چند روز قبل میں نے ریڈیو پہ ایک حکیم صاحب کا خطبہ سنا۔ وہ فرمایا رہے تھے کہ میں ذہنی معذور بچوں کا علاج کر سکتا ہوں ۔ میرے پاس ایک دوائی ہے ‘ جس سے دماغ میں نیورون بننا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس برص سے لے کر معدے کے السر تک‘ ہر بیماری کا علاج موجود تھا۔ اس کے باوجود انہیں ریڈیو پر بیٹھ کر مریض گھیرنے پڑ رہے تھے۔ نیورانز بنانا وہ کام ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی سائنسدان اس میں کامیاب ہواتو اسے آرام سے نوبل انعام مل جائے گا ۔
دنیا بھر میں سائنسدان چوہوں اور بندروں پہ تجربات کر رہے ہیں ۔ انہیں کیمیکلز دے کر ان کے دماغ کے سکینز لیے جاتے ہیں ۔ یہاں ایک ایسا بندہ نیورون بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے ‘ جو زندگی میں کبھی لیبارٹری میں داخل ہی نہیں ہوا ۔یہ ایسا ہے ‘ جیسے کوئی عام آدمی ایٹم بم بنانے کا دعویٰ کردیں ۔ ایک ذہنی معذور بچّے کے والدین کو یہ امید دلانا کہ میں آپ کا بچّہ ٹھیک کر دوں گا‘ پھر اسے الٹی سیدھی دوائیں کھلا کر اس کا سوا ستیاناس کرنا ۔ اس کے گردے یا جگر تباہ کر دینا ۔ انتہائی تکلیف میں زندگی بسر کرتے ماں باپ اور بچّے کو تکالیف کے ایک نئے دور سے گزارنا۔ ملک میں اگرقانون کی حکمرانی ہو تو ایسے لوگوں کو پھانسی پہ لٹکا دیا جائے۔
ساتھ ساتھ حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ کسی کو بھی ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ ہو تو میں نے ایک ڈپلومہ کر لیا ہے ۔ اب میں اپنے ہاتھ سے ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ایڈجسٹ کر سکتا ہوں ۔ خدا جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں وہ تباہ کر چکے ہیں ۔ان کے لہجے چغلی کھاتے ہیں کہ انہیں اردو اور انگریزی بولنی بھی نہیں آتی۔ دوسری طرف ان سے بھی بڑے نابغے تشریف فرما ہیں ۔ سائنسدان بلیک ہول سے متعلق امیج بنانے کا دعویٰ کریں یا کورونا جیسا وائرس پھوٹ پڑے‘ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا ‘ کفار کو جلد از جلد ویکسین بنانے کی توفیق عطا کرتاکہ مسلمان صحت یاب ہو سکیں۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جو انتہائی خوفناک احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ماں باپ میں علیحدگی یا زندگی میں کسی سانحے نے ان کی نفسیات کو ہمیشہ کے لیے مجروح کر ڈالا ہے۔انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ ایک طویل عرصے تک مسلمان سپر پاور تھے اور علوم و فنون پر ان کی اجارہ داری تھی ۔ ایک طویل عرصے تک مغرب توجہالت میں ڈوبارہا۔
برتر ٹیکنالوجی کی وجہ سے جن لوگوں کی وہ پوجا کرتے ہیں ‘ انہوں نے دو عالمی جنگوں میں ایک دوسرے کے گیارہ کروڑ لوگ قتل کر ڈالے ۔ یورپی اقوام امریکہ پہنچیں تو پچاس لاکھ ریڈ انڈینز انہوں نے قتل کر دیے ۔ افریقی سیاہ فام غلاموں سے بھرے ہوئے بحری جہاز اپنی منزل تک پہنچتے تو لگ بھگ آدھے غلام بیماری اور بھوک سے مر چکے ہوئے ۔ یہ وہ لوگ ہیں ‘ جو بھارت کی طرف سے کشمیرپہ مسلط کر دہ نسل کشی پر کبھی بات نہیں کریں گے ۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام ان کے نزدیک کوئی موضوع نہیں‘ لیکن کسی بھی مسلمان سے کوئی بھی حماقت سرزد ہوجائے‘ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مضحکہ اڑانا شروع کر دیں گے ۔
میں تو یہ سوچتا ہوں کہ کوئی مسلمان چمگادڑ کھا لیتا تو انہوں نے تو پیٹ پیٹ کر اپنے کپڑے پھاڑ لینے تھے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ چینیوں کا چمگادڑ ‘ چوہے اور کاکروچ کھانا ان کے نزدیک کوئی قابلِ ذکر واقعہ ہی نہیں ہے ۔
اگر کوئی لڑکا چوراہے میں کھڑے ہو کر اپنے باپ کے خلاف گفتگو شروع کر دے تو لوگ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے ۔ چھوٹی بڑی برائیاں تو ہر شخص میں ہوتی ہیں ۔لوگ اسے سمجھائیں گے کہ ایسا نہ کرے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس لڑکے کو کونسلنگ اور علاج کی ضرورت ہو ‘ اسی طرح طویل عروج کے بعد مسلمانوںمیں برائیاں تو پید اہو گئیں ‘ جیسا کہ ہر قوم میں ہو ا کرتی ہیں‘ لیکن ان کا علاج کیا مذاق اڑانے میں ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ۔ اصل میں یہ ذاتی زندگی کے صدمات ہیں ‘ جنہوں نے ان کی نفسیات کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔
ایک دماغی قرنطینہ ان لوگوں کے لیے بھی بننا چاہیے۔ مسلمانوں کے زوال کا علاج یہ ہرگز نہیں کہ آپس میں بیٹھ کر ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے رہیں ۔ علاج یہ ہے کہ پہلے مختلف موضوعات پر آپ مغرب کی تحقیق کو پڑھیں ‘ پھر آپ لیبارٹریز بنائیں ۔خود پڑھنا اور تحقیق کرنا شروع کریں۔ احیائے علم کی تحریک چلائیں ۔ ایک وقت ایسا آسکتا ہے کہ جب ایک بار پھر آپ ان سے آگے نکل جائیں ۔ یہ نہیں کہ مغرب کی ترقی کی دیکھ کر احساسِ کمتری سے بندہ مرنے والا ہو جائے ۔
اگر میں غلط ہو ں تو بتائیے کہ کیا انسانی تاریخ میں ایک بھی ایسا لیڈر گزرا ہے ‘ جس نے اپنی پسماندہ قوم کا مذاق اڑا کر اسے ترقی کی راہ پہ گامزن کیا ہو ؟ لیکن ہمارے پاس ایسے نابغے موجود ہیں اور وہ سارادن یہ بھاشن دیتے رہتے ہیں کہ مسلمان کچھ نہیں کر سکتے ۔ ایک دفعہ تو ایک دانشور فرمانے لگا کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کے آبائو اجداد چونکہ نچلی ذات کے ہندو تھے‘ اس لیے ہم نسلی طور پر دوسروں سے کمتر ہیں ۔ ہمارے اندر کبھی کوئی بہتری آ ہی نہیں سکتی ۔ ہم ہمیشہ دوسروں سے کمتر رہیں گے۔ اس طرح کی statementsجاری کرنا اب ویسے بھی فیشن میں ہے ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چمگادڑ میں جنم لینے والے کئی وائرس پہلے کسی اور جانور میں منتقل ہوئے اور وہاں سے پھر وہ انسانی جسم میں داخل ہوئے ۔ SARSپہلے ایشیائی Civet (بلی جیسا اایک جانور ) میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے انسان میں ۔ MERSاونٹ کے ذریعے ‘ ایبولا گوریلااور چمپنزی سے ‘ Nipahسور سے ‘Hendraگھوڑوں سے ‘ جبکہ Marburgسبز افریقی بندر سے انسان میں منتقل ہوا۔
کورونا وائرس سے حاصل ہونے والا ایک اور سبق بے حد اہم ہے ۔ انسان جب کرّہ ٔ ارض سے زندگی ختم ہونے کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ جوہری ہتھیاروں کی نشاندہی کرتاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خلا سے آنے والے کسی بہت بڑے دمدار ستارے یا شہابِ ثاقب کے بارے میں سوچتا ہے ‘ جو کہ زمین پر گر کے تباہی پھیلا دے گا۔ وہ بڑے آتش فشائوں کے پھٹنے کا سوچتا ہے ۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ زمین پر خوراک ختم ہو جائے گی‘ پانی ناپید ہو جائے گی ۔ وہ سوچتاہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ ٔ حرارت کی وجہ سے دنیا کی ساری برف ختم ہو جائے گی ۔ براعظم پانی میں ڈوب جائیں گے یا ایک نئی آئس ایج شروع ہو گی۔ کرّہ ٔ ارض برف کا گولہ بن جائے گی ۔ وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ وائرس جیسے جراثیم کرّہ ٔ ارض سے زندگی کا خاتمہ کر دیں گے ‘ جبکہ وائرس کے ذریعے زندگی کو ختم کرنا زیادہ آسان ہے ۔
اسی طرح یہ بھی دیکھیے کہ ایک انسان اگر زندہ جانور کو کھانا شروع کر دے ۔ زندہ مچھلی اورحتیٰ کہ آکٹوپس کھا جائے۔ زندہ جانور کی کھال اتارکر اسے تڑپنے کے لیے چھوڑ دے اور چمگادڑ جیسی مکروہ چیزیں کھانا شروع کر دے ۔ اگر وہ جانور کو پکانے سے پہلے اس کے مرنے کا بھی انتظارنہ کرے تو کیا آپ اسے نارمل کہیں گے ؟ انسان ایسا نہیں کر سکتااو رجو لوگ ایسا کرتے ہیں ‘ آخر میں ان کا خاتمہ گردن میں پیدا ہونے والا ایک وائرس ہی کرے گا۔