"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ مزید تحقیقی نوٹس

مطالعے میں سے کچھ اور نوٹس اور ان پر میرے تبصرے‘ قارئین کی خدمت میں!
1۔ اگر unconsciousnessطویل ہو جائے‘ جیسا کہ گہرے کوما میں ہوتاہے تو موت کو روکنے کے لیے سپیشل میڈیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ 
2۔دماغ کے اندر کچھ مخصوص لیکویڈ ہوتے ہیں ‘ جنہیں نیورو ٹرانسمیٹر کہتے ہیں ۔ انہی کیمیکلز کی وجہ سے دو خلیات آپس میں معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں ؛ اگر یہ نیورو ٹرانسمیٹرز کم یا زیادہ ہو جائیں تو ذہنی و جسمانی بیماریاں ۔ acetylcholineکی کمی نوٹ کی گئی ہے الزہیمر میں ۔ یہ کمی سوچنے کے عمل کو تباہ کرتی ہے ۔ پارکنسن کے مریضوں میں ڈوپامائن کا لیول گر جاتاہے ۔ ڈیپریشن سے متعلق نیورو ٹرانسمیٹر ہوتے ہیں نور پائن فرائن اور سیرو ٹونن۔ 65برس سے زیادہ عمر کے پانچ فیصد افراد ڈیمینشیا کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈیمینشیا مینٹل processesکی deteriorationہے ۔ الزہیمر اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ دوسری وجوہات میں small strokesاور arteriosclerosisہے ‘ یعنی hardening of arterieý جس کی وجہ سے دماغ کو ملنے والا خون کم ہو جاتاہے ۔ 
مرد کا دماغ 1.35اور عورت کا 1.21کلو کا ہوتا ہے‘ لیکن یہ برین ٹو باڈی ریشو دونوں کی ایک ہی ہے کہ عورتیں قدرے کم جسامت کی ہوتی ہیں ۔ یہ بھی قطعاً ثابت نہیں کہ سائز میں دماغ بڑا ہونے سے ذہانت زیادہ ہوتی ہے ۔ بعض بڑے ذہین فطین آدمیوں کے دماغ کا وزن اور حجم نسبتاً کم ہوتاہے ۔ 
3۔ چھ سات سال کے بچے کو سٹروک ہو تو اس کی زبان سیکھنے کی صلاحیت دوبارہ بحال ہو جاتی ہے ‘ جبکہ ایک جوان میں یہ اکثر بولنے کی صلاحیت کا مستقل نقصان ہے ۔‘لیکن جب بچہ بڑا ہو جائے اور اس کے ہیمسفئیر ز زیادہ specializedہو جائیں ‘ اپنے فنکشنز میں تو یہ adaptability کم ہو جاتی ہے ۔ دماغ کے یہ دونوں حصے بالکل ایک جیسے نہیں ۔ 
1940ء کی دہائی میں مرگی کی خطرناک اقسام کے مریضوں کے علاج میں ‘یہ پریکٹس عام تھی کہ ان کے دماغ کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے ‘جو دماغ کے دونوں دائیں اور بائیں حصوں کو آپس میں ملاتا ہے ۔ بظاہر اس کے بعد مریض ٹھیک ٹھاک رہتے ‘لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ اگرچہ دماغ کے دونوں حصے الگ الگ حالت میں بھی فنکشن کرسکتے ہیں‘ لیکن ایک سپلٹ برین مریض ہو سکتاہے کہ امیج اور زبان کو کنکٹ کرنے میں مشکلات کا شکار ہو ۔ دونوں حصے الگ الگ کام نہیں کرتے ‘بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کرتے ہیں ۔ interactکرتے ہیں‘ آپس میں ۔
دماغ کا بایاں حصہ بولنے اور لکھنے‘ لاجک ‘ نمبر سکل‘ اور سائنٹیفک conceptsمیں ماہر ہوتاہے ۔ لکھنا‘ بک کیپنگ‘ لیبارٹری جابز‘ یہ سب بایاں دماغ کرتا ہے۔ دایاں ہیمسفئیرpatternsاور shapesکو پہچانتا ہے اور کیسے وہ ایک دوسرے سے relateکرتے ہیں ‘ اس کو جانتا ہے ۔ چہروں کو یہ یاد رکھتا ہے ۔قوّتِ تخیل‘ مذاق کو سمجھنا‘ آرٹ کی داد دینا۔ ایک آرکیٹیکٹ اور موسیقار کا کام زیادہ تر دائیں دماغ پہ منحصر ہے ۔ دایاں دماغ؛ اگرچہ speechکو initiateنہیں کرتا‘ لیکن emotional nounces of speechکو سمجھنے اور انہیں بولنے میں اس کا کردار ہوتا ہے ‘ مثلاً: ایک بندہ یہ کہتاہے کہ ''تم تو کمال کے آدمی ہو‘‘اب یہ طنزیہ بھی کہا جا سکتا ہے اور صورتِ حال کے مطابق بولنے اور سننے والا دونوں سمجھتے ہیں ‘ لیکن؛ اگر ایک بندے کے دائیا ں دماغ ڈیمج ہو ‘ وہ اسے سمجھ نہیں سکے گا اور ہو سکتاہے کہ وہ یہ فقرہ بول تو لے‘ لیکن شاید وہ اسے صرف ایک ہی سینس میں بول سکے گا‘ دونوںمیں نہیں ۔ 
جو بات سو فیصد ثابت شدہ ہے ‘ وہ یہ کہ بڑوں میں بائیں ہیمسفئیر میں ڈیمج loss of speechسے associatedہے ‘ جبکہ دائیں دماغ سے بظاہر کوئی نقصان نہ ہوتا‘ لیکن درحقیقت یہ تخلیقی صلاحیتوں میں بہت اہم ہے ۔ پہلے لوگ یہ سمجھتے رہے ‘انیسویں صدی میں کہ بایاں ہیمسفئیر doimnantہے ‘ پھر اب recent yearsمیں یہ تصور عام ہوا کہ دایاں حصہ dominantہے ۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے ۔ دونوں کا اکھٹے کام کرنا اہم ہے ۔ 
4۔ نظامِ شمسی میں تیرے سیارچے اس کی پیدائش کے وقت وجودمیں آئے تھے ۔ ان میں سے کچھ چھوٹے اور کچھ سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر چٹانوں (Rocks)سے جب کہ کچھ دھاتوں سے بھی بنے ہیں ۔ ان سیارچوں پر نظامِ شمسی کی پیدائش کے وقت کا مواد موجود ہے ۔ 
5۔دماغ میں دو قسم کے خلیات ہوتے ہیں ۔ ایک نیورون اور دوسرے نان نیورونل۔ نیوران وہ خلیات ہیں ‘ جو کہ سگنل بھیجتے اور وصول کرتے ہیں اور جبکہ باقی تمام خلیات نیورون کے کام کو سپورٹ کرتے ہیں ۔یہ دوسری تمام اقسام کے خلیات نان ایکسائٹ ایبل ہیں ۔ ان تمام کومجموعی طور پرnerve glue کہا جاتاہے ۔ 
6۔نیورونز اور گلائل سیلز کے علاوہ ‘ دماغ میں کچھ اور سیل بھی ہوتے ہیں ‘ مثلا: وہ جو کہ خون کی نالیاں بناتے ہیں ۔ یہ نالیاں برین ٹشو کو سرو کرتی ہیں ۔ سپیشل خلیات میں وہ سیل بھی شامل ہیں ‘ جو کہ دماغ کے اس cerebrospinal fluidکے ساتھ لنکڈ ہیں ‘ جو کہ ایک شاک آبزورور کے طور پر کام کرتے ہوئے دماغ کی حفاظت کرتا ہے ‘ کیونکہ نیورانز ہی وہ کی یونٹس ہیں ‘ جن کی مدد سے دماغ انفارمیشن کو پراسس کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتاہے ۔ اس لیے ان پر سائنسدان زیادہ فوکس رہے ‘ لیکن گائل سیلز ان سے تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔ یہی گلائل سیلز بچے کی پیدائش سے قبل نیورانز کو نروس سسٹم میں ان کی مقررہ جگہ تک پہنچنے کے لیے سیڑھی کا کام کرتے ہیں ۔ پیدائش کے بعد جب نیورانز کا سائز اور complexityبڑھتی ہے تو اس وقت گلائل سیلز بھی نئے بنتے ہیں اور یہی پیدائش کے بعد دماغ کا سائز بڑا ہونے کی وجہ ہے ۔ جوانی میں دماغ کا تقریباًآدھا حجم گلائل سیلز پہ مشتمل ہوتاہے ۔ نیوران سائز میں ان سیلز سے بہت بڑے ہوتے ہیں ۔ گلائل سیلز ایک مبینہ کردار رکھتے ہیں ‘ دوسری خدمات کے علاوہ ‘ وہ سٹرکچر بنانے میں ‘ جسے blood brain barrierکہا جاتاہے ۔ اس کا بنیادی کام کچھ substancesکو دماغ میں داخلے کی اجازت دینا اور کچھ کو روکنا ہے ۔ 
ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ زندگی کو کن کن حفاظتی تہوں میں محفوظ کیا گیا ہے ۔ 
7۔ارسطو نے زمین کی پیمائش کا اندازہ بھی پیش کیا اور یہ 4لاکھ سٹیڈیم کے برابر تھا۔ ایک سٹیڈیم اگر دو سو گز کے برابر ہوتو یہ پیمائش آج کی ثابت شدہ پیمائش سے دُگنا ہے ۔ 
8۔Ptolemy کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ بعض اوقات چاند اپنے عام طور پر دکھائی دینے والے سائز سے دو گنا کیوں نظر آتاہے‘ یعنی سپر مون ۔
9۔آج ہم جانتے ہیں کہ صرف ہماری کہکشاں میں ستاروں کی طرح کم از کم 100بلین سیارے بھی ہیں اور یہ پانچ سال پہلے ہم نہیں جانتے تھے ۔ 
10۔ذیابیطس کے علاج میں ایک زبردست پیش رفت ہوئی ہے ۔ لبلبے کے اندر موجود بیٹا سیلز کا کام یہ ہوتاہے کہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کریں ۔ذیابیطس ٹائپ ون میں ہوتایہ ہے کہ جسم کا دفاعی نظام غلطی سے ان بیٹا سیلز کے خلاف ایکٹو ہو کر انہیں تباہ کر دیتاہے ۔ اب سٹیم سیلز سے بنائے گئے ہیں ؛بیٹا سیلز ۔ تجربہ کامیاب رہا ہے ۔ ویسے زیادہ تر جو ذیابیطس عام ہے ‘ وہ ٹائپ ٹو ہے اور اس کا سبب ہے؛ غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی‘ بالخصوص جسمانی کام نہ کرنا اور موٹاپا ۔ 
11۔ چالیس ہزار سال پہلے کادور upperpalaeoliticکہلاتا ہے ۔ 27000سال پہلے آئس ایج جوبن پر تھی ‘ جو دس ہزار سال پہلے ختم ہوئی تھی ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں