"FBC" (space) message & send to 7575

مہم جُو

سائنسدان جب انسان کے دماغ کودیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ بہت زیادہ ارتقا سے گزر ا ہوا دماغ ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ مچھلی ‘ سانپ ‘ شیر‘ ہاتھی ‘ بندر اور چمپینزی وغیرہ کا دماغ دیکھیں تو وہ انسانی دماغ کا ایک جزو ہے ۔ جیسے موبائل فون میں گھڑی‘ ریڈیو‘ کیلنڈر‘ویڈیو گیمز اور کمپاس سمیت ساری چیزیں موجود ہیں ۔ یہی حال انسانی دماغ کا ہے ۔ اس میں مچھلی‘ ریپٹائلز‘ میملز ‘ پرائمیٹس اور ددسرے گریٹ ایپس کا تمام تر دماغ موجود ہے ۔اس کے علاوہ انسانی دماغ کے اوپر والے حصے سیریبرل کارٹیکس میں وہ کچھ موجود ہے جو ان بیچارے جانوروں میں سے کسی کے دماغ میں نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کرّہ ٔ ارض پہ راج کر رہا ہے ۔ اسی کی وجہ سے جانوروں کی لا تعداد اقسام ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ مغربی انٹارکٹکا سمیت دنیا بھر میں برف کے ذخائر پگھل رہے ہیں ‘ سمندروں میں پانی کی سطح بڑھنے والی ہے ‘ بے شمار ساحلی شہر حتیٰ کہ فلپائن جیسے چھوٹے چھوٹے ممالک ڈوب جانے کے خطرے سے دوچار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جانور چڑیا گھر میں قید ہوتے ہیں اور انسان انہیں دیکھ کر اپنا دل بہلاتے ہیں ۔ اگر انسان کی جگہ کسی اور جانور کا دماغ اتنی ترقی کر جاتا تو آج اُلٹا انسان پہ ٹکٹ لگا ہوتا۔دوسری طرف ہومو اریکٹس (Homo Erectus)اور نی اینڈرتھل سمیت بہت ساری سپیشیز ایسی ہو سکتی تھیں‘ جو کہ اپنے دماغ پہ آسمانی عقل نازل ہونے کی امیدوار بن سکتی تھیں ۔ وہ سب صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ انسان کی عمر سب سے کم ہے‘ یعنی تین لاکھ سال۔ ڈائنا سار اور چیونٹیوں سمیت کئی ایسی سپیشیز گزری ہیں ‘ جوبارہ پندرہ کروڑ سال اس زمین پہ زندہ ر ہیں ۔ انسان نے تین لاکھ سال میں ہی دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دنیا میں اس وقت چودہ ہزار ایٹم بم موجود ہیں ‘ جو کرّہ ٔ ارض سے زندگی کا صفایا کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں ۔
دنیا کی تاریخ میںکسی اور جاندار نے اس قدر منظم جنگیں نہیں لڑیںجتنی کہ انسان نے ۔ دوسری سپیشیز میں خوراک اور مادہ پر وقتی لڑائی ہوتی ہے ‘ انسان اپنا زخم یاد رکھتا ہے ‘لوگ اکٹھے کرتا ہے ‘ ہتھیار بناتا ہے اور دشمن آبادی پہ حملہ آور ہو کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے ۔آبادیوں کو تاراج کرنے کے بعد یہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتا ہے ۔ یہ خواتین کی آبرو ریزی کرتا ہے ‘ مردوں اور بچوں کو قتل کر دیتا ہے اور خواتین کو اغوا کر کے اپنے پاس جمع کر لیتا ہے ‘ سوائے عقلمنداور ہدایت یافتہ لوگوں کے۔ دوسری سپیشیز میں جنگ صرف سامنے موجود خوراک پر ہوتی ہے ‘ انسانوں میں زمین اور وسائل اکٹھے کرنے پر بھی جنگیں ہوتی ہیں ‘ تاکہ لاکھوں ایکڑ زمین اپنے قبضے میں کر لی جائے ۔
ہومو سیپئنز کے جو قدیم ترین فاسلز ملے ہیں ‘ وہ تین لاکھ سال پرانے ہیں ۔ کرّہ ٔ ارض اگر انسان کے ہاتھوں مکمل تباہی سے بچ نکلی تو مستقبل میں شاید کو ئی ایسی سپیشیز سامنے آئے جو انسان کی نسبت کہیں زیادہ ذہین ہواور جس کے جینز میں قتل و غارت شامل نہ ہو ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا ہر فرد ایجادات کر رہا ہوگا‘ لیکن یہ سب تھیوریز ہیں ۔ فی الحال حقیقت یہی ہے کہ 53کروڑ برس پرانی تاریخ رکھنے والے جاندار بھی اتنے ذہین نہیں ہو سکے کہ تین لاکھ سال کی تاریخ رکھنے والے انسان کی کارستانیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں ۔ ایسے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے کہ انسان اس زمین کو مزید کسی مخلوق کے ارتقا کے قابل چھوڑے گا ۔ چودہ ہزار ایٹم بم اس زمین کو کئی دفعہ مکمل تباہ و برباد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ 
پھر بھی اگر کوئی زیادہ ذہین سپیشیز پیدا ہو جاتی ہے ‘جنگلات میں چھپ کر تیاری کرتی ہے اور پھر منظم ہو کر اس دنیا کو انسان کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے باہر نکل آتی ہے تو کیا ہوگا؟ سٹیفن ہاکنگ نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ خلا میں اگر کسی سیارے پر انسان سے زیادہ ذہین مخلوق موجود ہو اور وہ کائنات میں زندگی تلاش کرتے کرتے ہماری زمین کی طرف آ نکلے تو کیا ہوگا ؟ اس نے کہا تھا کہ یہ ایسا ہی ہوگا ‘ جیسا کہ یورپی اقوام کی براعظم شمالی امریکہ کی دریافت نے وہاں کے مقامی ریڈ انڈینز کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اگر آپ theoreticallyبات کریں تو ایسی مخلوق کا کرّہ ٔ ارض پہ پیدا ہونا ناممکن نہیں ہے ‘ جس کا ہر فرد جینئس ہو۔ایسی مخلوق ‘ جس میں بچے کمپیوٹر جتنا حساب کتاب زبانی اپنے دماغ میں کر سکیں ۔ ایسی مخلوق ‘ جس میں دنیا کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کا لالچ موجود نہ ہو ۔ ایسی مخلوق جو جارح نہ ہو‘ لیکن انسان کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتی ہو ۔ 
ویسے انسان اب چونکہ چیونٹیوں سے لے کر شیروں‘ ہاتھیوں حتیٰ کہ پرندوں کا بھی بغور جائزہ لے رہا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ٹی وی چینلز موجود ہیں جو جنگلی حیات پرڈاکو منٹریز بنا کر نشر کر رہے ہیں۔ ایسی کوئی مخلوق اگر کبھی جنم لیتی ہے تووہ انسان کی نظر سے بچ نہیں سکے گی ۔ اس کے بعد کیا ہوگا‘ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں ۔ بہرحال جیسے کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ‘ اسی طرح کہا جاسکتاہے کہ انسان کے دماغ میں سب کا دماغ۔ مچھلی ‘ سانپ اور مگر مچھ جتنا دماغ رکھتے ہیں ‘ وہ انسان کے دماغ کے نچلے حصے برین سٹیم میں موجود ہے ۔ بکری‘ شیر اور ہاتھی جتنا دماغ رکھتے ہیں ‘ وہ انسان کے برین سٹیم اور لمبک سسٹم میں موجودہے۔ اسی طرح پرائمیٹس جتنا دماغ رکھتے ہیں ‘ وہ انسان کے سیریبرل کارٹیکس کا ایک حصہ ہے ۔ یہی صورتِ حال باقی گریٹ ایپس کی ہے ۔ فی الحال تو انسان دنیا پہ راج کر رہا ہے ۔ راج بھی ایسا کہ وقفے وقفے سے ہوموسیپینز کے مختلف گروہ آپس میں جنگیں کرتے ہوئے لہو لہان ہوجاتے ہیں ۔ کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں انسان اپنی ہی سپیشیز کے باشندوں کو کند چھری سے ذبح کر تا چلا جا رہا ہے ۔ شاید وہ وقت بہت قریب آچکا ہے ‘ جب انسان سے اس عقل کا حساب لیا جائے گا‘ جس کے بل پر وہ دنیا میں پرتعیش زندگی گزار تے ہوئے نسلی تفاخر کا شکار رہاہے ۔ 
دنیا ایک امتحان گاہ ہے ‘ آزمائش کی جگہ۔ بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ خدا نے یہ دنیا بنانے سے قبل ہم سے تو یہ سوال نہیں کیا کہ تم اس آزمائش کا حصہ بننا چاہتے ہو یا نہیں ۔سورہ احزاب کی آیت 72میں ہے کہ خدا نے امانت پیش کی آسمانوں‘ زمین اورپہاڑوں کے سامنے تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اٹھا لی۔ بے شک وہ اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا بڑا نادان ہے ۔انسان کی افتادِ طبع ہی ایسی تھی کہ جب اس نے ایک چمکتی ہوئی چیز‘ یعنی یہ عقل دیکھی تو جھپٹا مار کے اسے اٹھا لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اس آزمائش سے گزرنا چاہے گا تو اس نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر ہاں کر دی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر مہم جو واقع ہوا ہے !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں