"FBC" (space) message & send to 7575

صحت …( 3)

قدر تی طور پر صحت مند رہنا ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں ۔ بیماری ایک آزمائش ہے ‘ جو کہ ہر بندے پر اس کی استطاعت کے مطابق آتی ہے ۔ کچھ لوگ تو بیماری کو موت تک مسکراتے ہوئے برداشت کر تے ہیں ۔ جب کہ کچھ معمولی بیماری پر ہی بلکنے لگتے ہیں ۔ جب آپ ایلو پیتھک دوا لیتے ہیں تواس سے بیماری میں کمی کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ منفی اثرات (Side effects)بھی جسم پہ مرتب ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ آپ کیمیکلز لے رہے ہیں ‘ ٹافیاں نہیں کھا رہے ۔
ایلو پیتھی کبھی بھی اندازے سے علاج نہیں کرتی۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں ۔ ایک مریض حکیم کے پاس جاتاہے ۔ وہ کہتاہے کہ مجھے بھوک نہیں لگتی‘ متلی ہوتی ہے ۔ ایک دو لقمے کھا کر ہی اٹھ جاتا ہوں ۔ حکیم اندازہ لگاتا ہے کہ اس کے معدے میں خرابی ہے ۔ وہ اسے دوا دے دیتاہے ۔ یہی مریض جب ایلوپیتھک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کے ضروری ٹیسٹ کرتاہے ‘ پھر اسے حتمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مریض کو ہیپاٹائٹس بی کا وائرس ہے ‘ جو جگر کو خراب کر رہا ہے ۔ اس کے معدے میں سوزش ہے ۔یا اس کے معدے میں H Pylori نامی بیکٹیریا ہے ۔ 
میرے بڑے بھائی کا وزن بہت زیادہ ہے ۔ اس کی کمر میں اکثر درد رہتا تھا ۔ ریڑھ کی ہڈی کا ایم آر آئی ہوا۔ پتہ چلا کہ پیدائشی طور پر کئی مہرے کمزور ہیں ۔ بڑھے ہوئے وزن نے صورتِ حال اور خراب کر دی۔ نوجوانی میں تو وہ ورزش سے وزن کم کرتا رہا۔ اب اس کے لیے ورزش کرنا ممکن نہیں تھا ۔ پھر وہ دو تین بار گرا بھی ۔ مہروں کی تکلیف اور بڑھ گئی ۔ اسے ایک بہت بڑے ڈاکٹر بریگیڈئیر اسد قریشی کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دو انجیکشن لگائے ۔ وہ چلنے پھر نے کے قابل ہو گیا۔ وزن پھر بھی بہت زیادہ ہے اور بڑھا ہوا وزن بیماریوں کی جڑ ہوتاہے ۔ بلڈ پریشر ‘ شوگر اور دل کے امراض ۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ کم کھا کر اپنا وزن گھٹایا جائے ۔ ایک روٹی صبح‘ ایک شام اور دو تین پھل ۔ لیکن اگر کم کھانا کسی کے لیے بالکل بھی ممکن نہ ہو اور موٹاپا غیر معمولی ہو جائے تو چند سالوں میں دل سمیت بڑی بیماریوں کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ معدے کا آپریشن کروالیا جائے۔ آپریشن کرنے والا اپنے کام کا کتنا ماہر ہے ‘ یہ بھی بہت اہم ہے ۔ گاڑی چلاتے ہوئے ہاتھ کی ایک چھوٹی سے غلط حرکت ساری زندگی کا المیہ بن سکتی ہے ۔یہی کلیہ سرجن کے ہاتھ پہ بھی لاگو ہوتاہے ۔ 
مجھے ایک چھوٹی سی بیماری ہے ۔ خوراک کی نالی اور معدے کے سنگم پر لگا ہوا ڈھکن ایل ای ایس خراب ہے ۔ یہ کھلا رہتا ہے ‘ بند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خوراک معدے سے جب چاہے منہ کا رخ کرتی ہے ۔ میرے عزیزوں دوستوں نے اپنی محبت میں ٹوٹکے بتائے۔ امریکہ سے اعجاز صاحب نے ایک نسخہ بتایا ۔ میں نے اس مسئلے پہ بہت ریسرچ کی ۔ ڈاکٹر فیصل مراد ایک نامور سرجن ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سرجری ہونی چاہئیے لیکن یہ والی سرجری سب سے بہتر ڈاکٹر عامر نثار کر سکتے ہیں ۔ پھر برطانیہ میں ڈاکٹر انتظار کی مدد سے ڈاکٹر عامر نثار کا نمبر ملااور ان سے رابطہ ہوا ۔میں آپ کو علامات بتاتا ہوں ‘ آپ انہیں غور سے پڑھیں ۔ ڈکار بہت مشکل سے آتا ہے اور جب آتا ہے تو اس میں ہوا کی بجائے پانی پہلے آتاہے اور یہ پانی جا کر پھیپھڑوں میں لگتا اور جلن پیدا کرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دماغ قدرتی طور پر ڈکار کو گلے میں روکتا ہے تاکہ اس کے ساتھ موجود خوراک ‘ پانی اورتیزاب جا کر پھیپھڑوں سے نہ ٹکرائے ۔ 
اینڈو سکوپی‘ مونومیٹری اور بیریم swallow ٹیسٹ میرے پاس ہیں ۔ ہائیٹل ہرنیا کی تشخیص ہو چکی ہے ۔ معدے کا کچھ حصہ خوراک کی نالی کے اندر ہے ‘ لیکن ڈاکٹر عامر نثار نے بتایا کہ آپ کو والیوم ریفلکس بھی ہے ۔ 
آپ یقین کریں کہ یہ بالکل معمولی سا مسئلہ ہے ۔ جیسے آپ ایک شاپنگ مال میں داخل ہوتے ہیں تو دروازہ اپنے آپ کھل جاتا ہے ۔ یہ کام ہے اس ڈھکن کا ‘ جو مستقل طور پر کھل گیا ہے اور بند ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آپ اندازہ کریں کہ کس ہستی نے یہ ڈھکن ڈیزائن کیا ہوگا ‘ جو سات ارب افراد کے جسم میں ساری زندگی کھلتا اور بند ہوتا رہتاہے ۔ ہر دفعہ جب لقمہ اندر جاتا ہے تو یہ کھل جاتا ہے اور پھر بند ہو جاتا ہے ۔ جب کہ اللہ نے کیسا سسٹم بنایا کہ جو ہوا انسان کھانا کھاتے ہوئے نگل لیتاہے ‘ اس کے واپس باہر نکلنے کا بھی انتظام کیا۔ یہ سسٹم یہ تھا کہ معدے میں موجود خوراک کششِ ثقل سے نیچے بیـٹھ جاتی ہے ۔ جب کہ ہوا ہلکی ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھتی ہے اور اس ڈھکن کی درزوں میں سے نکل کر خوراک کی نالی میں چلی جاتی ہے اور پھرمنہ یا ناک کے راستے باہر نکل جاتی ہے ۔ کیسا کیسا ڈیزائن ہے ‘ جو اپنے آپ بن ہی نہیں سکتا اور پھر بھی لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں ۔یہی ہوا اگر وزنی ہوتی تو اسے کسی کا باپ بھی باہر نہیں نکال سکتا تھا۔ 
اس مسئلے سے مجھے کوئی خاص تکلیف تو نہیں ہوئی لیکن وقت بہت ضائع ہوا ۔آپ کو نیند آئی ہے لیکن خوراک کی نالی خوراک سے بھری ہوئی ہے ‘ وہ کئی گھنٹے آپ کو سونے نہیں دے گی ۔ پھر سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سونے اور جاگنے کا وقت اور نیند کا دورانیہ مقرر ہونا چاہیے ۔جسم کے اندر ایک گھڑی (circadian clock)ہوتی ہے ۔ وہ کنفیوز ہو جاتی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتی کہ سونا کس وقت ہے اور جاگنا کس وقت ۔ 
خیر آپریشن تو انشاء اللہ ڈاکٹر عامر نثار سے ہی کرانا ہے ۔ بندہ سب سے بہتر ایکسپرٹ کے پاس جائے اور پھر اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے ۔ سرجن جتنا بھی اچھا ہو‘ ہوتا تو وہ بھی انسان ہی ہے ۔ 
خوشخبری یہ ہے کہ ڈاکٹر فیصل مراد جیسا بڑا سرجن مجھے طب سے متعلق بہت سی معلومات دینے پر رضامند ہے ۔ یہ وہ ڈاکٹر ہیں کہ جن کے پاس ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں ہوتی اور جن کے ایک ایک منٹ کی قیمت محاورتاً نہیں ‘بلکہ حقیقتاً لاکھوں روپے ہے ۔ اگر اس طرح کی رہنمائی میسر ہواور بندہ محنت کرے ‘تو میڈیکل سائنس کو بہت بڑی حد تک سمجھا جا سکتاہے ۔ 
قصہ مختصر یہ کہ خون کے ٹیسٹ ‘ ایم آرئی ‘ الٹرا سائونڈاور اینڈو سکوپی سمیت تشخیص کے تمام تر ٹیسٹ صرف ایلو پیتھی کے پاس ہیں ۔ طالبِ علموں کو سخت ترین امتحانات سے صرف ایلوپیتھی میں گزارا جاتاہے ‘ جس میں نالائق شخص کا ڈاکٹر بننا ممکن ہی نہیں رہتا۔ سپیشلائزیشن صرف اور صرف ایلو پیتھی میں ہے ۔ مطلب یہ کہ دل‘ گردے اور جلد کے ڈاکٹر الگ الگ ہیں ۔ ویکسی نیشن ایلو پیتھی ہی میں ہے ۔ سٹینڈر ڈائزڈ ادویات صرف ایلو پیتھی میں ہیں ۔ ایک ہی فارمولا کی دوائی پوری دنیا میں موجود ہے۔ سرجری ہے ہی ایلو پیتھی میں اور اس کی معراج ‘جگر جیسا عضو ٹرانسپلانٹ کرنا ہے ۔ انستھیزیا دے کر مریض کو آپریشن سے پہلے بے ہوش کرنے کا بندوبست صرف ایلو پیتھی میں ہے ۔ سائنسدان طب میں جتنی بھی ایجادات اور دریافتیں کرتے ہیں ‘ ایلو پیتھی اسے فوراً پریکٹس میں لے آتی ہے۔ جلد ہی کینسر‘ موٹاپے اورذیابیطس کا cureبھی آنے والا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں