کبھی خدا‘ آدمؑ ‘ شیطان اور‘ فرشتوں کے بارے میں لکھا جائے تو پڑھنے والے مضطرب ہی نہیں جذباتی بھی ہو جاتے ہیں ‘ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیکولر۔ اگر کوئی شخص قرآن اور حدیث میں سے وہ تمام آیات اور احادیث اکٹھی کرے ‘ جن میں آدمؑ کا ذکر ہے ‘ انہیں تعصبات سے آزاد ہو کر پڑھے۔ ان کا تجزیہ کرے اور پھر کھلے دماغ سے ان پر ایک تجزیہ لکھے تو یہ ایک شاندار تجربہ ہو سکتاہے ۔آدمی اگر پہلے سیپارے سے آدمؑ کی تاریخ پڑھنا شروع کرے تو بہت سے سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ۔
پہلے سیپارے میں اللہ فرماتا ہے ''اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں ‘‘ غور کیجیے کہ یہاں آدمؑ کا ذکر نہیں ہے ۔ صرف اتنا کہا جا رہا ہے کہ زمین میں (پائی جانے والی مخلوقات میں سے )ایک کونائب بنایا جائے گا ۔آپ کے خیال میں یہ کون سا وقت ہے ؟ یہ وہ وقت ہے ‘ جب کرّہ ٔ ارض تخلیق کے بعد ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ اس پر زندگی پیدا ہونے کے بعد پیچیدہ کثیر خلوی جانداروں میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ ان میں ریچھ اور شیر جیسے ان گنت درندے موجود تھے۔ وہ جانور جو کہ گوشت خور تھے اور ایک دوسرے کا گوشت کھاتے تھے۔ مادہ کے حصول کے لیے بھی وہ ایک دوسرے کو قتل کر دیتے تھے ۔
فرشتوں نے اس پر جو جواب دیا ‘وہ بھی بہت حیران کن ہے ۔ ''بولے کیا تو بنائے گا (ایک کو نائب) جو کہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا‘‘ صرف اس پہ بس نہیں کیا ۔ یہ بھی کہا ''اور ہم تیری تعریف بیان کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ‘‘۔ اس جواب سے ظاہر ہوتاہے کہ فرشتے زمین پہ بسنے والی مخلوقات کو دیکھتے رہتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی فطرت رکھتے ہیں ؛حتیٰ کہ جو گوشت خور نہیں تھے بلکہ زرافے اور ہاتھی جیسے سبزی خور بھی تھے‘ وہ بھی۔ یہاں تک تو سب سمجھ میں آتی ہے لیکن اس سے آگے فرشتوں نے اپنا ذکر کیوں کیا کہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ۔فرض کریں کہ میں ایک شخص کو کہتا ہوں کہ فراز کو میں اپنی نئی گاڑی کا ڈرائیور رکھوں گا۔ وہ جواب میں کہتاہے کہ فراز میں یہ خرابی ہے‘ وہ خرابی ہے ۔ ساتھ یہ کہے کہ میں بہت اچھی گاڑی چلاتا ہوں۔ اس سے لگتا ایسا ہے کہ جیسے وہ خود فراز کی جگہ لینا چاہتاہے ۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کو بھی انسان جیسی نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ ذہانت دی گئی ہے ۔ اتنا علم ان کے پاس موجود تھا کہ وہ زمین میں مخلوقات کا جائزہ لے کر ان پہ تبصرہ کر سکیں اور اس خواہش کا اظہار بھی کر سکیں کہ اے اللہ ‘ ہم جو تیری تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں ...!
اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیے۔ انسان دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب اس لیے ہوا ہے کہ وہ لوہے سے لے کر گندم تک ہر چیز کا ایک نام رکھتاہے اور پھر اس کے فائدے اور نقصانات کا جائزہ لے کر ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتا دیتاہے ۔ یہ کل راز ہے انسانی عظمت کا ‘ جس میں سائنس کی ترقی بھی شامل ہے ۔ فرشتے نام نہیں بتا سکے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے آدم ؑ کو نام سکھائے ‘ فرشتو ں کو کیوں نہ سکھا دیے ۔ جوا ب یہ ہے کہ ان میں اتنی capacityہی نہیں تھی ۔ ایک گاڑی ہزار کلو وزن اٹھا سکتی ہے ‘ آپ اس پر ایک لاکھ کلو کا وزن ڈالیں ‘ وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گی ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ آدمؑ کو اللہ نے وہ ذہانت دی ‘ جو فرشتوں کے پاس نہیں تھی ۔ آگے چلیے ۔ جب فرشتے نام بتانے میں ناکام ہوئے تو اللہ نے آدمؑ کو کہا کہ ان کے نام بیان کرو۔ جب آدمؑ نے بتا دیے تو اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے راز جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو وہ جانتا ہوں اور جو تم چھپاتے ہو‘ وہ بھی جانتا ہوں ۔
یہاں آپ دیکھیں کہ کہا ں آسمان اور کہاں زمین ۔ تقریباً ہر جگہ آسمان اور زمین کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے ۔ اب کہاں صرف ایک کہکشاں کی اربوں نوری سالوں کی وسعت اور ان کی خفیہ باتیں(راز ) اور کہاں ایک چھوٹے سے سیارے ‘ زمین کے راز ۔ لیکن یہ دونوں کیسے ایک دوسرے کے comparisonمیں آئے ‘ اس لیے کہ زمین پر زندگی جو پیدا ہو چکی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ انسان کی قیام گاہ بننا تھی۔ اس سیارے کو زندگی کے لیے sustainableبنانے میں ہی بہت سارے راز چھپے ہوئے تھے ۔ اسی آیت کے آخر میں خدا فرشتوں سے کہتا ہے کہ میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہواور وہ بھی ‘ جو تم چھپاتے ہو ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ فرشتے کیا بات چھپاتے ہوں گے خدا سے ؟
آگے جب خدا فرشتوں سے کہتا ہے کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کر دیا‘ سوائے ابلیس کے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تو کیا خدا کے لیے یہ کوئی حیرت کی بات تھی ۔ بالکل نہیں ۔ اسے معلوم تھا کہ شیطان کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ سجدے کا یہ حکم دیا ہی اس لیے ہو کہ شیطان کو exposeکرنے کا وقت آچکا تھا ۔
آگے جب آدم ؑ اور حوّاؑ کو شیطان قائل کر دیتاہے کہ وہ شجرِممنوعہ کو چھو لیں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا خدا کو معلوم نہیں تھا کہ آدم ؑ یہ غلطی کر گزریں گے ؟ اور جب آدمؑ ایسا کرنے جا رہے تھے تو یقینا خدا کو اس وقت بھی اس کا علم تھا ۔ جب کہ آدمؑ کا زمین پہ اتارا جانا یقینی تھا۔ اس لیے کہ خدا نے سب سے پہلے فرشتوں سے یہی فرمایا تھا کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ اس نائب کو زمین پر ہی رہنا تھا ۔ البتہ آدمؑ کو اتنا اختیار دیا گیا تھا کہ وہ درخت کو چھونے سے انکار کر سکتے۔
یہ صرف ایک رکوع سے لی گئی ادھوری سی تصویر ہے ۔ جب کہ ایک مکمل تصویر بنانے کی کوشش ضروری ہے ۔
آج کل سائنسی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہے کہ پہلی دفعہ ملکی وے کے مرکز میں سپر میسو بلیک ہول کی تصویر بنائی گئی ہے ۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جلد ہی مسلمان یہ دعویٰ کر دیں گے کہ ہمیں 14صدیاں پہلے ہی اس کے بارے میں معلوم تھا ۔ حقیقت کیا ہے ؟ کیا خدا نے بلیک ہول کے بارے میں کبھی کوئی تبصرہ کیا؟ اگر نہیں تو پھر مسلمان ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ کیا خدا کبھی سائنسی موضوعات پر تبصرہ کرتا ہے یا سائنس اور مذہب کو بالکل الگ رکھنا چاہئے ۔ اگلا کالم میں اسی پر لکھوں گا لیکن اس سے پہلے بالکل آسان الفاظ میں سائنس اور مذہب کی تعریف ذہن میں رکھیے ۔سائنس وہ طریقہ کار (Procedure)ہے ‘ جس میں یہ دنیا بنی ہے اور چل رہی ہے ۔ مثلاً انسان جب کششِ ثقل (gravity)کے بارے میں جانتا ہے تو وہ اسے سائنسز میں درج کر لیتا ہے ۔ جب کہ مذہب خدا کی طرف سے انسانوں سے یہ مطالبہ ہے کہ زندگی کس طرح سے گزاری جائے ۔اب ان میں قدرِ مشترک کہاں سے پیدا ہوگئی ؟