"FBC" (space) message & send to 7575

بیچارہ لمحہ ٔ حاضر… (1)

یہ میرا ایک انتہائی اہم کالم ہے ۔ اسے آخر تک بہت غور سے پڑھیے گا ۔آپ شادی بیاہ کی کسی تقریب میں شریک ہوں ‘تو ایک بات پر غور کیجیے گا ۔ دلہا دلہن سمیت ‘ ہر شخص کی تمام تر توجہ تقریب سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ان لمحات کو capture کرنے پر مرکوز ہوگی ۔آدمی خوشی کے یہ لمحات کیمرے میں مقید (capture) کرنے کی کوشش اس لیے کرتا ہے کہ آنے والے کل میں ‘ ان لمحات کو دوبارہ دیکھ کر میں خوش ہو سکوں ۔ انسان اس کوشش میں اس قدر محو ہو جاتاہے کہ وہ ایک ایک لمحے کوریکارڈ کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے ۔ اس کا ایک بہت بڑا نقصان اسے اٹھانا پڑتا ہے ۔یہ نقصان یہ ہے کہ جتنی دیر آپ اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں ‘ اتنی دیر میں آپ کو حال کے لمحۂ حاضر کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔ ان لمحات کو دوسری بار دیکھ کر آپ لطف اندوز ہوسکیں گے یا نہیں؟ یہ تو بعد کی بات ہے‘ لیکن پہلی بار‘ جب یہ لمحات وقوع پذیر ہو رہے ہیں ‘ آپ ان سے لطف اندوز نہیں ہو سکے ۔ آپ یہ سوچ رہے تھے کہ دس سال بعد ہم میاں بیوی یہ ویڈیوز دیکھ کر خوش ہوں گے‘ لیکن دو سال بعد اگر وہ آپ سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے تو پھر یہ یادیں خوشی کی ہوں گی یا غم کی ؟ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ تصاویر بنانا ہی چھوڑ دیں ‘لیکن بات ہے ایک توازن کی ۔ آپ ان لمحات کو بعد میں دوسری بار دیکھ کر لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے پہلی بار تولطف اندوز ہو لیں ! یہ صرف شادی بیاہ کا مسئلہ ہی نہیں ۔آپ آگے پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ہم سب کی زندگیوں پر اس روّیے کے انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ 
انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک تصویر یاد آتی ہے ۔ کوئی بہت نامور کھلاڑی سٹیڈیم میں اس جگہ پر کھڑا ہے ‘ جہاں بالکل سامنے اس کے مداحوں کا ایک ہجوم اسے دیکھ رہا ہے ۔ اپنے ہیرو کو اتنا قریب دیکھ کر وہ سب ان لمحات کو captureکرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ سب اپنے اپنے موبائل فون سے اس کی ویڈیو بنا رہے ہیں ۔ہجوم میں ایک بوڑھی عورت بھی موجود ہے ۔ صرف وہی ہے ‘ جس کے پاس کوئی موبائل فون یا کیمرہ موجودنہیں ۔ صرف یہی عورت براہِ راست اپنی آنکھوں سے اپنے ہیرو کو دیکھ رہی ہے اور وہ مسکرا رہی ہے۔ باقی سارا ہجوم اسے موبائل فونز کے کیمروں کے ذریعے دیکھ رہا ہے ۔ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں‘ جو مسکرا ر ہا ہو‘ بلکہ ان سب کے چہروں پر ایک تنائو سا ہے کہ ٹھیک طرح سے ویڈیو ریکارڈ کر لی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہ عورت اپنی خوشی کے ان لمحات سے حال میں محظوظ ہو رہی ہے ‘ جبکہ باقی سب لوگ مستقبل میں ان سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں ۔ لمحہ ٔ حاضر بیچارہ ساری زندگی‘ اسی طرح مستقبل کی خاطر قربان ہوتا رہتاہے ؛حتیٰ کہ انسان کو موت آلیتی ہے ۔ 
اب‘ آپ توقف کریں اور آپ اپنے اردگرد دیکھیں ۔ آپ کو ہر بندہ ایک اضطراب میں دکھائی دے گا ۔ لاشعوری طور پر ہر شخص آنے والے مستقبل سے خوفزدہ ہے ۔ یہ روّیہ ایک مزدور سے لے کر انتہائی کامیاب ٹی وی میزبانوں تک میں بالکل ایک ہی جیسا نظر آتاہے ۔اصل میں ہر انسان کے دماغ میں ایک خوف انتہائی گہرائی تک اترا ہوا ہے ۔ یہ خوف کہتا ہے کہ آنے والے کل میں اس کے ساتھ کوئی بہت برا ایونٹ‘ بہت برے حالات پیش آنے والے ہیں‘جن سے بچنے کی ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ انسان کے دماغ میں گہرائی تک اتر کر یہ انسان کے لاشعور میں یہ خوف پیدا کرتاہے کہ ایک دن آئے گا‘ جب اسے بھوک لگی ہوگی اور اسے کھانا نہیں ملے گا۔ انسان جتنا مرضی امیر ہو جائے‘ یہ خوف اس کے دماغ سے نہیں نکلتا۔ یہ خوف انسان کو پاگل کر ڈالتاہے۔ امیروں اور غریبوں ‘ دونوں پر یہ ایک طرح سے اثر انداز ہوتاہے‘ ورنہ تو کوئی امیر ڈپریشن کا شکار ہی نہ ہوتا۔ یہ خوف انسان کو اس بات پر اکساتا ہے کہ جس قدر ممکن ہو‘ دولت اکھٹی کر لی جائے ۔
جیسا کہ پہلے شادی والی مثال عرض کی۔انسان کسی منظر سے مکمل طور پر تب ہی محظوظ ہو سکتاہے ‘جبکہ وہ یہ منظر اپنی آنکھ سے دیکھے ۔ جیسا visionانسانی آنکھ کا ہوتاہے ‘ ویسا کیمرے کا نہیں ہو سکتا ۔بات وہی ہے کہ انسان مستقبل کے لمحات کو محفوظ بنانا چاہتاہے ۔ وہ مستقبل کی خوشی کے لیے حال کو قربان کر دیتاہے ۔ اگر تو یہ قربانی کسی تناسب سے ہو تو پھرتو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک انسان محنت کر رہاہے ‘تاکہ وہ اچھا مستقبل حاصل کر سکے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر توازن خراب ہو گیا‘ اگر انسان مستقبل کے لیے اپنے لمحہ ٔ حاضر کو قتل کرنے پہ اتر آیا‘ تو پھر اس کے نتائج بہت خوفناک ہوں گے ۔ 
یہ نتائج کیا ہیں ؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مستقبل کو تو انسان دیکھ ہی نہیں سکتا‘ جب کہ حال کو آپ دیکھ سکتے ہیں ۔ آج میرے پاس کھانے کو موجود ہے ‘ میری صحت ٹھیک ہے ‘اللہ نے اولاد عطا کی ہے تو آج میں ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں ۔ اس کے برعکس ‘اگر میرے پاس اتنا بھی وقت موجود نہیں کہ میں اپنے بچّے سے اس وقت کھیل سکوں ‘ جبکہ وہ انتہائی خوبصورت اور انتہائی معصوم ہے تو یہ وقت واپس نہیں آ سکے گا۔دن رات میں اپنا مستقبل محفوظ کرنے میں لگا رہتا ہوں اور جب اپنے تئیں اسے محفوظ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو ساتھ ہی مجھے دل کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے ۔اس کے ساتھ ہی محفوظ مستقبل کی جو عمارت میں نے برسوں میں کھڑی کی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ ایک دن آئے گا‘ جب میں بہت زیادہ خوشی منائوں گا‘ وہ ساری منصوبہ بندی بیماری کے ایک ہی جھونکے سے دھڑام سے نیچے آگرے گی ۔ایک ایکسیڈنٹ ‘ ایک دل کا دورہ اور دی اینڈ ۔ 
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ منصوبہ بندی نہ کریں‘بلکہ ایک توازن ہمیں قائم کرنا ہے ۔ صحت‘ جوانی ‘ اولاد اور خوراک سمیت جو نعمتیں اللہ نے آج عطا کی ہیں ‘ پہلے ان سے تو لطف اندوز ہو جائیں ۔جہاں تک رہی مستقبل کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کی خواہش تو اگر معمر قذافی ‘ صدام حسین ‘ نواز شریف اور الطاف حسین جیسے لوگ اپنا مستقبل محفوظ نہیں بنا سکے ‘ جن کے پاس انتہائی دولت اور طاقت موجود تھی تو پھر ایک عام شخص کس حد تک اپنا مستقبل محفوظ بنا سکتاہے ۔ محفوظ مستقبل کی کوئی ضمانت کبھی بھی نہیں دی جا سکتی ۔ آپ اپنی طرف سے انتہائی ambitiousہو کر دن رات محنت کر کے اپنے کیرئیر میں انتہائی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے ہیں ‘ پھرایک انتہائی خوبصورت اور امیر خاتون سے آپ کی شادی ہوتی ہے ‘ پھراگلے سال آپ کے ہاں ایک ابنارمل بچّہ پیدا ہوجاتا ہے‘ تو پھر یہ ساری خوبصورتیاں اور کامیابیاں آپ کہاں لے کر جائیں گے ؟کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے ۔ کوئی بھی انسان اس آزمائش سے exemptنہیں ہے ۔ یہ آزمائش کسی نہ کسی شکل میں تو آنی ہے ۔ اگر شکل و صورت اور دولت کی طرف سے نہیں آئے گی ‘تو ہو سکتاہے کہ اولاد کی طرف سے آجائے ۔ (جاری ) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں