"FBC" (space) message & send to 7575

کون؟

کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا جواب کبھی نہیں ملتا ‘خواہ انسان کتنا ہی سوچتا رہے ۔ 
زندگی اور دماغ کو اس طرح سے بنایاگیا ہے کہ یہ سب سے بڑی چیز کو سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اہمیت دیتا ہے ۔دماغ کا ایک فلسفہ ٔ ترجیحات ہے‘ جو چیز زیادہ اہم ہوتی ہے ‘ اس کے لیے باقی کم اہم چیزوں کو انسان نظر انداز کرتا ہے ۔ کم اہم چیز کو وہ دوسرے ‘ تیسرے اور چوتھے نمبر پر رکھتا ہے ۔ میں آپ کو آسان الفاظ میں دماغ کا یہ فلسفہ ٔ ترجیحات سمجھاتا ہوں ‘ جس پر ہم میں سے ہر شخص اپنی پوری زندگی عمل کرتاہے ۔ 
آپ نے روزہ رکھا۔ شدید بھوک کا عالم ہے ۔ اچانک آپ کے باس کی کال آتی ہے ۔ وہ کہتاہے کہ میں آپ سے آپ کی پروموشن پر بات کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ کہیں گے کہ سر ابھی تو میں روزہ کھولنے لگا ہوں ۔ برائے مہربانی مجھے آدھا گھنٹہ دے دیجیے ۔ اذان ہوتی ہے ۔ آپ پہلا لقمہ منہ میں ڈالنے لگتے ہیں کہ اچانک آپ کے سامنے آپ کا چھوٹا سابچہ سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہو جاتاہے ۔ آپ اپنی شدید ترین بھوک کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے اٹھا کر ہسپتال کی طرف بھاگیں گے ۔ دماغ کی ترجیحات میں شدید بھوک مٹانا پہلے نمبر پر تھاکہ زندہ رہنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ پروموشن دوسرے نمبر پر تھی۔ بیٹے کو لگنے والی چوٹ نے ان دونوں کو پیچھے دھکیل دیا ۔ اب پہلے بیٹے کی مرہم پٹی کی جائے گی ‘ پھر بھوک مٹے گی ‘ اس کے بعد باس سے پروموشن پر بات ہو گی ۔ جب کہ زخمی بیٹا اور شدید بھوک نہ ہوتے تو پروموشن پہلے نمبر ہوتی ‘ جس کے لیے انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے ۔ 
یہ فلسفہ ٔ ترجیحات انسان کی پیدائش کے فوراً بعد اس کے دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور قبر تک اس کے ساتھ جاتا ہے ۔دماغ میں اس طرح کی کیلکولیشنزساری زندگی ہوتی رہتی ہیں ‘ جس میں ہر چیز کی اہمیت کا تعین کیا جاتاہے ۔ ہر چیز کو اس کی اہمیت کے حساب سے respond کیاجاتا ہے ۔
اگلے روز عید ہے ۔ آپ نے اپنے بیوی بچوں کے کپڑے لینے ہیں ۔اچانک آپ کا کاروباری شراکت دار فون کر کے کہتا ہے کہ اسے ایک اہم کاروباری منصوبہ ڈسکس کرنا ہے ۔ آپ اس سے کہتے ہیں کہ آج‘ اگر بیوی بچوں کے کپڑے نہ لیے تو کل وہ عید نہ منا سکیں گے ۔ سب کی خوشیاں غارت ہو جائیں گی ۔جب آپ گھر سے نکلتے ہیں تو آپ کی گاڑی کی ٹکر سے ایک بندہ شدید زخمی ہو جاتاہے ۔ آپ اسے اٹھا کر ہسپتال کی طرف بھاگتے ہیں ۔ آپ کے عید کے سارے پلان اس وقت کہاں ہوتے ہیں ‘ جن کے لیے آپ نے کاروبار کو بھی پس پشت ڈال دیا تھا؟ آپ کو اس شخص کی موت کی صورت میں پھانسی کا پھندہ اپنی گردن میں فٹ ہو تا نظر آرہا ہوتاہے ۔اب بیوی بچوں کو کپڑے بھول جاتے ہیں ۔ سب کے ذہن میں ایک ہی نکتہ گردش کر رہا ہوتا ہے کہ یہ شخص زندہ بچ جائے‘ پھر معافی تلافی ہو جائے‘ عیدیں آتی رہیں گی ۔ 
آپ میری بات بخوبی سمجھ رہے ہوں گے ۔ سب سے اہم چیز ہے پھانسی سے بچنا‘ دوسرے نمبر پر عیدکے کپڑے ہیں ‘ تیسرے نمبر پر نیا کاروباری منصوبہ ۔ دماغ جب تک پھانسی سے بچنے کے ساتھ ڈیل نہیں کر لیتا ‘ تب تک اسے عید یاد نہیں آئے گی ۔ 
جب بچہ ماں کی گود میں ہوتا ہے تو اس کے لیے دنیاکی سب سے قیمتی چیزاس کی ماں ہی ہوتی ہے ۔ جب وہ بڑا ہوتاہے تو آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز حاصل کرنے کے لیے پیسہ چاہیے ۔ اس طرح اس کے لیے دولت‘ سب چیزوں سے اور رشتوں سے اہم سے اہم ترہوتی چلی جاتی ہے ۔ 
میرے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کا فرمان یہ ہے کہ خدا صرف اسے ملتا ہے ‘ جو خدا کو اپنی ترجیح ِ اوّل بناتا ہے ‘ کیونکہ قدرت کو یہ بالکل گوارا نہیں ۔ وہ کبھی‘ کسی قیمت پر بھی دوسرے ‘ تیسرے نمبر پر رہنا گوارا نہیں کرسکتی۔ 
استاد یہ بھی فرماتے ہیں کہ کہ لوگ یادداشت کی کمزوری کا گلہ کرتے ہیں؛حالانکہ یادداشت کمزور نہیں ہوتی ‘بلکہ سارا فوکس کسی ایسی چیز پر لگا ہوتاہے ‘ جو کہ ان کے دماغ کے نزدیک دنیا کی اہم ترین چیز ہوتی ہے ۔انسان اعتدال کی حدود سے نکل جاتاہے اور اس کا جینا مرنا صرف اور صرف ایک چیز کے لیے ہوتاہے اور اکثر کیسز میں وہ چیز ہوتی ہے ‘دولت ۔
خوف بھی فلسفہ ٔ ترجیحات طے کرنے میں ایک بڑا بنیادی کردار ادا کرتاہے ۔ فرض کریں کہ آپ ایک گائوں میں رہتے ہیں ۔ زمین کے تنازعے پر ایک شخص آپ کو قتل کی دھمکیاں دیتا ہے ۔پندرہ سال پہلے بھی وہ ایک شخص کو قتل کر چکا اور کئی سال جیل میں رہ چکا ہے ۔ اب آپ کے لیے دنیا کی سب سے اہم بات اپنی جان بچاناہوگی ۔باقی سب کچھ ثانوی حیثیت اختیار کر جائے گا؛ حتیٰ کہ آپ کی شادی کی تقریب ‘ جو کہ بیس دن بعد منعقد ہونا ہے ‘ آپ کو مطلق بھول جائے گی ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ سب سے زیادہ اہم چیز کے سامنے آتے ہی باقی تمام چیزوں کو ثانوی حیثیت دے ڈالتاہے ۔وہ سب سے اہم چیز کو پہلے حل کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے بعد باقی چیزوں کو بھی دیکھ لیا جائے گا۔ 
یہاں تک کا سارا فلسفہ آپ کی سمجھ میں آچکا ہوگا۔ اس کے بعد اب اس بات کی طرف آجائیے ‘ جو کہ سمجھ میں نہیں آرہی ۔شادی کرنے سے لے کر ‘ بچوں کو سکول داخل کرانے تک ‘ آٹا خرید کر لانے سے لے کر عید کی تیاری تک اور اپنے بچوں کی سالگرہ منانے سمیت ‘ میں ہر چیز کو اس کی اہمیت کے مطابق respondکر رہا ہوں ۔ جب کہ اس دوران میں اپنی زندگی کی سب سے خوفناک حقیقت کو مکمل طور پر بھول چکا ہوں ۔ یہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایک دن مر جانا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مستقبل میں کسی بھی وقت رونما ہونے والی میری یہ موت میری زندگی کی سب سے اہم حقیقت‘ میری پہلی ترجیح ہوتی ۔میرا ہر منصوبہ اس موت کو ذہن میں رکھ کر تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ اپنے جس بچّے کو روز چومتا چاٹتا ہوں ‘ مستقبل میں اس کی متوقع موت کی وجہ سے مجھے ہر لمحہ غمزدہ رہنا چاہیے تھا‘لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ 
حتیٰ کہ اگر انسان اپنے سامنے کسی کو دفن ہوتے ہوئے بھی دیکھے تو اسے بیچارہ کہہ دیتاہے کہ وہ مر گیا۔ اس وقت بھی یہ یقین نہیں آتا کہ میں مر جائوں گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب انسان کسی کو دفن ہوتا ہوا دیکھے تو اس لمحے سے اس کی زندگی بدل کے رہ جائے ۔کبھی نہیں بدلتی! 
ہوتا تو یہ ہے کہ دشمن اور ناگہانی کا وجود جتنا بڑا اور یقینی ہو‘ بندہ اتنے ہی خوف میں رہتا ہے‘ لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں ہورہا‘جبکہ میری اور میرے بچّے کی موت سو فیصد یقینی ہے ۔ مجھے علمی طور پر اس بات کا پتا ہے کہ میں نے لازماً مر جانا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میری موت جیسا خوفناک ترین ایونٹ مجھے مسلسل اپنے صدمے اور غم میں رکھتا ‘ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے ۔کوئی ہے میرے اندر جو مجھے موت بھلائے بیٹھا ہے ۔ جو مجھے یقین دلاتا ہے کہ میں کبھی نہیں مروں گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چادر ڈالی گئی ہے ۔ انسان کو موت بھلا دی گئی ہے ۔ 
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان کو موت بھلانے والی ہستی کون ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں