"FBC" (space) message & send to 7575

براہِ کرم احتیاط کیجیے !

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا شدید خوف کا شکار ہے ۔ انتہائی لاپروا لوگ بھی ماسک لگائے بیٹھے ہیں ۔ سکول ‘ کالج اور کارخانے بند ہیں ۔ پارکس اور شاپنگ مال بھی ۔ پیسے ہونے کے باوجود متمول لوگ بھی اپنے بچوں کو باہر جانے نہیں دے رہے ۔ یہ تو خیر چھوٹی باتیں ہیں ‘ کعبہ کا طواف ہی جب رک جائے اور حج ہی جب خطرے میں پڑ جائے تو اس سے بڑی قیامت اور کیا ہو سکتی ہے ۔ اٹلی اور سپین جیسے امیر ممالک صفِ ماتم بچھائے بیٹھے ہیں ۔یہ کس قدر تکلیف دہ بات ہے کہ آپ اپنے بچّے کو چھو نہیں سکتے۔ خدانخواستہ کیا ایک دن ہمیں بھی اپنے پیاروں کو دفنانا ہوگا اور وہ بھی اس حالت میں کہ اٹلی کی طرح کوئی میت کے قریب بھی نہ جا سکے ۔
لوگ سوچ رہے ہیں کہ دنیا کتنی خوبصورت ہوا کرتی تھی ۔ہر شخص چاہتا ہے کہ یہ دنیا پہلے جیسی ہو جائے ‘ جیسی یہ کورونا سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ میرا آپ سب سے سوال ہے اور آپ سوچ کر اس کا جواب دیں کہ کورونا سے پہلے یہ دنیا آخر کتنی خوبصورت تھی ؟افغان لیڈرشپ کی ہٹ دھرمی اور امریکیوں کی بربریت کے نتیجے میں افغانستان میں دو لاکھ شہری مارے گئے ۔ مرنے والوں کے اہلِ خانہ پر تو اسی وقت قیامت ٹوٹ پڑی تھی ‘ گو کہ اس وقت دنیا میں کورونا کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کشمیر ی 230دن سے لاک ڈائون میں پڑے ہیں ۔ بھلا جن لوگوں کی بینائی پیلٹ گن نے چھین لی یا جن کے اہلِ خانہ بھارتی فوج نے شہید کر دیے ‘کورونا وائرس ان کے لیے اب کتنا بڑا مسئلہ ہوگا؟ شام کی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ افراد شہیدہو چکے ہیں ۔ برما میں روہنگیا قتلِ عام سے گزرے ہیں ۔ ان کروڑوں لوگوں پر تو قیامت پہلے ہی ٹوٹ چکی ہے ۔ کورونا وائرس نے ان کی زندگیوں کو اب بھلا کیا متاثر کیا ہوگا؟ 
مجھے ایک نوجوان فلسطینی باپ یاد آتا ہے ۔ اس کی ڈیڑھ دو سال کی‘ پھول جیسی بیٹی‘ یہودی سکیورٹی فورس کے ایک حملے میں شہید ہو گئی تھی اور وہ دونوں ہاتھوں میں اس کی لاش اٹھائے چیخیں ماررہا تھا۔اس کے لیے دنیا میں بھلا کیا رنگ باقی بچا ہوگا۔ کورونا وائرس کو دیکھ کر آج ہم لوگ کیوں آہ وزاری کر رہے ہیں ؟ اس لیے کہ پہلی بار بیماری کی صورت میں یہ آگ ہمارے دامن تک آپہنچی ہے ۔ ہماری زندگیوں کے رنگ خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ اس سے پہلے دن رات ہم دوسروں پر قیامت ٹوٹتے دیکھا کرتے تھے ۔
فرض کریں آپ کے پاس دنیا کی ہر نعمت موجود ہے‘ لیکن آپ کا دل پھیل جاتاہے یا گردے خراب ہو جاتے ہیں یا آپ کو پارکنسن ہوجاتی ہے ۔ آپ کیلئے اب دنیا میں باقی کیا بچا ؟ کچھ بھی نہیں ۔ کورونا وائرس نہ بھی آئے‘ قیامت تو ٹوٹ پڑی ہے ۔ 
فرض کریں ‘ایک شخص انتہائی خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے ۔ دولت اور صحت سمیت دنیا کی ہر نعمت اس کے پاس موجود ہے ۔ایک دن اس کے چھوٹے سے بچّے کو کوئی سفاک شخص زیادتی کر کے قتل کر دیتاہے ۔ اس کے لیے دنیا میں کیا بچا ؟ روزانہ ایسے واقعات کیا رونما ہو نہیں رہے ؟ ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں اور بے فکری سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہم پر تو یہ افتاد نازل نہیں ہوئی‘ کسی اور پر ہوئی ہے ‘لیکن خدانخواستہ وہ کوئی اور ہم بھی تو ہو سکتے تھے۔
میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ حفاظتی تدابیر نہ کیجیے۔ وہ تو عین فرض ہیں ۔ میں تو آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانا چاہتا ہوں ۔ فرض کریں ‘ کوئی کورونا نہیں ۔ آپ کی صحت اچھی ہے ‘ دولت موجود ہے ‘ بیوی بچے فرمانبردار ہیں ۔ اس کے باوجود ایک ایک کر کے آپ کے بیوی بچوں ‘ ماں باپ اور بہن بھائیوں نے آپ کی آنکھوں کے سامنے مرنا ہے یا آپ نے ایک دن ان کے سامنے۔ کیا آپ لوگ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ آپ موت سے بچنا چاہتے ہیں‘ لیکن لاشعوری طور پر آپ کو پتا توہے کہ ایک نہ ایک دن میں نے اور میرے پیاروں نے بہرحال مرجانا ہے ۔ آپ اس موت کو ٹالنا چاہتے ہیں ‘تاکہ آپ ہمیشہ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہیں ‘لیکن آپ موت کو کتنا ٹال سکتے ہیں ؟ بیس سال ‘ چالیس سال‘ ساٹھ سال ؟ جب آپ بہت بوڑھے ہو جائیں گے تو کیا اس وقت موت آپ کے لیے سانحہ نہیں ہوگی؟تب موت آپ کو اچھی لگنے لگے گی ؟ اگر ایسا ہوتا تو 94سالہ ملکہ برطانیہ کیوں اپنی جان بچاتی پھر رہی ہے ؟ کوئی جاندار کبھی بھی نہیں مرنا چاہتا۔ 
میں آپ کو دنیا سے بے زار ہرگز نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا ہوں ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ زندگی کو زندوں کی طرح جینا چاہیے ۔ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ‘ لیکن موت کو یاد رکھنا چاہیے ۔انسان کو اگر موت یاد ہو تو وہ کبھی زمین کے ایک ٹکڑے پر اپنے بھائی کو قتل نہ کرے۔ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا انجوائے کرنے کی جگہ نہیں ۔ درحقیقت یہ ہماری دنیا ہے‘ ہی نہیں ۔ یہ تو ایک آزمائش گاہ ہے ۔
یہ دنیا ہماری نہیں ۔ذرا سا بلڈ پریشر بڑھ جائے یا شوگر لیول گر جائے تو بندے کو بخوبی سمجھ آجاتی ہے کہ یہ دنیا میری نہیں ۔اس کمزور جسم کے ساتھ انسان زندگی کو کتنا انجوائے کر سکتاہے ؟ یہ بھی غنیمت ہے کہ دنیا میں ہمارا وقت خوشگوار بنانے کے لیے اللہ نے ہمیں ماں باپ‘ بہن بھائی اور بیوی بچّے عطاکیے۔ خصوصاً بچے تو خدا کی طرف سے آپ کا دل لبھانے کے لیے ایک تحفہ ہیں‘لیکن وہ ہمارے نہیں ‘ نہ ہم ان کے ہیں۔اگر وہ ہمارے ہوتے تو ہم سب ہمیشہ زندہ رہتے یا وہ ہمارے ساتھ ہی پیدا ہوتے اور ہمارے ساتھ ہی مرتے ۔ 
یہ وہ زمین ہے ‘ جہاں آسمان سے ایک 10مربع کلومیٹر کا ایک شہابِ ثاقب آگرتا ہے تو 76فیصد سپیشیز ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہیں ۔ یہ وہ زمین ہے ‘ جہاں چھٹی ساتویں صدی میں طاعون نے دس کروڑ لوگ مار ڈالے تھے ۔بیسویں صدی میں چیچک سے تیس کروڑ بندے مر گئے تھے۔زمین کی گردش پہ کوئی اثر نہیں پڑا۔
ہم کون سا لافانی ہیں ۔ جو زندہ ہے ‘ اس نے تو مرنا ہی ہے ۔ زندہ چیز کتنے سال زندہ رہ سکتی ہے ؟ سو سال ؟ اس کے بعد کیا ؟ٹھیک ہے کشمیر اور فلسطین والے مرگئے‘ ہم خاموشی سے دیکھتے رہے ‘لیکن باری توسب کی آنی ہے ۔ سب نے اپنی اپنی باری پر مرنا ہے ۔ چاہے ‘آج مریں یا پچاس سال بعد ۔ !
زندگی گزاریے ایک ترنگ کے ساتھ‘ لیکن موت کو یاد رکھیے ۔ یہ ہے؛ bottom line۔ہم اس وبا میں مرنا نہیں چاہتے‘ ہماری دعا ہے کہ خدا کی طرف سے ہمیں عنایت کردہ نعمتوں کو کبھی زوال نہ آئے‘ لیکن اگر موت کا وقت آہی گیا ہے تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ 
نوٹ:وبا کے باوجود اب بھی لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں ۔ ایک متاثرہ (Infected)شخص جب سجدہ کرتاہے تواس کے سانس سے وہ وائرس اس جائے نماز یا دری میں منتقل ہو سکتا ہے۔ کچھ دیر بعد اسی جگہ ایک صحت مند شخص سجدہ کرتاہے تو کیا وائرس صحت مند شخص کو منتقل نہ ہو جائے گا؟ infectedلوگوں کی تعداد جب ایک خاص حد سے بڑھ جائے گی تو پھر وائرس انتہائی تیزی سے پھیلے گا۔ براہِ کرم احتیاط کیجیے !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں