"FBC" (space) message & send to 7575

عہد ِغلامی

کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہم سب غلام ہوچکے ہیں ۔ ہماری ایک ایک حرکت مانیٹر کی جا رہی ہے ۔ نگرانی کرنے والے ہمیں ہمارے ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھی زیادہ جانتے ہیں ۔ ہم اپنے actionsمیں غلام ہیں اور حتیٰ کہ اپنی سوچ میں غلام ۔ ہم اپنے سمارٹ فونز کے غلام ہیں ۔تیزی سے بیٹری ختم ہونے والے ان سمارٹ فونز کو زندہ رکھنا ہماری اوّلین ترجیح ہے ۔ ہم ڈرائیونگ کے دوران بار باردیکھتے ہیں کہ فون چارج ہو رہا ہے یا نہیں ؟ کئی بار توانسان صرف اسے چارج کرنے کے لیے ایک جگہ بیٹھا رہتاہے ۔ اس وقت چارجر کی تار ایک رسی کی طرح ہوتی ہے ‘ جسے ایک جانور کے گلے میں باندھ دیا گیا ہو ۔ جہاں کہیں فرصت کا ایک منٹ میسر آتا ہے ؛حتیٰ کہ جب چند لمحات کے لیے گاڑی اشارے پہ رکتی ہے‘ تو فوراً ہم دوسروں کی تصویریں اور statusدیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔انسان ان میں کھو سا جاتا ہے ۔اکثر پچھلی گاڑی کاہارن ہی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اشارہ کھل چکا ہے ۔ کئی مرتبہ اگلی گاڑی جب بہت ہی سست رفتار سے چل رہی ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طرح آدمی جب اسے اوور ٹیک کرنے لگتا ہے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ موبائل استعمال کر رہا ہے ۔ 
دن بھر میں جہاں او رجب بھی موقع ملتا ہے تو ہم درجنوں دفعہ دوسروں کی تصاویر اور statusدیکھتے ہیں ۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں ‘ جن کا ہماری زندگی میں کوئی بھی حصہ نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف اُس شخص کو بھی معلوم ہوجاتاہے کہ ہم نے اس کی تصاویر دیکھ لی ہیں ؛چنانچہ اب اخلاقاً کوئی نہ کوئی commentکرنا پڑتا ہے ‘ پھر جواباً وہ شکریہ ادا کرتا ہے ۔ اس کے بعد اب اس کی باری ہوتی ہے کہ وہ ہماری تصاویر پر اپنے کمنٹس ارسال کرے ۔ یوں وقت ضائع کرنے کا ایک لامتناہی سرکل شروع ہو چکا ہے ۔ 
ہم گاڑی دھلوانے جاتے ہیں ۔ انتظار کے ایک گھنٹے میں لگ بھگ پینتالیس منٹ بندہ سوشل میڈیا استعمال کرتاہے ۔ جب ہم گاڑی چلانے لگتے ہیں تو تیز آواز میں میوزک آن ہوجاتاہے ۔ ڈرائیونگ کے دوران اچھے گانے playکرنا اور موبائل کی چارجنگ ہماری اوّلین ترجیح بن جاتی ہے ۔ کسی بھی کام؛ حتیٰ کہ کالم لکھنے دوران پچیس سے تیس بار موبائل فون اٹھا کر اس کا جائزہ لینا ایک ایسا عمل بن چکا ‘ جو انسان ایک معمول کی طرح سرانجام دیتاہے ۔ دماغ نے اب سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دماغ اب یکسو نہیں رہا ‘ concentrateنہیں کر سکتا۔ انسان اپنے بیوی بچوں ‘ بہن بھائیوں اور ماں باپ سے بھی بہت کچھ چھپاتا ہے ‘ لیکن ہم جو سائبر زندگی گزار رہے ہیں ‘ اس میں ہمارے سارے کام ریکارڈنگ اور مانیٹرنگ سے گزر رہے ہیں ۔انہیں یہ تک علم ہے کہ آپ پچھلے ایک سال میں کس دن‘ کس وقت ‘کس جگہ پر گئے۔ جب بھی آپ کسی عوامی جگہ سے ہو کر گھر واپس آتے ہیں تو موبائل پر ان کا ایک پیغام موصول ہوتاہے کہ یہ جگہ کیسی تھی ؟اسے ریٹنگ دیجیے ۔ 
ہم کون سی ویب سائٹس کھولتے ہیں ۔ کس چیز پر کلک کرتے ہیں ‘ یہ سب ریکارڈہو رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں میرے ذوق او رذہن کا پتا ہے ‘اسی چیز سے متعلق ویڈیوز ‘ اشتہار اور ای میلز مجھے دھڑا دھڑ موصول ہونے لگتے ہیں ۔دوربین‘ جسے انسان نے دور تک دیکھنے کے لیے بنایا تھا‘ اب خلا میں زمین کی طرف منہ کر کے گھوم رہی ہے ۔ ان دوربینوں اور سیٹیلائٹس کی مدد سے وہ جب چاہیں ‘ہمیں دیکھ سکتے ہیں ۔ 
ان کے پاس کس قدر مکمل ڈیٹا ہے ۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پانچ سال پہلے ایک خاص دن میں نے اپنی کون سی تصویر پوسٹ کی تھی ‘ نا صرف میں اسے دوبارہ دیکھ سکتا ہوں ‘بلکہ میرے سب contactsبھی ‘ یعنی privacyختم ہو چکی ہے ۔ 
ا نسان کو عافیت میں رکھنے والی خاموشی ختم ہو چکی ہے ۔ اب ہر بندہ ہر معاملے میں کھل کر بولتا ہے ۔وہ اپنے نظریات کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی خاطر دن رات محنت کرتاہے ۔نا صرف یہ کہ ہر بندہ حسب ِ توفیق مخالف نظریات والوں کی بے عزتی کر رہا اور اپنی کروا رہا ہے‘ بلکہ یہاں آپ کسی نہ کسی گروہ کا حصہ ہیں ۔ ہر گروہ نے دوسرے کے لیے تضحیک آمیز نام تخلیق کیے ہیں ۔ آپ یوتھیئے ہیں ‘ پٹواری ہیں ‘ لبڑل ‘ اور موچی‘وغیرہ وغیرہ۔ ایک دوسرے کی گوشمالی کے لیے سٹیج ڈراموں کے فحش لطیفے سنائے جاتے ہیں ۔ جو لوگ اس سارے نظام کو چلا رہے ہیں ‘ وہ اسلامی ایام سمیت مختلف نازک مواقع پر فرقہ ورانہ پوسٹیں سوشل میڈیا پہ ڈال کر خود غائب ہو جاتے ہیں ۔ بس ‘پھر کیا ہے ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہو جاتاہے ۔ ہر طرف سے گالم گلوچ اور لعن طعن شروع ہو جاتی ہے ۔ ''یہودی ایجنٹ ‘‘ اور کافر سے لے کر ہر قسم کے فتوے ایک دوسرے پر لاگو کیے جاتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ بیٹا اس باپ سے سیاسی صورتِ حال پہ جھگڑ رہا ہوتاہے ‘ جوکبھی اسے اپنے کندھے پہ اٹھائے پھرتا تھا۔
ہر طرف تلخی ہی تلخی ہے ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر آپ اپنی پوسٹ کے نیچے دیے گئے 100کمنٹس میں سے ایک ایک کا جواب نہ دیں تو آپ بداخلاق ہیں ۔ اور ‘اگر آپ سب کا جواب دیں‘ تو آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے ۔ اب‘ بتائیں کیا کرنا ہے‘ اس صورتِ حال میں ؟ یعنی بندہ کرے تو کیا کرے؟
دوسری طرف ‘دوسرے کی بے عزتی کے لیے ہر بندہ ایک جال بچھا رہاہے اور موقعے کی تاک میں ہے ۔ ذر ا کوئی میری سگریٹ وغیرہ پیتے ہوئے تصویر پر کوئی اعتراض کرے ‘تو میں اسے ایک جاہل اور گنوار شخص ثابت کروں ۔ ایک گروہ‘ دوسرے لوگوں کو پرانے زمانے میں زندگی گزارنے والے ہونق ثابت کرنے پر تلا ہے ۔ جواباً وہ انہیں مغرب کی دہلیز پہ سجدہ ریز بے شرم ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ 
الغرض سوشل میڈیا کی دنیا میں ہر طرف دنگل کا سماں ہے ۔
ہر انسان کے ایسے دوست اور دشمن بن چکے ہیں ‘ جن سے اپنی زندگی میں وہ کبھی بھی نہیں ملا‘بلکہ یہ یقین سے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ واقعتاً existبھی کرتے ہیں یا نہیں ؟ لیکن ان دوستوں اور دشمنوں کو وقت دیا جا رہا ہے ۔ جب بھی ہم کسی نئے شخص کی دوستی کی درخواست منظور کرتے ہیں تو فوراً حکم ملتاہے کہ اپنے اس نئے دوست کے ساتھ ہائے ہیلو کرو !اکثر انسانی دماغ کسی ایک بڑی کیفیت کے زیراثر جیتا ہے ۔ باقی سب معاملا ت کو وہ ثانوی اہمیت دیتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ 99فیصد وقت انسانی دماغ دو بڑی خواہشات ‘ دولت کی محبت اور عورت کی محبت کے زیر اثر رہتاہے ۔موجودہ صورتِ حال میں کاروبار سوشل میڈیا کی طرف شفٹ ہو رہا ہے ۔ ہر طرف حسین چہرے بکھرے ہوئے ہیں ۔ یہیں سے کچھ لوگ دوسروں کو ٹریپ کر رہے ہیں ۔ ان باکس کے سکرین شاٹس سامنے آرہے ہیں ۔یہ بدنامی کا ایک دور ہے ‘ جس میں سے سب لوگ باری باری گزر رہے ہیں ۔اپنی ہر بات پر تالیاں مارنے والے کو انسان سچا دوست سمجھتا ہے ۔ اختلاف اور رد کرنے والا دشمن ہے ۔
خدا کی وہ مدد کہاں ہے ‘ جس نے نفس اور شیطان سے انسان کی مدد کرنا ہے ۔ وہ یہیں ہے ؛ اگر‘ لیپ ٹاپ اور موبائل فون بند کر کے ایک گھنٹہ انسان تیز واک کرے اور اس دوران اس صورتِ حال پہ غور کرتا رہے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل سکتاہے ‘ورنہ تو ہم سب جیسے ہپنا ٹائزڈ ہو چکے ہیں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں