جہاں تک ہومیو پیتھی اور ایلو پیتھی کے موازنے کا تعلق ہے تو میرے والد کے ساتھ پیش آنے والا ایک عجیب واقعہ اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے ‘ جب زرداری دور میں علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد کو پہلی بار بند کیا تھا۔ رات گئے والد صاحب کو سخت تکلیف محسوس ہونے لگی ۔ درد کش ادویات لیں ۔ درد بڑھتا گیا۔ صبح سویرے سی ایم ایچ راولپنڈی پہنچے ۔ ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ پتّے میں پتھری ہے ‘ جس کے حرکت کرنے سے درد ہو رہا ہے ۔ بریگیڈئیر مکرم صاحب کو سرجری کرنا تھی لیکن جراحی سے پہلے سوزش کا ٹھیک ہونا ضروری تھا۔انہیں ہسپتال داخل کر لیا گیا ۔ خاندان میں ہومیو پیتھی کا استعمال عام ہے ۔ کئی ہومیوپیتھک ڈاکٹر حضرات بھی موجود ہیں ۔ والد صاحب نے ایلو پیتھک علاج کے ساتھ ساتھ پتّے کی پتھری سے متعلقہ ہومیو پیتھی دوا بھی شروع کر دی ۔ میں نے اعتراض کیا کہ دو علاج ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں تو میرے چچا محمد امین کہنے لگے کہ فکر نہ کرو‘ ہومیو پیتھی دوا ایلوپیتھی کی موجودگی میں ایسے چپ کر کے بیٹھی رہے گی ‘ جیسے بدمعاش کی موجودگی میں شریف بندہ بیٹھتا ہے ۔
ایک دن ڈاکٹر حضرات رائونڈ کرتے ہوئے گزرے تو اتفاقاً انہیں ہومیو پیتھی دوا کی شیشی نظر آئی۔ بس پھر کیا تھا ‘ وہ مسکرانے لگے اور ہومیو پیتھی پر ڈسکشن شروع کر دی ۔ چند دن گزرے تو آپریشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے دوبارہ ایم آر آئی کیا گیا ۔ یا للعجب ایم آر آئی میں پتھری وہاں موجود ہی نہیں تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی یہ توجیہہ پیش کی کہ ہو سکتاہے کہ پچھلے ایم آر آئی میں جسے ہم نے پتھری سمجھ لیا تھا‘ وہ سوزش تھی‘ جو کہ ادویات سے ختم ہو گئی ۔ بہرحال والد صاحب کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا ۔
کچھ عرصہ گزرا ۔ اتفاق کی بات ہے کہ علامہ طاہر القادری نے دوبارہ اسلام آباد پہ یلغار کر رکھی تھی کہ والد صاحب کو پھر شدید درد اٹھا۔ جیسے تیسے رات گزاری ۔ صبح سویرے پھر سی ایم ایچ پہنچے۔ٹیسٹ ہوئے تو یہ ایک بار پھر پتّے میں پتھری کا درد تھا۔ کمانڈنٹ صاحب نے‘ جن کا نام غالباً جنرل صلاح الدین تھا ‘ بریگیڈئیر مکرم کو فون کیا کہ ہارون الرشید صاحب پھر بیمار ہیں ۔ بریگیڈئیر مکرم نے کہا کہ وہ تو ہومیو پیتھی علاج کرواتے ہیں ۔ کمانڈنٹ صاحب بے اختیار مسکرائے ۔ والد صاحب کو داخل کرلیا گیا ۔ ایک بار پھر ادویات دی گئیں کہ سوزش ٹھیک ہو۔ اس کے بعد بریگیڈئیر مکرم نے سرجری کر کے پتّہ نکال باہر کیا۔ جب وہ آپریشن تھیٹر سے باہر نکلے تو مجھ سے کہا کہ آپ نے ٹھیک وقت پر آپریشن کروا لیا ۔ اس لیے کہ پتّہ سکڑ نا شروع ہو چکا تھا ۔ تاخیر سے نقصان ہو سکتا تھا۔ اب تجربے کرنے کی کوئی مہلت ہمارے پاس نہیں تھی ۔
اس واقعے سے آپ بالکل درست طور پر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس میڈیکل سائنس کی کیا محدودات ہیں ۔ اب ہوا کیا تھا ؟ کیا ایم آرآئی کے نتائج میں غلطی ہوئی۔ یا واقعی ہومیو پیتھک دوا نے پتھری کو غائب کر دیا تھا ۔ اگر ایسا ہی تھا تو ایک ڈیڑھ سال بعد دوبارہ پتھری کہاں سے پیدا ہو گئی ؟
اسی طرح جب ملک میں ڈینگی اپنے عروج پر تھا‘ والد صاحب نے اپنے کالم میں د وہومیو پیتھک ادویات کا ذکر کیااور نامور ہومیو پیتھک معالج ڈاکٹر رفیق کا ۔ اس سلسلے میں امریکہ میں نیشنل سینٹر فار نیچرل پروڈکٹس ریسرچ ایسو سی ایٹ‘ ڈاکٹر جنید الرحمٰن نے مجھ سے رابطہ کیا۔ مجھ سے ان ادویات کے نام معلوم کیے اور یہ کہا کہ وہ ان پر ریسرچ کے بعد مجھ سے رابطہ کریں گے ۔ پھر ان کی ای میل موصول ہوئی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ ادویات امیون سسٹم کو بہتر بناتی ہیں اور انہیں جلد پر لگا کر ڈینگی سے بچا جا سکتا ہے اور یہ سستی بھی ہیں ۔ ان کی ای میل میرے پاس موجود ہے ‘ جس میں سائنسی تفصیل موجودہے۔ ان میں سے ایک دوا Delphinium staphisagriaکے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ یونان اور روم میں ایک پودے Delphinium staphisagria سے یہ دوا بنائی جاتی تھی ۔پینے سے یہ دوا متلی کو روکتی تھی اور جلد پر لگانے سے یہ کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے سے بچاتی تھی ۔ اس ہومیو پیتھک دوا میں اسی پودے کے بیج استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پہلے ان بیچوں کو پیس دیا جاتاہے ۔ پھر ان میں الکحل ملائی جاتی ہے اور پھر مطلوبہ لیول تک اسے diluteکر دیا جاتاہے ۔ اس دوا کے کئی استعمال ہیں ‘ جن میں جوڑوں کی تکلیف بھی شامل ہے اور جلد میں انفیکشن بھی ۔
مسئلہ ادویات کا نہیں‘ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے اور معالج کی قابلیت کا۔ایم آر آئی ‘ سٹی سکین ‘ الٹرا سائونڈ‘ ایکو ‘ اینڈو سکوپی وغیرہ ایلو پیتھی کے علاوہ کہیں بھی استعمال نہیں ہو رہے ۔سرجری ایلوپیتھی کے علاوہ کہیں بھی نہیں ہو رہی ‘ اس لیے کہ کسی میںاس کی قابلیت ہی نہیں کہ جسم کو چیر کر دوبارہ درست کر سکے۔ جن لوگوں نے میڈیکل سائنس باقاعدہ نہیں پڑھ رکھی ‘ انہیں اس با ت کا علم نہیں کہ جسم اور دماغ کی مشنری کیسے کام کرتی ہے ۔ جسم کے کس حصے سے کون سی شریانیں اور nervesگزرتی ہیں ۔جوشخص معدے اورنظامِ انہضام کی شکل (Diagram)نہیں بنا سکتا لیکن ایک پڑیا سے اسے ٹھیک کرنے کا دعویٰ رکھتا ہے ۔ اس کی مثال ایک مکینک جیسی ہے ‘ جو گاڑی کے مختلف پرزوں کو نہیں پہچانتا لیکن کسی نہ کسی طرح اسے ٹھیک کرنے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے ہاتھ میں سٹیرائیڈز ہیں ‘ جادوئی اثرات والے سٹیرائیڈز۔ پھر ایلوپیتھی میں امتحانات بہت سخت ہوتے ہیں ۔ اکثر طلبا فیل ہو جاتے ہیں ۔
سٹیرائیڈز کے استعمال کی سب سے بڑی مثال تیزی سے وزن کم کرنا ہے ۔ بڑھا ہو اوزن کوئی بیماری نہیں ۔ یہ وہ اضافی خوراک ہے ‘ جو آپ روزانہ کھا رہے ہیں لیکن آپ کا جسم اسے استعمال کرنے سے قاصر ہے ۔ جب یہ بیماری ہے ہی نہیں اور جب آپ کھانے کی اپنی رفتار کم نہیں کر رہے تو روزانہ کی ایک پڑی کیسے آپ کا موٹاپا کم کر سکتی ہے ؟لیکن لوگ دھڑا دھڑ وزن گرا رہے ہیں ۔سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ ایلو پیتھک ‘ جو سب سے زیادہ جدید ہے ‘ اسے آپ سے کیا دشمنی ہے کہ وہ آپ کو یہ پڑیا نہیں دے رہی ؟ یہ سب مضرِ صحت کیمیکلز اور سٹیرائیڈز ہیں ۔جس طرح کہ ہم تیس دن کے چوزے کو کیمیکلز کھلا کر مصنوعی طور پر مرغی بنا کر کھا رہے ہیں ۔ خیر‘ اب موٹاپے اور کینسر کا cureبھی مارکیٹ میں آنے والا ہے ‘ جو مضرِ صحت نہیں ہوگا ۔
کالموں کی اس سیریز کا لبِ لباب یہ ہے کہ ایلو پیتھی ایک موٹر وے کی طرح ہے ۔ اس میں کنفیوژن نہیں ہے ۔ آپ کو ہر دس کلومیٹر بعد سنگِ میل نظر آجاتا ہے ۔ آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آپ کی منزل کتنے کلومیٹر دور ہے اور آپ کے پاس کتنا تیل موجود ہے ۔جو شخص گاڑی چلا رہا ہے ‘ اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے ۔آپ منزل پر پہنچنے کے قابل ہیں یا آپ کا تیل ختم ہونے والا ہے ‘ آپ بخوبی جانتے ہیں ۔ معجزہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ جب کہ دوسرے طریق ہائے علاج جنگل سے گزرنے والے شارٹ کٹس ہیں ‘ جن میں بہت سی بلائیں پھر رہی ہیں۔ سنگِ میل کوئی نہیں اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیور اندازے سے گاڑی دوڑا رہا ہے ۔ اب یہ شارٹ کٹ آپ کو منزل پہ پہنچاتا ہے یا دوسری دنیا میں ‘ یہ آپ کی قسمت!