آر ٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت ) آج کے دور کی ایک ایسی چیز ہے ‘ جس پر دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے ۔ مصنوعی ذہانت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طرف سے لوہے کی بنی ہوئی مشینوں کو کچھ ذہانت دی جائے‘ جس سے کام لے کر وہ خود فیصلہ کرنے اور اقدامات اٹھانے کے قابل ہو سکیں ۔ وہ جہاز اڑا سکیں‘ بٹن دبا سکیں اور انسان کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے لیے مختلف کام سرانجام دے سکیں۔
انسان جیسی شکل و صورت رکھنے والے روبوٹس کو humanoidروبوٹس کہا جاتاہے ۔ جاپان سمیت دنیا بھر میں یہ روبوٹ بنائے جا رہے ہیں ۔ انہیں کسی حد تک مصنوعی ذہانت دی جا رہی ہے ۔ یہ چل پھر سکتے ہیں ۔ چھلانگ لگا سکتے ہیں ۔ انسان کومشروبات فراہم کر سکتے ہیں ۔ انہیں توازن برقرار رکھنا سکھایا جارہا ہے ۔ یہ جھک کر ایک ڈبہ اٹھاکر اسے مطلوبہ مقام پہ رکھ سکتے ہیں ۔ اس دوران تجرنے کے طور پر ان پر ہاکی سے وار کیا جاتاہے ۔ یہ گر جاتے ہیں ‘ پھر یہ دوبارہ کھڑے ہوتے ہیں اور یہ دوبارہ ڈبہ اٹھاتے ہیں اور اسے اس کی مطلوبہ جگہ پر رکھ دیتے ہیں ۔
لیکن انسان جیسے جیسے روبوٹس کو مصنوعی ذہانت دے رہا ہے ‘ ویسے ویسے اس کے اندر ایک خوف طاقتور ہو تا جار ہا ہے ۔ انسان سوچتا ہے کہ اگر کسی دن روبوٹس نے مصنوعی ذہانت سے کام لیتے ہوئے‘ انسان کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالنے کا فیصلہ کیا‘ اس دن کیا ہوگا؟ آپ نے ایک روبوٹ کو مصنوعی ذہانت دی ۔ آپ اسے حکم دیتے ہیں کہ میرے لیے مشروب لے کر آئو۔ وہ مشروب آپ کے ہاتھ میں پکڑانے کی بجائے آپ کے سر پہ دے مارتا ہے اور اپنی لوہے کی ٹانگ آپ کے پیٹ میں مار دیتا ہے ‘ پھر آپ کیا کریں گے ؟ اس موضوع پر دنیا بھر میں فلمیں بن رہی ہیں ۔ ان فلموں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مائیکرو پروسیسرز سے لیس یہ آہنی روبوٹس انسان سے چھپ کر ایک دوسرے سے رابطے شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں انسان کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔ ان دن جب انسان سوکر اٹھتا ہے تو جہاز اڑانے اور گاڑی چلانے سے والے یہ روبوٹس اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔اور وہ پلٹ کر انسان پر حملہ کر دیتے ہیں ۔اب ؛ چونکہ گوشت پوست کا بنا ہوا انسان لوہے کی بنی ہوئی مشینوں کے وار سہہ نہیں سکتا۔ وہ بھاگنے کی کوشش کرتاہے ‘لیکن یہ وہ وقت ہوتاہے ‘ جب کرّہ ٔ ارض کے مختلف حصوں میں موجود یہ روبوٹس آپس میں بھرپور رابطے میں ہوتے ہیں ۔ وہ اسے بھاگنے نہیں دیتے ‘بلکہ اسے چن چن کر قتل کر ڈالتے ہیں ۔
یہ ایک ایسا خوفناک scenarioہے ‘ جس سے سائنسدان انسان کو متنبہ کر تے رہے ہیں ۔ مشہور سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے بھی کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت کرّہ ٔ ارض سے انسانی حکمرانی کا خاتمہ کر سکتی ہے ۔لہٰذاانسان اس سوچ میں گم ہے کہ روبوٹس اور مشینوں کو کتنی ذہانت دی جائے‘ جس کی وجہ سے وہ انسان کی خدمت بھی کرتی رہیں اور کبھی بغاوت کا بھی نہ سوچیں ۔ جب آپ ایک چیز کو سوچنے اور خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت مہیا کر رہے ہیں تو خدا جانے ‘ کس وقت وہ آپ سے باغی ہو جائے۔ یہ وہ لمحہ ہے ‘ جہاں انسان کے اندر کا بے پناہ خوف انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتا ہے۔ فلموں میں یہ دکھایا جاتاہے کہ انسان مشینوں اور روبوٹس کی بیٹریوں پہ حملہ کر کے انہیں بے جان کر دیتا ہے اور یوں وہ اپنی جان بچاتا ہے ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ انسان خود مصنوعی ذہانت پہ چل رہا ہے ۔ انسان کو خدا کی طرف سے مصنوعی ذہانت دی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کتے ‘بلی جیسی دیگر مخلوقات حیاتیاتی طور پربالکل انسان کے قریب ہونے کے باوجود عقلی طور پر اس سے کھربوں میل دور ہیں ۔ جہاں تک اپنی حسیات (senses)سے کام لے کر کھانے پینے اور اپنی جان بچانے تک کا تعلق ہے‘ تو اس میں انسان اور جانور ایک برابر ہیں ۔ یہ ایک لوکل عقل ہے ‘ جس میں بندر جیسے جانور انسان سے کہیں بہتر ہیں‘ لیکن انسان کو جو غیر معمولی آسمانی عقل دی گئی ہے ‘ اس سے کام لے کر انسان نے ایسے میزائل بنائے ہیں ‘ جو دوسرے سیاروں تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے واپس زمین تک آتے ہیں ۔ اس نے قدرتی طور پر پائے جانے والے عناصر سے آگے بڑھ کر بیس پچیس نئے عناصر تخلیق کر دیے ہیں ۔ وہ زمین کے نیچے سے تیل اور لوہا نکال کر جہاز بنا کر اڑارہا ہے ۔ وہ انجن بن بیٹھ کر دور دراز کے سفر تیزی سے طے کر رہا ہے اور ہوا میں اڑ رہا ہے ۔ وہ کائنات کا جائزہ لے کر بلیک ہولز پرمقالے لکھ رہا ہے ۔ دجا ل کے پاس جو آفات لانے ‘ جیسے کہ بارشیں برسانے جیسی طاقتیں ہوں گی ‘ وہ سب انسان کی سائنسی ترقی کی مرہونِ منت ہوں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ دجال ایک مقام تک پہنچ کر خدائی کا دعویٰ کر دے گا۔ اسی عقل سے کام لے کر انسان ایٹم بم بنا کرگرا چکا ہے ۔
لیکن خدا کو کبھی اس چیز سے خوف محسوس نہیں ہوا ‘ جیسا ہمیں روبوٹس کو مصنوعی ذہانت دیتے ہوئے محسوس ہوتا ہے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرّہ ٔ ارض میں کوئی بھی ایسی چیز موجودنہیں ہے ‘ جس پر بیٹھ کر انسان اس نظامِ شمسی سے باہر نکل کر کسی دوسرے ستارے تک جسمانی طور پر پہنچ سکے ۔ پھر وہ وہاں سے مزید وسائل (resources)اکھٹے کر کے اگلے ستاروں کا رخ کر سکے ۔ یوں آہستہ آہستہ وہ اس کائنات میں سے باہر نکل کر خدا تک پہنچ سکے ۔ سائنسی ترقی کے اس خیرہ کن دور میں آج ‘اگر آپ ایک راکٹ پر بیٹھ کر ہمسایہ ستارے الفاسینٹوری تک پہنچنا چاہیں‘ تو اس کے لیے 75ہزار سال کا سفر درکار ہے ۔ انسان سب کچھ دیکھ سکتاہے ‘مگر شایدکر کچھ نہیں سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسان کو خدا کی طرف سے کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جو کرنا چاہتا ہے ‘ بشمول خدائی کے دعوؤں کے ‘ وہ کر گزرے ۔ خدا چیلنج دیتاہے کہ اگر تمہارے پاس اتنی طاقت موجود ہے کہ تم زمین و آسمان کی سرحدوں سے باہر نکل سکو‘ تو نکل جائو... لیکن کبھی آپ اس بات پر غور کریں کہ انسان تو روبوٹس کو ذرا سی مزید ذہانت دیتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھار ہا ہے ۔ دوسری طرف خدا نے انسان کو کس قسم کی خوفناک عقل بغیر اتنی فراوانی کے ساتھ فراہم کر دی ہے کہ کرّ ہ ٔ ارض پہ اس وقت سات ارب افراد اس سے مالا مال ہیں ۔ یہ انسان گزشتہ چالیس پچاس ہزار سال سے زمین کے نیچے سے لوہا‘ تیل اور مختلف معدنیات نکال کر ان سے انجن سمیت مختلف اوزار اور آلات بنا رہا ہے اور اسے کھلی چھوٹ دی گئی ہے‘ ناصرف یہ ‘بلکہ پچھلے پچاس ہزار سال سے انسان کو کھلی آزادی دی گئی ہے کہ ہر انسانی نسل اپنا علم اگلی نسل کو منتقل کر سکے اور اسے یہ کھلا چیلنج دیاگیا ہے کہ ہزاروں سالوں کی سوچ بچار اور مشقت سے کام لے کر اگر وہ اس قابل ہو سکتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے باہر نکل کر سکے تو نکل جائیں ‘ لیکن وہ نکل نہیں سکتا۔
انسان نے اس عقل سے کام لے کر کائنات کی تخلیق اور اس کے اختتام کے بارے میں ہزاروںتھیسز لکھ مارے ہیں ‘لیکن پھر بھی وہ کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ کائنات پر اپنی مکمل حکمرانی قائم کر سکے ۔