آزادی ایک ایسی چیز ہے ‘ انسان ہمیشہ سے جس کے لیے لڑتا آیا ہے ۔کئی مفلوک الحال اقوام نے بھی عشروں آزادی کی جنگ لڑی ہے ۔ اس چیز سے انسان نفرت کرتا ہے کہ کوئی اسے حکم دینا شروع کر دے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اقبالؔ اور جناحؒ کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان جب انگریز کی واپسی کے بعد اپنی آزاد ریاست کی جنگ لڑ رہے تھے تو کیا انہیں بھوکے مر جانے کا خوف لاحق تھا؟ بالکل نہیں ‘ بلکہ یہ اپنی آزادی کھو دینے کا خطرہ ہی تھا‘ جس کے لیے ہمارے اجداد نے اپنا تن من دائو پر لگا دیا تھا‘ور نہ مسلمانوں کو آفرز تو بہت شاندار مل رہی تھیں۔ برہمن اس شوق میں مرا جا رہا تھا کہ پہلی بار ذرا دیکھیں تو صحیح کہ کسی دوسری قوم پر حکومت کر کے کیا لذت ملتی ہے اور وہ بھی مسلمانوں جیسی جنگجو قوم پر۔ اُس کے اندر ایک گہرا احساسِ کمتری ہے ‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود ہندو اکثریت پہ طویل عرصہ حکومت کر تے رہے ۔
اب‘ کچھ دیر کے لیے موضوع ذرا تبدیل کر دیں ۔ بچوں پر سب سے زیادہ پابندیاں والدین لگاتے ہیں ۔ہمارے والدین ایسے تھے کہ جنہوں نے کبھی ہمیں کسی بات پر مجبور نہیں کیا ۔ ہم تین بہن بھائیوں نے اپنی مرضی سے ایم بی اے کیا ۔ ایک بھائی سافٹ وئیر انجینئر بن گیا ۔ میں نے پہلے پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا تھا۔ والدین میں جبر کا رجحان تھا ہی نہیں۔میں ویسے بھی قدرے من موجی تھا ۔ گریجویشن کے دوران اپنے شوق سے میں نے اٹھارہ سیپارے بھی حفظ کر لیے ۔ ماسٹرز کے دوران کالم نویسی سیکھنے کی کوشش کی۔ والد صاحب کی وجہ سے اس عہد کے عظیم استاد پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملاقات کے مواقع بھی ارزاں ہوئے ۔ اگر میں محنت کرتا تو شاید بہت کچھ سیکھ لیتا ‘لیکن چلئے دوچار فیصد ہی سہی‘ زندگی کچھ نہ کچھ تبدیل ہو گئی ۔
پھر میری شادی ہو گئی ۔لوگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد زندگی بدل جاتی ہے‘ لیکن میری بیوی نے بھی کبھی میری آزادی میں مداخلت نہیں کی ‘پھر مجھے پتا چلا کہ میں باپ بننے والا ہوں ۔ میری بیٹی مشیہ پیدا ہوئی ۔ پہلے دن سے اس کے پیٹ میں درد رہتا تھا اور مسلسل وہ روتی رہتی تھی ۔ ہم میاں بیوی حیران تھے کہ پیہم چیخ و پکار کرتی اس گڑیاکو چپ کیسے کرائیں ؟ایک جھولا لایا گیا‘ لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر ہم دونوں نے اسے ایک چادر پہ لٹا کر جھولے دینا شروع شروع کیے ۔ اب‘ صورتِ حال یہ تھی کہ جتنی دیر اسے جھولے ملتے رہتے ‘ اتنی دیر وہ خاموش رہتی ۔ یہ وہ وقت تھا‘ جب زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ میری آزادی متاثر ہور ہی ہے‘ لیکن یہ تو صرف آغاز تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری آزادی سلب ہوتی چلی گئی‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں اس کی محبت نازل ہو رہی تھی ۔ آج وہ اڑھائی برس کی ہو چکی ہے۔صورتِ حال اب یہ ہے کہ گیارہ بجے‘ اسی کی آواز سے میری آنکھ کھلتی ہے ۔ وہ مجھے اٹھاتی ہے ۔ میرے پائوں میں جوتے پہناتی ہے ‘ اگر میں ان مخصوص جوتوں کے علاوہ کوئی دوسرے پہننا چاہوں تو وہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے ۔ پھر وہ مجھے کھینچتی ہوئی سیڑھیوں پر لے جاتی ہے ۔ ساتھ ساتھ وہ کہہ رہی ہوتی ہے ''میائوں میائوں ‘‘۔ہم نیچے جاتے ہیں ۔بلی کو کھانا دیتے ہیں ۔ بلی موقع پا کر گھر کے اندر گھس آتی ہے ۔ اندر گھستے ہی وہ دروازے کے سامنے پڑے قالین کے ٹکڑے پر لیٹ جاتی ہے ۔ مشیہ اس ٹکڑے کو پکڑ کر کھینچتی ہے اور اسے بلی کے نیچے سے نکالنے کی کوشش کرتی ہے ۔ بلی اپنے پنجے اس ٹکڑے پہ گاڑ لیتی ہے اور اسے پکڑے رہنے کی کوشش میں کچھ دور تک گھسٹتی چلی جاتی ہے۔اس پر مشیہ ہنس پڑتی ہے ۔ یہ شغل دن میں دس بار دُہرایاجاتاہے ۔ وہ بلی سے کھیلتی رہتی ہے ‘ میں ایک معمول کی طرح اس کے پاس کھڑا رہتا ہوں ۔
میں لیپ ٹاپ پر کام کر رہا ہوتا ہوں ۔ مشیہ آتی ہے ‘ لیپ ٹاپ بند کر دیتی ہے اورمجھے کھینچنا شروع کر دیتی ہے ۔ جب وہ کارٹون دیکھ رہی ہوتی ہے اور جب میں دبے پائوں کھسکنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ زور سے کہتی ہے ''بابا ‘‘ میں واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتا ہوں ۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ جب وہ کارٹون دیکھے تو میں اس کے پاس ہی بیٹھا رہوں ‘ گوکہ اس وقت اسے میری کوئی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
میں بستر پر لیٹ جاتا ہوں ۔ وہ مجھے دھکیلتی ہوئی کنارے پر لے آتی ہے ۔ میں کروٹ لیتا ہوا جان بوجھ کر بیڈ سے نیچے گر جا تا ہوں ۔ اس پر وہ ہنس ہنس کر بے حال ہو جاتی ہے ۔ اسے ہنستا دیکھنے کے لیے میں سو جتن کرتا ہوں ۔ میری زندگی مکمل طورپر تبدیل ہو چکی ہے ۔
میں نے چھت پر ایک کمرے میں ایک خفیہ سیٹ اپ بنایا ہے‘ جہاں میری ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں ۔ جہاں بیٹھ کر میں سوچ سکتا ہوں ‘ کام کر سکتا ہوں ‘ ویڈیوز ریکارڈ کر سکتا ہوں ۔جیسے ہی مشیہ کا دھیان ادھر ادھرہوتاہے‘ میں غائب ہو جاتا ہوں اور دبے قدموں چھت پہ پہنچ جاتا ہوں ۔ چھت والا دروازہ میں باہر سے لاک کر دیتا ہوں کہ اگر وہ اوپر آبھی جائے ‘تو دروازہ کھولنے کی ناکام کوشش کے بعد واپس چلی جائے۔میں نہیں جانتا کہ یہ ٹھکانہ کب تک خفیہ رہے گا۔
ہر چیز اب‘ اس کے ہاتھ میں ہے ۔ میں ڈرائیونگ کرتا ہوں تو وہ ریڈیو کے چینلز بدلتی رہتی ہے ۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ سودا سلف خریدتے ہوئے وہ مجھے یہ تک بتاتی ہے کہ دودھ کا کون سا ڈبا اٹھانا ہے ؛حالانکہ سب ڈبے ایک جیسے ہوتے ہیں ۔کس گلاس میں پانی پینا ہے ۔ میری آزادی سلب ہو چکی ہے‘ لیکن اپنی اس غلامی سے مجھے محبت ہے ۔ اگر میرے بس میں ہو تو میں وقت کے پہیے کو آگے بڑھنے سے روک دوں ۔دو چیزیں ہیں ‘ جس کی وجہ سے تمام والدین اولاد کی خاطر ہر تکلیف اٹھاتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اولاد خوبصورت ہوتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ ان کے دل و دماغ میں اس کے لیے محبت نازل کر دی جاتی ہے ۔
خدا بھی انسان کی آزادی مانگتا ہے ۔ اتنے بجے گرم بستر سے نکلو اور وضو کر کے سجدہ کرو۔جائیداد کی تقسیم تک کے احکامات اس نے نازل کر دئیے ہیں ۔ جو دولت انسان نے بظاہر اپنے ہاتھ سے کمائی ہے ‘ اس کی تقسیم پر بھی اس کا اختیار نہیں ۔ انسان اولاد کی خوبصورتی اور اس کی محبت کی وجہ سے اس کا غلام بن جاتا ہے ۔ اسی انسان کو جب خدا ایک حکم دیتا ہے اور جب اس کی زندگی میں مداخلت کرتا ہے تو انسان ناگواری محسوس کرتا ہے ۔ وہ یہ نعرے لگا تا ہوا سڑکوں پہ نکل آتا ہے کہ خدا کو میری آزادی سلب کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ؛ ''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ ۔
خوبصورتی کے جتنے پیمانے ہیں ‘ چہرے کی ہڈیوں اور مسلز کی جو ساخت ہے ‘ یہ سب خدا نے تخلیق کیے ہیں ۔ انسان کو اگر اس بات کا اندازہ ہوکہ اولاد ‘ عورت‘ پھول اور خوشبو تخلیق کرنے والی ذات خود کس قدر خوبصورت ہے ۔اگر اس کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوجائے ‘تو اپنی آزادی سلب ہو جانے کا کوئی قلق باقی نہ رہے‘ لیکن اس کے لیے علم و عقل کی روشنی میں ایک طویل سفر درکار ہے !