ایڈم محبت اور عقیدت سے اپنے بوڑھے ہیرو کو دیکھتا رہا۔ 35سال پہلے ایک بڑی رقم قرض دے کر اس نے اسے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دیا تھا ۔ 35سال بعد جب وہ قرض واپس کرنے آیا تو ایغور پاشا نے کئی روز تک سنکی پن کی اداکاری کر کے اسے اپنے پاس روک لیا تھا ۔کامیاب اداکاری سے اگر وہ اسے روک نہ لیتا توایڈم کی قبر کا نشان تک نہ ملتا۔ اس کے بیوی بچّے ساری زندگی بلکتے رہ جاتے۔ حقیقت یہ تھی کہ پاشا اپنی مرضی سے تنہائی کی زندگی گزار رہا تھا ۔ گو کہ جسمانی طور پر وہ تقریباً ختم ہو چکا تھا‘ لیکن ذہنی طور پر آج بھی بھرپور صحت مند تھا۔ پاشا نے کہا کہ آج وہ لوگ آئیں گے ‘ جو اس ویرانے میں اسے ضروریاتِ زندگی فراہم کرتے ہیں ۔ وہ ایڈم کو خطرے کی حدود سے باہر تک چھوڑ آئیں گے۔
''جناب میں ایسے نہیں جائوں گا ۔‘‘ ایڈم نے کہا ۔ ''وہ رجسٹرکہاں ہے ۔‘‘ایغور پاشا ہنس پڑا ۔ ''تم رجسٹر کے بارے میں بھی جانتے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ایڈم نے اثبات میں سرہلایا ۔ قصبے میں ایک بار مشہور تھی کہ ایغور پاشا کے پاس ایک رجسٹر ہے ‘ جس میں اس نے سب قرض لینے والوں کے نام اور رقم درج کر رکھی ہے ۔ قصبے والے کہتے تھے کہ پاشا نے اگر کبھی یہ رجسٹر کھول دیا تو بڑے بڑوں کے راز فاش ہو جائیں گے ۔ یہ رجسٹر کبھی نہیں کھلا۔ ظاہر ہے کہ ایک نہ ایک دن بوڑھے ہیرو نے مر جانا تھا ۔ بیوی بچے تو اس کے تھے نہیں لیکن کسی دور کے رشتے دار کو ساری جائیداد ملتی تو پھر یہ رجسٹر بھی اس کے ہاتھ لگ جاتا۔ آخر تو سب کا بھانڈہ پھوٹنا ہی تھا ۔ ایڈم کو اسی دن کا ڈر تھا۔
پاشا سوچتا رہا‘ پھر اس نے ایڈم کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اسے لے کر وہ تہہ خانے میں اترا۔ یہاں پہنچ کر ایڈم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔یہ تہہ خانہ مکمل طور پر الماریوں سے بھراہوا تھا ۔ زمین سے چھت تک‘ ہر الماری میں رجسٹر ہی رجسٹر رکھے ہوئے تھے ۔پاشا نے اسے بتایا کہ وہ ڈائری لکھنے کا عادی تھا اور اپنی زندگی کی ہر بات اس نے لکھ رکھی تھی۔ ایک الماری میں اس نے ایک مقفل خانہ کھولا ۔ اس میں نیلے رنگ کا ایک ضخیم رجسٹر رکھا تھا۔ اس کے ٹائٹل پر ''قرضہ جات ‘‘ درج تھا ۔ ایڈم کا اوپر سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ یہ تھا ‘وہ رجسٹر ‘ جس میں سب کے راز درج تھے ۔
وہ اوپر آئے ۔ ایغور پاشا قدرے نقاہت اور غنودگی محسوس کر رہا تھا‘ پھر بھی وہ دیر تک صفحے پلٹتا رہا ۔اس نے بتایا کہ ہر چیز درج کرنے کی عادت کی وجہ سے اس نے یہ رجسٹر بنایا تھا ۔ بہت سے لوگ ‘ جنہوں نے اس سے قرض لیے تھے‘ وہ مر چکے تھے ۔ رجسٹر پر ان کے نام اور رقم کے آگے درج تھا ''مقروض وفات پا گیا ‘لہٰذا کھاتہ بند ہوا‘‘۔
آخر اس نے ایڈم کا نام ڈھونڈ نکالا۔ ایڈم نے دیکھا ۔ رجسٹر میں لکھا تھا ''ایڈم(البرٹ کا تیسرا لڑکا )‘‘ آگے رقم درج تھی ۔ نیچے تفصیل درج تھی کہ آج یہ شرمیلا اور حساس لڑکا قرض مانگنے آیا ...آگے پوری کہانی درج تھی ۔ایڈم کی آنکھیں بھر آئیں ۔آخر میں یہ نوٹ درج تھا : ''میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک دن یہ لڑکا قرض واپس کرنے آئے گا ‘‘۔
ایڈم دیکھتا رہا ‘ روتا رہا۔ پاشا کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔ اس نے کہا :ایڈم ‘قصبے میں تم پانچویں بندے ہو ‘ جو قرض واپس کرنے آیا۔بچے یہ رجسٹر اٹھائو۔ سامنے آتش دان کے پاس بیٹھ جائو اور ایک ایک صفحہ پھاڑ کر آگ میں پھینکتے جائو‘ورنہ میری موت کے بعدیہ رجسٹر بڑی تباہی کا سبب بنے گا ۔
پاشا سو گیا۔ ایڈم بظاہر تو ایک ایک صفحہ پھاڑ کرآگ میں پھینکتا رہا‘ لیکن وہ درحقیقت وہ صرف خالی صفحات تھے ۔ اس نے رجسٹر کی نیلی جلد بھی پھاڑ کر آگ میں پھینک دی ۔ جن صفحات میں چھ سات دہائیوں پر مشتمل قرض کی یہ عظیم داستان درج تھی‘ وہ سب اس نے کامیابی سے اپنے سامان میں چھپا لیے ‘ اسے لوگوں کے راز جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کس کس شخص کو قرض دیتے ہوئے پاشا نے اس کے بارے میں کیا رائے درج کی ہے ۔ آج اسے علم ہوا تھا کہ پاشا نفسیات کا بھی ماہر تھا۔جیسا کہ 35سال پہلے اس نے ایڈم کے بارے میں لکھا تھا : مجھے یقین ہے کہ یہ شرمیلا اور حساس لڑکا ایک دن قرض واپس کرنے آئے گا ۔
کچھ دیر میں ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے والے آئے ۔ خواتین اور بچوں سمیت ‘ یہ لوگوں کا ایک ہجوم تھا‘ جو پاشا کے گرد اکھٹا ہو گیا ۔ ان کی آنکھوں میں بوڑھے ہیرو کے لیے محبت تھی ۔ خدا جانے اس نے کس کس پہ کیا کیا احسان کر رکھا تھااور کچھ دیر پہلے وہ ایڈم کو ٹالنے کے لیے یہ کہہ رہا تھا کہ وہ تنہائی کا شکار تھا ۔
رجسٹر چھپائے ‘ ایڈم وہاں سے باہر نکلا ۔ چار دن طویل سفر طے کر کے وہ واپس دارالحکومت پہنچا ‘ جہاں اس کا خاندا ن بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ سب اس سے لپٹ گئے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ایڈم خاصا کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ خاندان سے دوری اس پر اثر انداز ہوئی ہے اور اس کا وزن گرا ہے ۔
ایڈم نے رجسٹر سب سے چھپا کر رکھا ۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا ۔ یہ رجسٹر نفسیات سے متعلق انتہائی دلچسپ معلومات سے بھرپور ایک خزانہ تھا ۔ وہ ایک ایک صفحہ کھول کر اس کے مندرجات کا جائزہ لیتا اور نوٹس بناتا رہا ۔ہر شخص کے نام کے ساتھ پاشا نے نوٹ لکھ رکھا تھا۔ ایڈم دیکھتا رہا ‘ مسکراتا رہا۔بہت سے افراد کے سامنے اس نے لکھا تھا کہ یہ بندہ کبھی قرض واپسی کا سوچے گا بھی نہیں اور ایسا ہی ہوا تھا۔
ایڈم صفحے پلٹتا گیا ۔ ایک صفحہ پلٹتے ہی اس پہ جیسے بجلی آگری ۔اس صفحے پر اس کے باپ البرٹ کا نام درج تھا ۔ایڈم پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے باپ کا نام دیکھتا رہا۔ جس روز ایڈم قرض مانگنے گیا ‘ اس کے باپ البرٹ نے اس سے صرف تین روز پہلے ہی پاشا سے قرض لیا تھا ۔تفصیلات میں لکھا تھا کہ کچھ تھوڑی سی رقم البرٹ نے واپس کی تھی اور پھر وہ فوت ہو گیا تھا۔ ایڈم بدستور پاشا کا مقروض تھا۔
ایڈم بہت دیر تک سوچتا رہا اور روتا رہا۔آخر اس نے رجسٹر اٹھایا اور آتش دان میں جھونک دیا ۔