"FBC" (space) message & send to 7575

وجودِ شیطان

ایک سیکولر دوست نے سوشل میڈیا پہ پوسٹ کیا ''ہمارے بہت سے دوست بلوغت کو پہنچنے کے بعد بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ شیطان نامی ایک مخلوق سچ مچ وجود رکھتی ہے اور وہ ماہِ رمضان میں کسی نا معلوم مقام پر قید بھی بھگتتی ہے۔ اسی معصومیت پہ کیوں نہ قربان جایا جائے؟‘‘
دو جملوں میں پوشیدہ ایک طلسمِ ہوشربا۔ اس کی گہرائیوں میں آپ اتریں گے تو دم بخود رہ جائیں گے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ شیطان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں‘ اگر اس کے ساتھ وجودِ خدا (Existence of God) کا تصور نہ جڑا ہو۔ ابلیس کی تمام تر حیثیت خدا کے وجود سے جڑی ہے۔ کبھی وہ اس کا ایک مقرب فرشتہ تھا۔ پھر آدم کو سجدے سے انکار پر وہ دربار سے نکال دیا گیا۔ تابہ ابد اس کے نصیب میں ذلت لکھ دی گئی۔ لیکن اگر خدا نہ ہوتا تو کون سا فرشتہ اور کیسا شیطان؟ 
کرّہ ٔ ارض پہ رہنے والے 7 ارب انسانوں میںسے تقریباً سوا ارب کسی بھی شکل میں خدا پہ یقین نہیں رکھتے۔ جب کہ دنیا کی تین بڑی متحرب مذہبی طاقتیں یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام دراصل ایک ہی مذہب کی تکمیل ہیں۔ مختصر الفاظ میں کہا جا سکتاہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک وہ ہیں‘ جو کہتے ہیں کہ زمین بننے کے تقریباً ایک ارب سال بعد کرّہ ٔ ارض کے ہنگامہ خیز دور میں‘ جب ہر طرف بجلیاں کڑک رہی تھیں‘ سمندروں میں ایک زندہ خلیہ اتفاقاً وجود میں آگیا۔ اتفاقاً اسے دو میں تقسیم ہونا آگیا۔ دو سے چار‘ چار سے آٹھ‘ یہ خلیات اپنی تعداد بڑھاتے رہے؛حتیٰ کہ وہ کثیر خلوی جانداروں میں تبدیل ہوئے۔ ان میں گردے‘ پھیپھڑے ‘ دل اور جلد پیدا ہوئی۔ پھر یہ کثیر خلوی جاندار زمین پہ اتر آئے۔ انہوں نے رینگنے والے جانداروں (Reptiles) کی صور ت میں زمین پر قدم رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی ٹانگیں نکلیں۔ یہ چار ٹانگوں پر چلنے لگے‘ میملز بن گئے۔ پھر ان میملز میں سے کچھ کا دماغ بڑا ہونے لگا۔ یہ پرائمیٹس بن گئے۔ ان پرائمیٹس میں سے ایک بالکل سیدھا کھڑا ہو کر مستقل طور پر دو ٹانگوں پہ چلنے لگا‘ اس کا نام ہومو سیپین ہے‘ عام زبان میں جسے ہم انسان کہتے ہیں۔ 
جو لوگ خدا پہ یقین رکھتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ پہلا خلیہ جب پیدا ہوا تو اس میں اپنی زندگی برقرار رکھنے کی اتنی صلاحیت موجود تھی‘ جو اتفاقاً پیدا نہیں ہو سکتی تھی بلکہ صاف نظر آتا ہے کہ کسی نے بڑی احتیاط سے اسے ڈیزائن کیا ہے ۔پہلے خلیے کا دو میں تقسیم ہونا اتفاق نہیں بلکہ پیمائشوں والے ڈیزائن کا نتیجہ ہے۔ اگر زمین پہ رہنے والے اربوں جانداروں میں سے ایک سیدھا کھڑا ہو کر لباس پہننے لگا ۔ آگ پر کھانا پکانے اور اپنے مُردوں کو دفنانے لگا ۔ وہ میزائل بنا کر اس کے ساتھ دوربین لگا کر اسے خلا میں بھیج کر کائنات کا جائزہ لینے لگا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک خاص الخاص مخلوق ہے ‘ جسے آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔
زمین پر جو مخلوقات پیدا ہوئیں ‘ وہ اتفاق نہیں ۔ کوئی انہیں ڈیزائن کرتا رہا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کا ایک ایک مہرہ بھی اس ڈیزائن سے ذرا سا کھسک جائے تو بندہ کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتا ۔ 
کوئی ذات تھی‘ جس نے بڑے حساب کتاب سے دو آنکھیں مناسب فاصلے پر بنائیں ‘ چہرے کے درمیان میں ناک بنایا۔ سر اور داڑھی کے بال ایک مکمل ڈیزائن کے تحت اگائے ۔ چہرے کو خوبصورتی اور ساخت دینے کے لیے سامنے والے دانت بنائے۔ چہرے کو انتہائی خوبصورت بنانے کے لیے اس کی چودہ ہڈیاں ڈیزائن کیں۔ ان چودہ ہڈیوں کے اوپر 43مسلز بنائے۔ ماتھے کو آنکھوں کی نسبت اوپر اٹھا کر ان پر بھنویں بنا ئیں اور حتیٰ کہ پلکیں ڈیزائن کیں ۔ یہ وہ ڈیزائنر تھا‘ جس نے مخلوقات کو نر اور مادہ کی تقسیم کے ساتھ دو جنسوں میں پیدا کیا۔ دلوں میں اولاد کی محبت پیدا کی ورنہ مخلوقات انہیں پیدا کر کے خود ہی کھا جاتیں ۔ 
تو بنیادی سوال صرف ایک ہی ہے ۔ خدا ہے یا نہیں ۔ لیکن شیطان کے وجود سے متعلق یہ طنز تہہ در تہہ گہرائی تک پھیلا ہوا ہے ۔ مسلمانوں میں سے بھلا کون ہے ‘ جو بچپن سے شیطان پر لعنت نہیں بھیجتا آرہا ۔ بھلا کسے دلچسپی ہوگی کہ شیطان کے وجود (Existence) کو ثابت کرنے کے لیے زور لگائے ۔ لیکن جو گہرائی میں دیکھ سکتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہے کہ یہ انکارِ شیطان نہیں ہے ۔ درحقیقت یہ کسی اور کا انکار ہے ۔
اصل میں انسان بنیادی غلطی تب کر بیٹھتا ہے ‘ جب وہ سمجھتا ہے کہ میں خود سوچ رہا ہوں ۔جب کہ دراصل انسانی ذہن پر اچھے اور برے خیالات الہام کیے جاتے ہیں ۔ فا لہمھافجورہا وتقوھا۔ پھر اس کا گناہ اور اس کی پرہیز گاری اس نفس پہ الہام کی۔ سورۃ الشمس 8۔تو انسانی ذہن پر اچھے او ربرے خیالا ت الہام ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہوتاہے ۔ انسان کا اصل دشمن اس کا نفس ہے ۔ آپ آسان ترین الفاظ میں اسے انسانی خواہشات کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں ۔ اس نفس کو خدا نے اپنا سب سے بڑا دشمن کہا ہے ۔ بنیادی طور پر یہی انسان کو غلطی پر اکساتا ہے ۔دولت کی محبت اور عورت کی محبت ‘ یہ دو بنیادی خواہشات ہیں جو 99فیصد وقت انسان کے دماغ پر چھائی رہتی ہیں ۔ اس کا اصل دھیان تو ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک پر ہی فکس رہتا ہے ۔ جب کہ وہ باقی سب کام عدم توجہ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سر انجام دیتا رہتاہے ۔ یہ سب کچھ خدا نے خود بنایا ہے ۔ شیطان کا اس سب میں کردار یہ ہے کہ یہ انسانی ذہن میں پھونکتا ہے ۔ جب انسان ایک چیز پر فوکس کرنا چاہتا ہے تو یہ چار اور چیزوں سے متعلق خیالات پھونکتا ہے ۔ حسبِ توقع نفس للچا کرانسان ان میں سے ایک کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ 
شیطان کی کوئی حیثیت نہیں۔ پہلے دن سے انسان کو زمین پر اتارنے کا فیصلہ خدا نے کر رکھا تھا ۔ اس کا ذکر فرشتوں سے اس ضمن میں پہلے خطاب سے ہوتاہے۔اللہ فرماتا ہے : انی جاعل فی الارض خلیفہ۔ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہو ں۔ شیطان اپنی عبادت کے زعم میں اندھا ہو چکا تھا۔ یہ اسی طرح ہے‘ جس طرح ہم عام لوگوں میں سے کوئی اگر ذرا سی نماز زیادہ پڑھنے لگ جائے تو اسے اپنا آپ متقی اور باقی سب فاسق نظر آرہے ہوتے ہیں ۔ خدا کو معلوم تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔ اسی لیے اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو ۔ اس لمحے شیطان بھی آزاد تھا۔ اگر وہ اپنے دل میں پیدا ہونے والے رنج و غم اور ناگواری کو کنٹرول کرتے ہوئے سجدہ کر دیتا تو یقینا خدا اسے حسد سے نجات دیتا۔ دنیا میں تو یہ چیز عام ہے ۔ آپ کامیاب ہونے والے اپنے دوست کو مبارک باد دے دیں اور اس کی خوشی میں شریک ہو جائیں تو کچھ ہی دیر میں حسد ختم ہو جاتاہے۔ ورنہ پھر وہ ایک مستقل بیماری بن کے انسان کو چمٹ جاتا ہے ۔ 
بہرحال شیطان کو اتنا سیرئیس خدا نے بھی نہیں لیا ۔ اصل دشمن تو نفس ہی ہے۔محفل میں آپ کی بات پر سب قہقہہ لگا دیں تو یہ نفس خوشی سے پھول کر کپا ہو جاتاہے ۔لیکن آپ شیطان کی چال پر غو ر تو کریں ۔ خدا کا انکار کروانے کے لیے وہ خود اپنے وجود کا انکار کر واتا ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں