جو لوگ نظریہ ٔ ارتقا کے مخالف ہیں ‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ خدا نے چیزوں کو مختلف مراحل سے گزار کر پیدا نہیں کیا ‘بلکہ جیسے ہی اس نے حرفِ کُن کہا‘ سب کچھ ایک لمحے میں وجود میں آگیا ۔ایک لمحے میں ٹرلینز خلیات والا شیر ‘اپنے بچے کو دودھ پلاتی بھینس ‘ مور کے رنگین پر ‘ ہاتھی کی سونڈ اور ڈائنا سار کے جبڑے وجود میں آگئے ۔ میں نے ہارون یحییٰ کی ایک ایک کتاب بیسیوں دفعہ پڑھی ہے ۔ وہ یہ بات مسلسل اصرار کے ساتھ کرتے ہیں کہ جاندار چیزیں مرحلہ وار وجود میں نہیں آسکتیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مچھلی پانی سے نکل کر زور لگاتے ہوئے سانپ بن جائے ‘ پھر وہ رینگنے والے جاندار سے میمل کا روپ دھارے ۔ میملز سے پھر وہ پرائمیٹس میں تبدیل ہو جائے ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟
ان کو میرا جواب یہ ہے کہ کرنے والا کون ہے ؟ پیچھے ایک ذات ہے نا‘ جو سب کچھ کروا رہی ہے زندہ سیلز سے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر زندگی پیدا کی جا سکتی ہے ‘ ایک زندہ خلیہ پیدا کیا جا سکتاہے تو پھر اور کیا کچھ نہیںہو سکتا؟ سائنسدان جب بھی زندگی کو دیکھتے ہیں تو وہ حیرت زندہ ہو جاتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک جگہ لوہا پڑا ہے ‘ کوئلہ (کاربن) پڑا ہے ۔ پانی (ہائیڈروجن جمع آکسیجن ) پڑا ہے ‘ کیلشیم اور فاسفورس پڑا ہے ‘ نائٹروجن پڑی ہے ‘ یہ سب کچھ تو سمجھ میں آتا ہے ‘لیکن یہ سب عناصر اکھٹے ہو کر زندہ خلیہ پیدا کر دیں ‘ یہ با ت کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔ حیران پریشان طبیعات دان سٹیون ہاکنگ یہ کہتاہے کہ اگر کائنات زندگی پیدا کر سکتی ہے ‘توپھر وہ کچھ بھی کر سکتی ہے ۔
لیکن ‘آپ بتائیں تو سہی کہ کائنات ہے کون جو زندگی پیدا کرنے جیسا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔ آپ کھل کر بات تو کریں ۔ کائنات نام ہے بلیک ہولز‘ خلا‘ ستاروں او رسیاروں کا ۔ ان میں سے کون ہے جو زندگی پیدا کر رہا ہے ؟ کوئی ستارہ یا خلا یا بلیک ہول یا زمین جیسا کوئی سیارہ؟ آپ زمین کو کھود کر اس کے اندر سے سب کچھ نکال لیتے ہیں ۔ کبھی ایسا ہوا کہ زمین نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہو کہ ایسا نہ کرو۔ زمین تو بے جان ہے ۔ ہمارا سورج سینکڑوں کھرب ستاروں کی طرح ایک ستارا ہی ہے اور محض قریب ہونے کی وجہ سے اتنا بڑا لگتا ہے ۔کبھی ایسا ہوا ہو کہ سورج نے زمین والوں کو کہا ہو کہ انسان بنو ‘ ورنہ میں گرمی اور روشنی دینا بند کر دوں گا۔ خلا بھی بے جان ہے ۔ کبھی ایسا ہوا ہو کہ انسان راکٹ میں بیٹھ کر خلا میں داخل ہونے لگے اور خلا نے اسے اپنے اندر داخل ہونے سے روک دیا ہو ۔ رہے بلیک ہول تو انسان انہیں دریافت نہ کرتا تو کبھی ان کا نام بھی نہ رکھا جاتا ۔یہ سب بے جان چیزیں ہیں ۔سورہ بقرۃ میں یہی وہ مراحل ہیں ‘ جن میں ابراہیم ؑ سورج سمیت مختلف مظاہرِ فطرت کے بارے میں غور کر تے ہیں کہ وہ خدا تو نہیں اور پھر ان سب کو مسترد کر کے اللہ پر ایمان لے کرآتے ہیں ۔
یا پھر روشنی ہے ‘ جو سب کچھ کر رہی ہے ۔ وہ روشنی ‘جس کی حرارت کو آپ استعمال کر کے سولر انرجی پیدا کرتے ہیں او روہ اس پر احتجاج بھی نہیں کر سکتی ۔ جو اصل منصوبہ ساز ہے ‘ جو جبلتوں کے مارے ہوئے ایک جانور کو اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے ‘ وہ تو پسِ منظر میں ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹریفک سگنل سمیت سب سے زیادہ ضابطے انسان نے مرتب کیے ہیں ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک پل میں سب کچھ اس شکل میں تخلیق کر دیا گیا جیسا کہ اب ہمیں نظر آتا ہے ‘ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ سورج بننے اور فنا ہونے سمیت کائنات میں جتنے بھی مظاہر ہم دیکھتے ہیں ‘ وہ کروڑوں اور حتیٰ کہ اربوں سالوں میں کیوں مکمل ہوتے ہیں ؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ پلک جھپکنے میں ایک ستارا پیدا ہو اور پلک جھپکنے میں وہ فنا کے گھاٹ اتر جائے۔ کروڑوں برسوں کا عرصہ ہوتاہے ‘ جس میں اتنی ہائیڈروجن اکھٹی ہوتی ہے ‘ جس سے ستاراپیدا ہوتا ہے ۔ یہ زمین آپ کو جس شکل میں نظر آرہی ہے ‘ جس طرح اس کے نیچے لوہے سمیت مختلف معدنیات نکل رہی ہیں ‘ جس طرح اس کی وادیاں ‘ پہاڑ اور سمندر ‘ دریا اور جھیلیں وجود میں آئیں ‘ جس طرح سے سات براعظم بنے‘ ان میں سے ہر ایک چیز میں کروڑوں برس کا عرصہ صرف ہوا۔ ڈائنا سار سترہ کروڑ سال تک کرّ ۂ ارض پہ حکومت کرتے رہے ۔
اس چیز کو بھی for grantedنہیں لیا جا سکتا کہ اتنے سارے عناصر کھیل تماشے میں وجود میں آتے چلے گئے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جسم کی تعمیر میں استعمال کی گئی ہائیڈروجن‘ آکسیجن ‘ کاربن اور دوسرے عناصر کروڑوں برس میں ستاروں کے اندر بتدریج پیدا ہوئے ۔ خدا کو کبھی کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی ۔ کوئی کیمیا دان موجود ہے‘ جو سورج کے اند رہائیڈروجن کو ہیلئیم اور ہیلئیم کو heavier elementsمیں تبدیل کر رہا ہے ۔
خد انے جب کرّہ ٔ ارض پہ زندگی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اس زندگی کو کرّہ ٔ ارض ہی کے حالات میں پیدا کیا ۔ اس کے لیے زمین کی مٹی اور پانی استعمال کیا گیا۔ ان کے آپس میں ملنے سے ہائیڈروکاربنز بنے ۔ جب پہلا زندہ خلیہ بن گیا تو پھر خدا نے اسے دو میں تقسیم ہو جانے کی صلاحیت بخشی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ساڑھے چار ارب سال سے زندگی کو مکمل طور پر کبھی موت کے گھاٹ اتارا نہیں جا سکا‘ باوجود ساری جنگوں ‘ شکار اور درخت کاٹنے کے ۔
زندگی کو زمین پر زندہ رہنا تھا۔ اس کے لیے اسے زمین کے کٹھن حالات سے گزرنے کی مشق کرائی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں برسوں میں زمین پہ سروائیو کرتے رہنے کی وجہ سے جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس کے لیے دنیاکی مختلف چیزیں سجا دی گئی ہیں ۔ آپ کبھی جانوروںکواختلاط کرتے ہوئے دیکھیں ۔ جیسے ہی جنسی خلیات نر کے جسم سے مادہ کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ‘ اس کے ساتھ ہی یہ ساری لذت ختم کر دی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس کا مادہ کی طرف دیکھنے کا دل بھی نہیں کرتا۔ وہ ایک طرف بیٹھ کر اپنا سانس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے ‘ جبکہ تھوڑی دیر پہلے اسے اس سانس کی کوئی بھی پروا نہیں تھی ۔ میرے عزیز دوست ‘ ''خود سے خدا تک ‘‘ کے مصنف ناصر افتخار کے الفاظ میں یہ ایک ٹریپ ہے ۔ ایک مشقت والا کام ‘ جسے پر لطف ہونے کی وجہ سے وہ بخوشی انجام دیتاہے ۔ یہی صورتِ حال مادہ کی ہوتی ہے ؛حالانکہ اس کے بعد اس کی زندگی کا ایک قابلِ قدر حصہ اولاد کی حفاظت میں گزر جاتا ہے ۔ گوشت کے ایک ٹکڑے پر جنونیوں کی طرح لڑنے والے جانور اولاد کی حفاظت کرتے ہوئے کس درجہ ایثار کیش ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ اولاد بھی سجا دی گئی ہے‘ کشش سے... ۔
بہرحال سائنسی طور پراس بات میں کوئی شک نہیں کہ زمین پر زندگی ارتقا سے گزرتی ہوئی ایک واحد خلیے سے ٹرلینز سیلز والے پرائمیٹس تک پہنچی ہے ۔ یہ اتنا ہی واضح ہے ‘ جتنا کہ زمین کا گول ہونا ۔