کورونا وائرس کی خصوصیات ایسی ہیں کہ یہ اصل میں بوڑھوں اور بیماروں کو مار رہا ہے ۔ وہ لوگ جوبیمار ہیں ‘ جن کے گردے یا پھیپھڑے ناکارہ ہیں ‘ جو ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں ‘ جب کہ صحت مند اور جوان لوگ کچھ دن بیمار رہنے کے بعد خودبخود مکمل طور پر ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔جسم کا امیون سسٹم وائرس سے نمٹ لیتا ہے ۔ اس صورتِ حال میں عطائیوں کی بر آئی ہے ۔ جو لوگ خودبخود اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے ٹھیک ہو رہے ہیں ‘ عطائیوں کا کہنا یہ ہے کہ انہیں ہم اپنے خمیرے ‘کشتے اور چورن کھلا کر ٹھیک کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک عطائی کو ملک کے ایک مشہور اینکر نے اپنے پروگرام میں بلایا اور اس نے وہاں یہ زہر آلود جملہ کہا کہ قرآن میں کسی ویکسین کا ذکر نہیں ۔گویا عوام کو وہ اکسا رہے تھے کہ پولیو سمیت مختلف ویکسینز لینابند کر دیں ۔یہ کس قدر سنگین صورتِ حال تھی ۔ یہ سب کچھ ٹی وی پر پرائم ٹائم میں نشر ہو رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ اینکر اوراس کا بلایا ہوا عطائی پیدا ہوئے ہوں گے تو اگر اس وقت انہیں چھ مہلک بیماریوں کی ویکسینز نہ لگائی جاتی ‘تو کیا آج وہ اپنی مبارک زبان سے یہ زہر آلود جملے ادا کرنے کے قابل ہوتے ؟ ساٹھ فیصد امکان یہ تھا کہ وہ بچپن میں ہی مر گئے ہوتے ۔ ایک وقت تھا کہ جب دس میں سے صرف چار بچّے بلوغت کی عمر کو پہنچتے تھے ۔ باقی چھ مہلک بیماریوں کی ویکسینز نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ جاتے تھے ۔
انسانوں میں چونکہ جسم کی نسبت بچّے کے سر کا سائز کافی بڑا ہوتاہے‘ لہٰذا جہاں بھی زچگی میں پیچیدگی پیدا ہوتی ‘ اکثر ماں اور بچہ اکٹھے مرا کرتے ۔آج اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آپ کے خاندان یا جاننے والوں میں کبھی کوئی عورت زچگی کے دوران مری ہو ۔ یہ الگ بات کہ کرّہ ٔ ارض کی آبادی خوفناک تیزی سے بڑھنے کے بعد آج حاملہ عورتوں کا ایک سیلاب ہے۔ کئی کئی دن انتظار کرنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں ‘ اسی طرح ‘ جیسا کہ انتہائی زیادہ آبادی کی وجہ سے گھروں میں مر غیاں پالنے کا وقت ہی نہیں۔ ایک مہینے میں تیار کیا ہوا اور کیمیکلز پہ پلا ہوا برائلر چوزہ ہم مرغی سمجھ کے کھا جاتے ہیں ‘لیکن میں آپ کو سرجری کی اس معراج کے بارے میں بتا رہا ہوں ‘ میڈیکل سائنس جس تک پہنچ چکی ہے ۔
خدا نے دنیا میں انسان کو جو چند بڑی نعمتیں عطا کی ہیں ‘ ویکسین ان میں سرِ فہرست ہے ۔ ویکسین تیار کرنے میں دنیا کے بڑے سائنسدانوں کی مجموعی ذہانت کارفرما ہے ۔ سینکڑوں سال کی کوشش سے خوردبین ایجاد ہوئی ۔ کسی سائنسدان نے جان پہ کھیل کر بیماری کے جراثیم پہچان کر الگ کیے۔ کسی نے ان جراثیموں کو نیم مردہ کرنے کی کوشش کی ۔ سینکڑوں برسوں کی کوشش سے جسم کا امیون سسٹم پڑھا گیا۔ ایسے بھی سائنسدان تھے ‘ جنہوں نے ان نیم مردہ جراثیموں کو اپنے ہی جسم میں داخل کر دیا اور اپنی زندگی کو دائو پرلگا ڈالا‘ پھر یہ ویکسینز بڑی تعداد میں تیار کی گئیں ۔ امیر ممالک نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر غریب ممالک تک بھی پہنچائیں ۔ اس لیے کہ ایک بیمار شخص وباکو پوری دنیا میں پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے ۔
لیکن جو شخص ہو ہی نا شکرا اور احسان فراموش وہ بھلا کیوں کسی کا احسان مانے گا۔ خدا نہیں کہتا کہ جو انسانوں کا احسان نہیں مانتا ‘ اس نے میرا احسان کیا ماننا ‘ اگر کورونا وائرس کی خصوصیات پولیو جیسی ہوتیں‘ اگر وہ اپنے ہر شکار کا عصبی نظام تباہ و برباد کر رہا ہوتا اورکورونا میں جسم کی یہ بربادی پولیو کی طرح ناقابلِ علاج ہوتی تو پھر پوچھتے آپ ان عطائیوں سے کہ کرو اب علاج ۔ یہ اینکر ‘ اس کا مدعو کردہ عطائی اور یہ جتنے بھی نام نہاد طبیب ہیں ‘ ان سب کے بچے ہسپتالوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔یہ سب اپنے بچوں کی ویکسی نیشن کراتے ہیں ۔ یہ سب اپنے دل‘ گردے اور پھیپھڑوں کا علاج انہی ہسپتالوں سے کرواتے ہیں ‘لیکن جب دوسروں کی باری آتی ہے تو ان کے دل بہت سخت ہو جاتے ہیں ‘ اگر یہی سرجن کچھ برسوں کے فرق سے میری ماں اور باپ کے پتھری زدہ پتّے نکال نہ دیتے تو ساری زندگی بے بسی سے ہم انہیں تڑپتے اور سسکتے ہوئے دیکھتے ۔گردے اور پتّے کی پتھری جب بھی حرکت کرتی ہے تو ناقابلِ بیان تکلیف پیدا کرتی ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ بریگیڈئیر مکرم صاحب نے جب میرے والد کا پتّا نکالا توبتایا تھا کہ وہ سکڑنا شروع ہو چکا تھا۔'' صحیح وقت پر آپ نے اسے نکلوا دیا ۔‘‘ ان چھوٹی چھوٹی بیماریوں سے زمانہ ٔ قدیم میں لوگ مر جایا کرتے تھے ۔بے شمار بیمار لوگ خون بہنے سے ‘ انفیکشن سے مر جاتے ۔ آج بھی افریقہ سمیت دنیا کے جن ممالک میں میڈیکل سائنس نہیں ہے ‘ بیس بیس سال لوگ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں تکلیف اٹھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں ۔
جس عطائی نے ہمیں یہ کہہ کر مدعو کیا تھا کہ وہ ایک کوالیفائیڈ حکیم ہے اوراس نے کورونا کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ اب‘ اس کا اگلا لطیفہ سنیں ؛ اس نے مجھے اپنے فیس بک پیج کا لنک بھیجا ۔ میں نے جب اسے کھولا تو وہاں وہ فروزن شولڈر کے علاج کے لیے ایک مریض کو ٹانگوں کی ایکسرسائزز کروا رہا تھا ‘ لیکن یہ کون سی بڑی بات ہے ‘ جو شخص یہ کہہ رہا ہو کہ دماغ کے کینسر کی آخری سٹیج پر کھڑی مریضہ میرے علاج سے دنوں میں ٹھیک ہوئی ‘ جس کا کہنا یہ ہو کہ وہ کینسر کے علاوہ بیک وقت ماہرِ امراض دل اور ماہرِ امراض دماغ ہے ‘ جو فروزن شولڈر کا علاج کرنے کے ساتھ وائرلوجسٹ بھی ہے اور اس نے کورونا کا مطالعہ کر کے دنوں میں اس کا علاج دریافت کر لیا ہے اور پی ایچ ڈی لوگ بیٹھے اس کے یہ ہذیانی دعوے سن رہے ہوں ‘ وہاں کیانہیں ہو سکتا ‘ جو لوگ میڈیکل سائنس کو سمجھتے ہیں ‘ وہ جانتے ہیں کہ یہ میڈیکل سائنس کے پانچ الگ الگ شعبے ہیں اور چھ سال میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ان میں سے کسی ایک میں لوگ برسوں محنت کرتے ہیں تو وہ دل یا دماغ کے ماہر بنتے ہیں ‘ نیز کسی کا دماغ خراب ہے کہ پانچ الگ الگ شعبوں میں ٹانگیں پھنسا لے ۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے بندہ ہوائی جہاز بنانے کے ساتھ سرکس کے جانوروں کو بھی سدھاتا ہو اور ساتھ پارٹ ٹائم وہ سائیکل پہ امرود بھی بیچتا ہو‘ جو کینسر کی آخری سیٹج پر کھڑے مریض کا دنوں میں علاج کر سکتا ہو‘ وہ فروزن شولڈر کو کبھی ہاتھ لگائے گا؟ لیکن ان سب عطائیوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ سرجری کی طرف کبھی نہیں آئیں گے ۔ سرجری کا نام سنتے ہی ان کی ماں مر جاتی ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی دو نمبر ی نہیں چل سکتی اور نہ ہی وہاں جسم کا امیون سسٹم اسے بچا سکتا ہے ۔نشتر غلط چل گیا تو مریض مر جائے گا ‘ جو شخص بیک وقت کینسر‘ امراضِ دل ‘ امراضِ دماغ اور وائرسز کا ماہر ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا ‘ مجھے اس کی طرف دیکھ کر گھن آئی۔ خدا جانے وہ کس کس کی زندگی کھا کریہاں تک پہنچا تھا ۔ (جاری )