آج کل اکثر لوگ ایک سوال ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ کا کوئی خونی رشتے داریا دوست جسے آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں‘کورونا کا شکار ہوا ہے؟ آپ کہیں گے ''نہیں ‘‘۔ یہاں سے ذہن سوچنا شروع ہو جائے گا ۔ اس سوال کا اصل مطلب یہ ہے کہ کورونا existہی نہیں کرتا۔ یہ سب دھوکہ ہے ۔آگے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہر بندہ اس سوال کا جواب نفی میں ہی کیوں دیتا ہے ۔
کوروناکس طرح کا دھوکہ ہے ؟ پہلے ایک دلچسپ واقعہ سن لیجیے ‘یہ 2012ء کی بات ہے ۔ ملک میں خودکش دھماکے ہو رہے تھے ۔ دو عشروں میں ساٹھ ہزار افراد ملک میں شہید ہوئے ۔ انہی دنوں ایک بینکر سے ملاقات ہوئی ‘کہنے لگا : ملک میں کبھی کوئی خودکش دھماکہ ہوا ہی نہیں ۔ یہ سب تومیڈیا کی سازش ہے ۔حیرت سے میں سُن ہو گیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ میڈیا جھوٹ بولتاہے ‘ احسان اللہ احسان نامی کوئی شخص existہی نہیں کرتا۔ سامنے کی بات یہ تھی کہ چھوٹے بڑے سینکڑوں ٹی وی چینلز اور اخبارات مل کر ایک پالیسی اختیار کر ہی نہیں سکتے۔ آزاد لوگ لازماً بول پڑیں گے ۔ فرض کریں کہ ہزاروں صحافی‘ جن کے مفادات اور نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں ‘ اگر وہ سب مل کر دہشت گردی پر ایک جھوٹی خبر گھڑ بھی لیں توفوج کیوں خاموش رہے گی ؟ حکومت اور فوج کے ادارے تو پانچ منٹ میں اس جھوٹ کو بے نقاب کر دیں گے ‘لیکن میرے دوست کو سو فیصد یقین تھا۔ اب آجائیں کورونا کے ''دھوکے‘‘ پر ۔ یہ'' دھوکہ‘‘ چین سے شروع ہوا ۔ چین کی حکومت ‘فوج ‘ عوام اور میڈیا نے مل کر دنیا کو ''دھوکہ‘‘ دینا شروع کیا کہ کورونا نامی ایک مخلوق پیدا ہو گئی ہے ‘ کروڑوں افراد کے شہر ووہان کو سیل کر دیا گیا ۔ ہزاروں لوگ مرگئے۔ پھر یہ ''دھوکہ‘‘ چین سے نکل کر یورپ میں پھیل گیا ۔ فرانس جیسے ملک میں صورتِ حال اس قدر خراب ہو گئی کہ لوگ سڑکوں پر ماتم کرنے لگے ۔ پورا یورپ چین کے اس'' دھوکے ‘‘میں شریک ہو گیا ۔
کہاں چین اور کہاں یورپ ! کس قدر مختلف نظریات اور جذبات کے حامل لوگ ہیں ۔ معاشی طور پر ایک دوسرے سے متصادم ۔ چین یورپ سمیت دنیا کی معیشت کھا گیا ۔ چند دہائیوں میں یہ جو چینی معیشت قلانچیں بھرتی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی ‘ یہ حریفوں کو ناک آئوٹ کرتی جا رہی تھی ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اب شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ چینی معیشت ایک دن امریکہ کو اوورٹیک کر جائے گی ۔عالمی سطح پر امریکہ اور چین ایک دوسرے کے سب سے بڑے حریف ہیں ۔ امریکہ نے خطے میں بھارت کو تھانیدار کا کردار سونپنے کی کوشش کی ‘ چین نے جس کی مزاحمت کی ۔اقوام متحدہ میں متعدد دفعہ جب بھارتی کوششوں سے پاکستان کے خلاف کوئی قرار داد پیش ہوئی تو چین نے اسے ویٹو کر دیا۔ کون سی عالمی طاقت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر تی ہے کہ حریف ملک کی معیشت اس سے بڑی ہو جائے ۔ ہر معاملے میں امریکی اور چینی اقوام کا رویہ متصادم ہے۔ چین میں کتے یا بلی کو کھانا ایک معمولی بات ہے ۔ امریکہ میں اسے بربریت سمجھا جاتاہے ۔ جانوروں کے حقوق پر پورے مغرب میں چین پر تنقید ہوتی ہے ۔ چین میں میڈیا سمیت تمام ادارے حکومت کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ امریکی صدر اپنے میڈیا پر گرج برس تو سکتاہے‘ لیکن اسے اپنی اندھی پیروی پہ مجبور نہیں کر سکتا ۔ متعدد بار ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا پر اپنی بھڑاس نکالی اور بھڑاس نکالنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکے۔
اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتاہے کہ چین نے جو ''دھوکہ‘‘ دنیا کودینا شروع کیا‘ امریکہ بھی اس میں شامل ہو گیا ۔ وائرس پھوٹا چین سے تھا‘کشتوں کے پشتے اس نے امریکہ میں لگا دیے۔ چین اور امریکہ نے مل کر دنیا کو ایک ایسا ''دھوکہ‘‘ دیا‘ جس میں چین کے تو صرف ساڑھے چار ہزار لوگ ہی مرے‘ امریکہ میں ایک لاکھ بندہ مر گیا ۔ چین میں تقریباً آمریت نافذ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وائرس کا پھیلائو روک دیا گیا۔ امریکہ میں تو کسی کا منہ بند کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ چین میں تو آپ سب کا منہ بند کرسکتے ہیں ۔ڈیڑھ سو ملکوں میں بیٹھے ہوئے سائنسدانوں میں سے کس کس کا منہ بند کریں گے؟ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے کسی بڑے سائنسدان نے ابھی تک نہیں کہا کہ کورونا ایک سازش ہے ۔وجہ ؟ سائنسدان بہتر جانتے ہیں کہ کورونا ہے کیا بلا ۔وجہ یہ بھی ہے کہ سائنسدانوں نے اپنی برادری میں منہ دکھانا ہوتاہے ۔وہ بے پر کی نہیں ہانک سکتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ہر مرنے والے کو کورونا تشخیص کر رہے ہیں۔ ورثا کہتے ہیں کہ ہم تو دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال لے کر گئے تھے ۔ جواب: دل ‘ جگر ‘ گردے سمیت ہر وہ بندہ جو بیمار ہے یا بوڑھا ہے ‘ اسے کورونا لاحق ہونے اور اس کے مرنے کا خدشہ صحت مند شخص کی نسبت کئی سو گنا زیادہ ہے ۔صحت مند لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے جسم میں کورونا داخل ہوتاہے ‘ امیون سسٹم اس کے خلاف لڑتا ہے ‘ وہ ٹھیک ہو جاتاہے اور بہت سوں کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ بوڑھے اور بیمار لوگ کورونا کا اصل شکار ہیں ۔ اب آجائیے اس سوال کی طرف کہ جب بھی کسی شخص سے پوچھا جاتاہے کہ کیا اس کا کوئی ذاتی دوست یا رشتے دار کورونا کا شکار ہوا ہے تو وہ ہمیشہ نفی میں جواب دے کر خلا میں گھورنا کیوں شروع کر دیتاہے ۔ وہ ہاں میں کیوں جواب نہیں دیتا۔ جواب: پاکستان میں اس وقت کورونا کے شکارافراد کی تصدیق شدہ تعداد پچاس ہزار ہے ۔ اگر ایک بیمار شخص کے رشتے داروں اور دوستوں کی تعداد سو افراد بھی ہواور وہ ان سو کے سو افراد کو اطلاع پہنچا بھی دے کہ مجھے کورونا لاحق ہو گیا ہے تو یہ بنتے ہیں پچاس لاکھ افراد ‘ جو' ہاں میں جواب دیں گے ۔جو' نہیں میں جواب دیں گے ‘ ان کی تعداد ہے 21کروڑ پچاس لاکھ افراد ‘ جو کہیں گے کہ نہیں ہمارا کوئی دوست یا رشتے دار کورونا کا شکار نہیں ۔یہ میں آپ کو مئی کی صورتحال بتا رہا ہوں ۔ مارچ میں کنفرم کیسز دس فیصدبھی نہیں تھے ۔ کورونا کی خصوصیات بھی ایسی ہیں کہ مختلف ممالک میں 80‘ 90فیصد افراد خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ اسی سے سازشی تھیوریز کو ایندھن ملتاہے ۔ کورونا کی خصوصیات اگر پولیو وائرس جیسی ہوتیں تو کوئی شک نہ کرتا اور اللہ کاشکر ہے کہ کورونا پولیو جیسا نہیں ۔ دنیا میں دھوکے بھی ہوتے ہیں لیکن اقلیت اکثریت کو تادیر بے وقوف نہیں بناسکتی۔ اس طرح تو بالکل بھی نہیں کہ تین ارب بندہ مل کر باقی چار ارب کو دھوکہ دے رہا ہو۔