کبھی کبھی انسان ایک ایسا منظر دیکھتا ہے کہ اس کے دماغ میں وہ نقش ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ذہن اس کی گہرائی اور باریکی میں اترتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں آدمی پر کبھی کبھی ایک بہت بڑا راز منکشف ہو جاتا ہے ۔ دو سال قبل ایسا ہی ایک منظر میں نے دیکھا ۔ میں نے دیکھا کہ میرا بھتیجا اپنی سائیکل باہر نکالتا ہے ۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ہم عمر بچّہ اس کی طرف دیکھتا ہے ۔ وہ گھروں میں کام کاج کرنے والی ایک خاتون کا بیٹا ہے ۔ وہ میرے بھتیجے سے کہتاہے : تم سائیکل چلائو‘ میں تمہارے پیچھے بھاگتا ہوں ۔ مجھے صدمہ ہوا۔ میں نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ اس لڑکے کو بھی اپنی سائیکل چلانے کے لیے دیا کرے ۔ معلوم ہوا کہ وہ تو ہمیشہ اسی طرح سائیکل کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہتا ہے ۔ وہ سائیکل خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن جب بچّے سائیکل چلاتے ہیں تو وہ پیچھے پیچھے بھاگتا رہتا ہے ۔اُس کی آنکھوں میں سائیکل چلانے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ وہ میرے دل کے اندر تک اتر گئی ۔ اپنے آپ سے میں نے سوال کیا: دنیا ایسی کیوں ہے ‘ جب کہ خدا تو انصاف کرنے والا ہے ۔
کافی عرصہ میں اس سوال پہ غور کرتا رہا۔ اس دوران بہت دلچسپ انکشافات ہوئے ۔ دنیا ایک انتہائی عجیب و غریب جگہ ہے ۔دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں ‘ جن کے پاس بے پناہ دولت موجود ہے لیکن جسم اور ٹانگوں میں اتنی قوت موجود نہیں کہ وہ دوڑ لگا سکیں۔ ان کی نظروں میں اپنی مضبوط ٹانگوں پر تیزی سے بھاگتا ہوا یہ بچّہ انتہائی خوش نصیب تھا اور وہ اپنی ساری دولت کے باوجود انتہائی بد نصیب تھے ۔ بے شمار لوگ ہیں ‘ جو زندگی کا اس قدر مکروہ روپ دیکھ چکے ہیں کہ اگر ان سے ان کی ساری دولت واپس لے کر ان کا بچپن اور صحت مند جسم لوٹا دیا جائے تو انہیں یہ سودا دل و جان سے قبول ہوگا ۔دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں ‘ جن کے بچّے پیدائشی طور پر ایب نارمل ہیں ۔ اگر انہیں یہ موقع دیا جائے کہ آپ کا بچّہ نارمل زندگی گزارنے ‘ اپنی ٹانگوں پر بھاگنے اور خود رفع ٔحاجت کرنے کے قابل ہوسکے گا ۔ اس کے عوض آپ کو اپنی دو تہائی دولت دینا ہوگی تو وہ بخوشی دے دیں گے ۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس ساری کہانی میں تقدیر لکھنے والے کا انصاف کہاں ہے۔ میرے بھتیجے کو سائیکل مل گئی ۔ وہ کئی مہینوں سائیکل چلا تا رہا۔ اس کا شوق پورا ہو گیا ۔ اب یہ سائیکل اس کے لیے ایک بے کار چیز ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ غریب بچّے کو کیا ملا؟ جواب‘ اسے سخت جانی مل رہی ہے ۔ وہ اپنی خواہشات سے لڑنے کے قابل ہو رہا ہے ۔ وہ بہت دیر تک تیز بھاگ سکتاہے اور یہ چیزیں معمولی نہیں۔ کسی بہت بڑے دانشور نے یہ تاریخی جملے کہے تھے : زندگی کو ضرورت میں بسر کرو‘ خواہش میں نہیں ۔ اس لیے کہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور خواہش بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے ۔خواہش جیسے ہی پوری ہوتی ہے ‘اس میں لذت ختم ہو جاتی ہے ۔ جو تیس لاکھ روپے کی گاڑی چلا رہا ہے ‘ اسے ایک کروڑ والی گاڑی میں دلچسپی ہوگی ۔ جب کہ جو سائیکل چلا رہا ہے ‘ اسے موٹر سائیکل چاہیے ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ وصل بہرحال خواہش کی موت ہے ۔
سخت جانی کا متبادل کوئی نہیں ۔آپ کو معلوم ہے کہ انسانی تاریخ میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں ‘ ان کی ایک عظیم اکثریت کو اوائل عمری میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ انسان کو صرف اور صرف حالات کا جبر ہی سخت جان بنا سکتاہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں ‘ جو انسان کو سخت جان بنا سکے ۔ جن لوگوں کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے ‘ شاذ و نادر ہی ان میں سے کوئی سخت جان ثابت ہوتا ہے۔ اگر کوئی نسل در نسل جنیاتی طور پر سخت جان چلا آرہا ہو تو اور بات ہے ۔
آپ انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی بڑی جنگیں جیتنے والی اکثر فوجیں اپنے دشمنوں کے مقابلے میں وسائل کی کمی کا شکار تھیں ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی مثالوں سے بھری پری ہے اور قرآن میں بھی اس کا ذکر بار بار آیا ہے کہ کتنے ہی چھوٹے لشکروں نے کتنے ہی بڑے لشکروں کو ہرا دیا ‘ خدا کے حکم سے ۔ آپ امریکی فوج کو دیکھ لیں اور اس کا موازنہ پاکستانی فوج سے کر لیں ۔ اُس کا بجٹ ہے سات سو ارب ڈالر ‘ ہماری فوج کا ہے دس گیارہ ارب ڈالر۔ وہ افغانستان میں ہار گئے۔ ادھر پاکستانی فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ؛حالانکہ بھارت کی طرف سے مشرقی سرحد کو ان اٹھارہ برسوں میں ایک جہنم بنادیا گیا تھا۔ بجٹ کی حالت یہ ہے کہ بھارت کا دفاعی بجٹ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے ۔ جنگ ہمیشہ بھوکے ہی لڑتے ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دولت کے انبار پر بیٹھی ہوئی قوم جنگیں جیت رہی ہو ۔ عرب قوم آپ کے سامنے ہے ۔ اس کا موازنہ اس وقت سے کر لیجیے‘ جب ان کی جیب خالی اور تلوار بے نیام ہوا کرتی تھی۔ اگر افغان فوج کی طرح ‘ ہمارے سپاہی اور افسر طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو جاتے تو پاکستان اس وقت ایک بہت بڑے مقتل کا روپ دھار چکا ہوتا ۔ شہروں میں اس وقت طالبان وار لارڈز کی حکومت ہوتی ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ہی مسلمانوں کا وہ نمائندہ ملک ہے ‘ جو کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتاہے۔ اس پہ ساری دنیا نظریں لگا کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ یہ معاشی طور پر ابھی تک اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکا ۔ سالانہ بجٹ میںتقریباً ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا خسارہ ہوتاہے ۔ اس کے باوجود اس نے ایٹم بم بنایا ‘ سویت یونین کی شکست و ریخت میں ایک بڑا کردار ادا کیا او رپھر خود کش دھماکوں والی خونی جنگ بھی جیت لی ۔ کئی گنا بڑی بھارتی فوج کو اس کے ٹھکانے پر رکھا ہوا ہے ۔27فروری کو جس طرح پاکستان نے دو بھارتی طیارے گرادیے‘یہ دنیا کے وہم و گمان سے بھی باہر تھا ۔بھارتی لڑاکا طیاروں کی تباہی کا سوگ دہلی سے زیادہ تل ابیب میں منایا گیا تھا۔ لیکن وہ لوگ یہ بات کیوں مانیں گے ‘ جن کے نزدیک ''مسلم امّہ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا جرمِ عظیم ہے ۔ دوسری طرف سرورِ دو عالمﷺ کا قولِ مبارک ہے کہ مسلمان ایک جسمِ واحد کی طرح ہیں ۔ اس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے ۔
جنگ بہت بری چیز ہے ۔ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ خون آشام جنگوں سے بھری ہوئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ خود کو مسلمان امت سمجھیں نہ سمجھیں ‘دشمن کی نظر میں آپ ایک قوم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال سے بت پرست اور یہودی کرّہ ٔ ارض سے مسلمانوں کو مٹا دینے کا خواب دیکھتے آرہے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں جنگیں ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں ایک فیصلہ کن جنگ ایک ایسی سچائی ہے کہ جسے زیادہ سے زیادہ کچھ عرصہ ٹالا جا سکتا ہے ‘ ختم نہیں کیا جا سکتا ۔
جنگ بہت بری چیز ہے ۔ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری انسانی تاریخ خون آشام جنگوں سے بھری ہوئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ خود کو مسلمان امت سمجھیں نہ سمجھیں ‘دشمن کی نظر میں آپ ایک قوم ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال سے بت پرست اور یہودی کرّہ ٔ ارض سے مسلمانوں کو مٹا دینے کا خواب دیکھتے آرہے ہیں ۔