نے افسوس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کسی سے چھپ رہاتھا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ بھی خوف کی وادیوں میں زندگی بسر کرنے والا شخص تھا۔ اس کی زندگی ایک سزا بن چکی تھی ۔
اس موٹے کا تعاقب کرنے والا کون تھا؟ کون تھا وہ‘ جس کے خوف سے وہ گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھا تھا۔ یقینا کوئی بہت طاقتور شخص ‘ جس کی دہشت نے اس کے اوسان خطا کر دیے تھے ۔
میں نے موٹے کی طرف دیکھا ۔ وہ گردن آگے کئے پارٹیشنز کی دوسری طرف جھانک رہا تھا۔ پھر ایک دم وہ پیچھے ہو کر دبک گیا۔ اس نے کہا : بطور ایک وکیل اپنے مؤکلوں کو میں مشورہ دیا کرتا کہ خوف کی وجوہات کو ختم کرنا سیکھیں اور اطمینان کی زندگی جئیں ۔میں نے ان گنت لوگوں کو اس خوف سے نکلنے میں مدد دی تھی ۔ قانون کی عدالت میں ان کا مقدمہ لڑا تھا۔ اپنے ہر مؤکل کو میرا مشورہ یہ ہوتا تھا کہ موت کے آگے بھاگنے کی بجائے پلٹ کر حملہ آور ہو جائو ۔ اس خوف کو جڑسے اکھاڑ پھینکو ۔جو دشمن روپیہ لے کر مصالحت کر سکے‘ اس کا منہ بھر دو ۔جو نہ مانے‘ اس کے خلاف ہر ممکن ثبوت لے کر عدالت میں اس کا سامنا کرو۔ جس جرم سے مکرنا ممکن نہ ہو‘ ببانگِ دہل اس کا اعتراف کرو اور معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پہ چھوڑ دو ۔کم از کم سزا پائو اور پھر اطمینان سے ایک نیا آغاز کرو۔ میرے ان مشوروں پہ عمل کرتے ہوئے بے شمار لوگوں نے آزادی حاصل کی تھی ۔ یہ موٹا بھی ایسا ہی ایک شخص تھا ‘ جسے میری مدد کی ضرورت تھی ۔ نہ جانے کیوں مجھے اس پہ بہت ترس آرہا تھا۔ میں نے سوچا کہ آگے بڑھ کر مدد کا ہاتھ بڑھائوں ۔ پھر میں نے سوچا ‘ خدا جانے اس کا دشمن کون ہے ۔ ہو سکتاہے کہ اسلحے سے لیس ہو کر اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہو۔ میں اس کی مدد کر سکتا تھا‘ لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ دشمن کے تعاقب سے چھٹکارا پا کر‘ خود چل کر میرے دفتر آئے۔اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں تھی ۔
پارٹیشن کی دوسری طر ف کھڑکھڑاہٹ ہو رہی تھی ۔ وہ جو کوئی بھی تھا‘ اب بہت قریب آچکا تھا ۔ موٹا اور بھی زیادہ چوکنا ہو چکا تھا ۔ آخر دشمن سامنے آیا ۔ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ وہ ایک دوسالہ بچّی تھی ۔اس کے ایک ہاتھ میں بڑا سا چمچ تھا‘ جسے وہ لکڑی کی پارٹیشن پہ مار کر شور پیدا کر رہی تھی ۔وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے موٹے کو تلاش کر رہی تھی ۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب موٹا اچانک حرکت میں آیا۔ وہ پارٹیشن کے پیچھے سے باہر نکلا اوراس نے منہ سے ایک زوردار آواز نکالی۔ بچی ایک لمحے کے لیے ڈری پھر موٹے کو پہچان کر وہ خوشی سے چیخیں مارتی ہوئی دوڑی ۔ پھر وہ اس سے لپٹ گئی ۔ پھر وہ اس کے گنجے سر کو چومنے لگی ۔ پھر موٹا اٹھا اور بھاگ کر پارٹیشن کی دوسری طرف جا کر چھپ گیا۔ وہ بچّی چند لمحے ادھر ادھر دیکھتی رہی۔ پھر وہ دوبارہ اسے ڈھونڈنے چل پڑی ۔اس دوران وہ چمچ کو لکڑی پہ زور زور سے مار رہی تھی ۔ ساتھ ہی وہ کسی نامعلوم زبان میں کوئی گیت گا رہی تھی ۔میں نے دیکھا کہ جو لوگ موٹے کو ناگواری سے دیکھ رہے تھے ‘ اب وہ مسکرا رہے تھے ۔ ایک بے اولاد جوڑا تو حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا : چند لمحوں کے لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ۔اچھا‘ تو وہ موٹا خوف کا قیدی نہیں تھا۔ وہ تو سراپا آزاد تھا۔ مسرت کی وادیوں میں بگٹٹ بھاگتا ہوا ایک شخص ۔ جو سو فیصد اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزار رہا تھا ۔ جسے دنیا کی کوئی فکر نہیں تھی ۔ اس نے کہا : چند لمحات کے لیے معلوم نہیں کیوں ‘ میرے دل میں شدید حسد پیدا ہوا ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بچّی میرے ساتھ کھیلے اور اس موٹے کے ساتھ نہ کھیلے ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے موبائل کی چارجنگ اورکروڑ پتی موکل سے جان چھڑائوں ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں بھی کہیں چھپ جائوں ۔ چمچ بردار پری شور کرتی ہوئی مجھے ڈھونڈتی پھرے ۔ آخر وہ مجھے ڈھونڈ نکالے اور میرے ساتھ چمٹ جائے ۔
اس نے کہا : خوف سے تو میں آزادہی تھا‘ لیکن موٹا تو جیسے خوشیوں کے جلو میں زندگی بسر کر رہا تھا۔میری زندگی غیر ضروری طور پر سنجیدہ ہو چکی تھی ۔ پھر میں سوچنے لگا کہ میں بھی ایک بچّی کا باپ تھا ‘لیکن میں نے کبھی اس کے ساتھ چھپن چھپائی نہیں کھیلی ۔ میں صبح اس وقت گھر سے نکلتا تھا‘ جب وہ سورہی ہوتی اور اس وقت واپس آتا‘ جب وہ دوبارہ سو چکی ہوتی ۔پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ کس قدر قیمتی لمحات میں کھو رہا ہوں ‘ جو لوٹ کر کبھی نہ آئیں گے ۔ یہی وہ وقت تھا ‘ جب میرا موبائل بجنے لگا۔ میں نے فون اٹھایا۔ قانون کے شکنجے میں پھنسا ہوا میرا مؤکل فوری ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ابھی اس وقت تو میں بہت مصروف ہوں ۔ مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنا ہے ۔ پہلے ہی میں قیمتی ڈیڑھ سال ضائع کر چکا ہوں ۔ وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا میں نے تو سنا تھا کہ تم مجرموں کو خوف سے نکلنے کا راستہ بتایا کرتے ہو !میں نے کہا کہ اب خوف سے نکلنے ہی کا نہیں بلکہ خوشی سے بغل گیر ہونے کا راستہ بھی بتایا کروں گا۔ فی الحال تم ایسا کرو کہ ایک چھوٹی سی بچّی ڈھونڈو اور اس کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلو!
قانون کے شکنجے میں پھنسا ہوا میرا مؤکل فوری ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ابھی اس وقت تو میں بہت مصروف ہوں ۔ مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنا ہے ۔ اس نے کہا میں نے تو سنا تھا کہ تم مجرموں کو خوف سے نکلنے کا راستہ بتایا کرتے ہو !میں نے کہا کہ اب خوف سے نکلنے ہی کا نہیں بلکہ خوشی سے بغل گیر ہونے کا راستہ بھی بتایا کروں گا۔