"FBC" (space) message & send to 7575

انسان کا Planet Earth

آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ ایک ارب جانوروں کو نگل چکی ہے ۔دوسری طرف آسٹریلوی حکومت نے قحط سالی کے شکار جنوبی آسٹریلیا میں پانی کی تلاش میں آبادیوں پر دھا وا بولنے والے ہزاروں اونٹوں کو قتل کردینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ آگے پڑھنے سے پہلے یہاں کی لوکل گورنمنٹ کا نام اردو اور انگلش میں پڑھ لیجیے ۔ '' انانجو پٹ جن ٹجاٹ جاراین کونائیٹ جٹ جارا‘‘ (Anangu Pitjantjatjara Yankunytjatjara) ۔اس نام کو ہائی لائٹ کرنے کا بھی ایک مقصد ہے ۔ اس مقامی حکومت کے ترجمان مختلف ممالک کی طرف سے شدید تنقید کے جواب میں اونٹوں کو قتل کرنے کے ''دانشمندانہ‘‘ منصوبے کا دفاع کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ اونٹ یہاں کی مقامی (Aboriginal)آبادیوں پر دبائو ڈال رہے ہیں ۔(پانی پینے کے لیے اور خطہ پہلے ہی قحط زدہ ہے )۔ہیلی کاپٹرز میں بیٹھے پروفیشنل شوٹرز ہزاروں اونٹوں کو قتل کر چکے ہیں اورکھیل ابھی جاری ہے ۔ 
خدا نے جب یہ دنیا بنائی تو اس میں زندگی کے جنم لینے اور پھلنے پھولنے کے لیے بہت سے نظام تشکیل دئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوس رہی ہیں ۔ آپ کو مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور خوبصورت پھولوں پر ان کا بھدا سا وجود ناگوار گزرتا ہے ۔ بہت عرصے تک انسان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ رس چوسنے والے یہ کیڑے اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ پودوں کی پولی نیشن بھی کرتے ہیں۔ جانداروں کوخدا نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے ۔ جانور تو خود چل کر بچّے پیدا کر سکتے ہیں ۔ پودے چل پھر نہیں سکتے تھے ‘ تو وہ بچّے پیدا کرنے کے لیے پرندوں ‘ حشرات الارض ‘ ہوا اور پانی وغیرہ کے محتاج تھے۔ ان سب ذرائع سے پودے میں باآوری کا عمل مکمل ہوتا تھا ۔ بچّے پیداہوتے تھے اور یہ بچّے کیا تھے ؟ بیج اور پھل جو کہ جانوروں کا پیٹ بھرتے ہیں ۔ 
ویسے انسان جتنا بھی تخلیق میں غور کرتا جائے‘ اتنا ہی وہ حیرت میں اترتا چلا جاتاہے ۔ خدا نے جب یہ دنیا بنائی تو پودے تخلیق کیے ‘ جو چل پھر نہ سکتے تھے اور ان کا کام تھا‘ حیوانی زندگی کا پیٹ بھرنا اور اسے آکسیجن مہیا کرنا۔ اگر پودے حرکت کے قابل ہوتے تو کرّہ ٔ ارض پہ زندگی کبھی پھل پھول نہ سکتی ۔ درخت آگے آگے اور ہاتھی پیچھے پیچھے ۔ پودے میں درد کا احساس نہیں ہے‘ ورنہ آپ پھول توڑتے اور جواب میں پودا ایک چیخ بلند کرتا ۔ زندگی مشکل ہو جاتی ۔ تو یہ جو scenarioہے‘ جس میں زندگی کی ایک قسم‘ یعنی پودے ‘زندگی کی دوسری قسم یعنی جانوروں کو فیڈ کر رہے ہیں ‘ انتہائی بے غرضی کے ساتھ ‘ یہ بہت حیرت انگیز ہے ۔جانوروں میں تو یہی نظر آتا ہے کہ زندگی بنیادی طور پر انتہائی خود غرض ہوتی ہے ‘ تبھی تو surviveکرتی ہے ۔ 
خیرآسٹریلیا سے کہا گیا کہ اونٹوں کو ذبح کروالے اور گوشت غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔ انہوں نے کہا ؛ جی نہیں ‘ ہم نے انہیں گولیاں مار کے قتل کرنا ہے اوران کی لاشیں وہیں پڑی سڑتی رہیں گی ۔ آپ نے مقامی حکومت کا نام سنا '' انانجو پٹ جن ٹجاٹ جاراین کونائیٹ جٹ جارا‘‘ (Anangu Pitjantjatjara Yankunytjatjara) ۔ یہ آسٹریلیا کے قدیم مقامی قبائل کا علاقہ ہے ۔ حکومت کہہ سکتی تھی کہ جس کے ہاتھ جو اونٹ چڑھے ‘ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالے۔ انسا ن جب قتل کرنے پر اتر آئے تو ہاتھی کو نہیں بخشتا ‘ اونٹ کیا بیچتا ہے ۔ پھر اس امر میں کیا حکمت پوشیدہ تھی کہ مقامی لوگوں کو اونٹ پکڑ نے کی اجازت دینے کی بجائے انہیں گولیوں ہی سے مردار کرنا لازم تھا؟ شاید آسٹریلین حکومت کے ذہن میں یہ تھا کہ آسٹریلیا کے یہ قدیم مقامی قبائل کہیں سر نہ چڑھ جائیں ۔ان پر اپنی ہیبت بھی تو برقرار رکھنی ہے ۔
ویسے انسان نے آج تک جہاں بھی مداخلت کی ‘ وہاں بیڑہ غرق ہی ہوا ہے ۔ خدا نے شادی کا حکم دیا ‘ تاکہ وہ اپنی نسل کو بڑھا سکے‘لیکن یہاں خدا کے احکامات کا انکار کرنے والے بھی موجود ہیں۔ کہیں تو ایک طویل عرصے تک عورت کے کوئی حقوق تھے ہی نہیں ‘ پھر جب ہو ش آیا تو بیوی کے حقوق بڑھاتے بڑھاتے وہاں تک لے گیا کہ مردوں نے شادی کرنی چھوڑ دی ۔ایک تحقیق کے مطابق‘ ساری زندگی ساتھ زندگی گزارنے والے جوڑوں کی تعداد اب‘ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ انسان جب شدید بڑھاپے کو پہنچتا ہے ‘ جب معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں توپھر وہ خود ہی اپنا بوریا بستر اٹھا کر اولڈ ہوم کی طرف نکل پڑتا ہے کہ گھر میں تو اس کی کوئی جگہ ہوتی نہیں۔ پاکستان میں بے شمار مثالیں آپ کو مل جائیں گی ‘ جہاں میاں بیوی ساری زندگی ایک دوسرے سے نالاں رہے ‘لیکن پہلے اولاد اور پھر اولاد کی اولاد نے دونوں کو ساری زندگی ساتھ رہنے پر مجبور رکھا ۔
خدا کہتا ہے کہ زندگی قصاص میں ہے ‘ پھر انسان ایک قانون بناتا ہے : قتل کرنے والے کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ اس کی اصلاح کی جائے گی۔ اب‘ دیکھیں کہ جنہوں نے قاتل کو بھی قتل نہیں کرنا تھا اور جو انسان تو کجا‘ حیوانوں کے حقوق کے بھی چیمپئن تھے‘ وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اونٹ قتل کر رہے ہیں ۔ ایک راستہ خدا نے دیا تھا کہ انہیں ذبح کر کے کھا لو یا گوشت بیچ دو۔ نہیں ‘ وہ بھی نہیں کرنا ۔ اصل میں انسان کے اندر ایک خواہش چھپی ہوئی ہے اور وہ خواہش ہے غلبے کی ۔انسان پچاس ہزار سال سے لباس پہنتا آیا ہے۔ اب‘ اسے پہلی بار شاید یہ احساس ہوا ہے کہ میں کیوں خدا کا حکم مان رہا ہوں؟ لباس کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ایک طرف تو انسان جنگل میں لگی آگ بجھا رہا ہے‘ تاکہ جانوروں کو مرنے سے بچایا جا سکے ‘آگ سے زندہ بچ جانے والوں جانوروں پہ خوراک پھینک رہا ہے‘ دوسری طرف وہ اونٹوں کو گولیاں ما ررہا ہے ۔ اصل میں انسان طاقتوربننا چاہتا ہے ۔ لاشعور میں یہ خواہش چھپی ہے کہ جسے میں چاہوں زندگی دوں اور جسے چاہے موت۔کیا یہ متوازی خدائی قائم کرنے کی خواہش ہے؟ ۔
خطرہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا حادثہ ہمارا منتظر ہے ۔ خدا اس چیز کو قطعاً برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی کوشش کرے۔ بہرحال آپ انسان کی عقل دیکھیے کہ عالمی سطح پر کیا کیا کارنامے انجام دے رہا ہے ۔ ایک طرف ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اونٹوں کے سر وںمیں گولیاں مار رہا ہے ‘ دوسری طرف انہی ہیلی کاپٹر ز سے بھوکے خرگوشوں کے لیے گاجریں پھینکی جا رہی ہیں ۔ کہیں جنگلات میں لگی آگ بجھائی جا رہی ہے اور کہیں بے دریغ کٹائی کی جا رہی ہے۔ یہ ہے‘ انسان کا Planet Earth۔
خطرہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا حادثہ ہمارا منتظر ہے ۔ خدا اس چیز کو قطعاً برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس کی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کی کوشش کرے۔ انسان کی عقل دیکھیے کہ کیا کررہا ہے ؛ایک طرف ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اونٹوں کے سر وںمیں گولیاں ماری جا رہی ہیں ‘دوسری طرف انہی ہیلی کاپٹر ز سے بھوکے خرگوشوں کیلئے گاجریں پھینکی جا رہی ہیں ۔یہ ہے‘ انسان کا planet Earth۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں