انسان کا سائنسی نام ہومو سیپین ہے ۔ اس کی تاریخ کل تین لاکھ سال پہ محیط ہے ۔ یہ اندازہ یہاں سے لگایا گیا کہ آج تک ہومو سیپین کے جو قدیم ترین فاسلز ملے ہیں ‘ وہ تین لاکھ سال پرانے ہیں ۔کل اس سے بھی قدیم فاسلز مل سکتے ہیں ۔ ہومو سیپین ان پانچ ارب سپیشیز میں سے ایک ہے ‘ جنہوں نے ساڑھے چار ارب سال کے عرصے میں اس کرّہ ٔ ارض پہ زندگی گزاری ۔ ہومو سیپینز سب سے آخر میں پیدا ہوئے ہیں ۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ان کے دماغ کو سب سے زیادہ وقت ملا ارتقا کے لیے۔کرّہ ٔ ارض پہ زندگی کا مآخذ ایک ہی تھا ا وروہ ایک واحد زندہ خلیہ ‘ اسی سے بھینس اور بندر بنے ۔ آج جتنی بھی زندہ مخلوقات نظر آتی ہیں ‘ سب اسی کی اولاد ہیں ۔
اس ایک سپیشیز ‘ ہو مو سیپین نے دنیاکو بدل کے رکھ دیا ہے ۔اس نے پہیہ بنایا اور عین ممکن ہے کہ وہ اس ڈنگ بیٹل نامی کیڑے کو دیکھ کر بنایا ہو ‘جو ہاتھی اور بھینس کے گوبر کے بہت بڑے بڑے گولے بنا کر اپنے گھر لے جاتا ہے ۔ہومو سیپینز نے پتھر او رہڈیوں سے اوزار بنانا شروع کیے ۔ اس نے آگ استعمال کرنا سیکھی ۔ بارود کو آگ لگا کر اس کا نتیجہ دیکھا ‘ پھر یہ اس قابل ہو گیا کہ آگ کو استعمال کرتے ہوئے لوہے کے اوزار بنانا شروع ہو گیا ۔ لوہے اور آگ سے اس نے دشمنوں سے اپنا دفاع کرنا سیکھا‘لیکن ہوموسیپین اپنی تمام تر عقل کے باوجود حیاتیاتی طور پر جانوروں جیسا ہی تھا‘ اگر اسے سانس میں کوئی مسئلہ ہوجاتا‘ دل کام کرنا چھوڑ جاتا‘ گردے خون کی صفائی کرنا چھوڑ دیتے ‘ دماغ کی کوئی رگ پھٹ جاتی تو وہ بے بسی کے ساتھ ایک بکری اور ایک بھینس ہی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر جاتا ۔
کبھی کبھی میں لاکھوں برس پہلے زندگی گزارنے والے ان ہومو سیپینز کے بارے میں سوچتا ہوں ‘ جن کے گردے یا پتّے میں پھری پیدا ہوجاتی ‘تو پھر باقی زندگی وقفے وقفے سے درد سے تڑپتے رہنے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔ زچگی میں پیچیدگی پیدا ہوتی تو زچہ بچہ مر جاتے ۔ اکثر بچے پیدائش کے بعد ٹیٹنس‘ ڈائیریا‘خسرہ‘ چکن پاکس ‘ٹی بی اور پولیو جیسی بیماریوں سے مر جاتے ۔ شرح یہ تھی کہ دس میں سے چار بچّے بلوغت کی عمر کو پہنچتے اور یہ وہ بچّے ہوتے‘ جو ان بیماریوں سے گزرنے کے بعد انتہائی سخت جان ہوتے ۔ یہی وجہ تھی کہ تین لاکھ سال سے زمین پر زندگی گزارنے کے باوجود انسانوں کی آبادی پچھلے کچھ سو سال تک انتہائی معمولی رفتار سے بڑھتی رہی ۔
پھر میڈیکل سائنس بیچ میں آگئی ۔ خوردبین ایجاد ہو گئی ۔ بیماری کے جراثیم پہچانے گئے۔ جسم کے امیون سسٹم کو سمجھ لیا گیا ۔ ویکسین ایجاد ہوئی تو یہ ایک تاریخ ساز معجزہ تھا ۔ یہ جدید میڈیکل سائنس کا کارنامہ تھا اور جس میں ویکسین کا کردار سب سے زیادہ ہے کہ بچّے مرنے سے بچنے لگے ۔ جو بچّے مرنے سے بچ جاتے ‘ وہ مزید اولاد پیدا کرتے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کی آبادی سات ارب تک پہنچ گئی ۔ لائف سٹائل بہتر ہو گیا۔انفیکشن اور ٹی بی جیسی بیماریوں سے جہاں کبھی بادشاہ مر جایا کرتے تھے‘ اب محنت کشوں کے بچّے بھی فلاحی اداروں میں صحت یاب ہونے لگے ۔ ذیابیطس کے مریض جہاں کچھ ہی عرصے میں مرجاتے ‘ وہاں انسولین نے ان کی عمر میں اضافہ کر دیا۔ کینسر کے مریض جہاں دیکھتے ہی دیکھتے المناک موت کا شکار ہوتے ‘ وہاں کیمو تھراپی اور کینسر کے جدید علاج نے ان میں سے ایک بڑی تعداد کو شفایاب کرنا شروع کیا۔کتنے ہی لوگ تھے‘ جو گردے اور جگر ٹرانسپلانٹ کے بعد مزید کئی سال تک زندہ رہے ؛حالانکہ اصولاًان کی عمر پوری ہو چکی تھی ‘ اسی طرح گردے کے ڈائلسز پہ لوگ دس دس سال تک زندہ رہتے ہیں ؛حالانکہ ان کے گردے ختم ہو چکے ہوتے ہیں ۔
یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ دنیا میں تیزی سے سٹیم سیل سے اعضا بنانے کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے ۔ ایک وقت آئے گا کہ جب آپ اپنے گرے ہوئے بال‘ دانت ‘ کٹی ہوئی ٹانگ سمیت تمام اعضا لیبارٹری میں بنوا سکیں گے ۔ یہ وہ اعضا ہوں گے ‘ جو آپ کے جسم ہی سے خام مال لے کر بنائے جائیں گے ‘ لہٰذا آپ کا جسم انہیں مسترد نہیں کرے گا۔ آپ کو ادویات لے کر اپنے امیون سسٹم کو کمزور کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔
ویکسین ایک نعمت ہے ۔اللہ کہتا ہے کہ جس نے ایک جان کو بچایا‘ اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا ۔ جس نے ایک انسان کو قتل کیا‘ اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ ویکسین اب تک اربوں انسانوں کی زندگی بچا چکی ہے ‘ اگر ہر بچّے کو پیدا ہوتے ہی چھ مہلت بیماریوں کی ویکسین نہ لگائی جائے‘ تو ان میں سے نصف بلوغت کی عمر سے پہلے ہی مر سکتے ہیں ۔اس لحاظ سے ہمیں ویکسین اور ویکسین بنانے والے سائنسدانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔ ان کا یہ احسان ہے ‘انسانیت پر اور ہم اگر اپنی ساری دولت بھی انہیں دے دیں تو بھی ان کا یہ احسان اتار نہیں سکتے ‘ لیکن دنیا میں ایسے ایسے احسان فراموش پائے جاتے ہیں ‘ جو بجائے ویکسین بنانے والوں کے شکر گزار ہونے کے ‘ جہلا کو اکھٹے کر کے ان پر تبرہ کرتے ہیں ۔ اپنے ٹی وی پروگرام میں دھاڑتے ہیں ''یہ جو ویکسین مافیا ہے ‘‘ ۔ یہ تو اسی طرح ہو گیا ‘ جیسے بندہ کہے کہ یہ جو مہنگائی مافیا ہے یا یہ جو گراں فروش مافیا ہے ‘ جبکہ دنیاموجودہ موذی کورونا وبا کی ویکسین کی بھی منتظر ہے۔
ان کے فرمودات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان موجود سرحدیں جعلی ہیں ۔ پاسپورٹ ہونے ہی نہیں چاہئیں‘ تاکہ جب کہیں سے بھی ایک خودکش بمبار اپنے خچر پہ بیٹھ کر یورپ میں داخل ہو تونہ اسے روکنے والا کوئی نہ ہو ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اب کوئی بھی بچّہ اگر ویکسین نہ لینے کی وجہ سے مرے تو اس کا پرچہ ان کے اوپر کاٹیں ‘ جو ٹی وی پہ بیٹھ کر ویکسین کیخلاف بھاشن جاری فرماتے ہیں۔ ان کا یہ ریکارڈڈ بیان عدالت میں پیش کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر ایکشن لیں کہ اکیسویں صدی میں ایک صاحب ٹی وی پہ بیٹھ کر لوگوں کو ویکسین کے خلاف لیکچر دے رہا ہے ۔ نیزیہ بھی چیک کیا جائے کہ ان کے خاندان کے بچوں کی ویکسی نیشن ہوئی ہے یا نہیں ؟ خصوصاً پولیو ویکسین نہ پلائی گئی ہو تو پھر مقدمہ بہت سخت بنے گا۔