"FBC" (space) message & send to 7575

آج کی دنیا

رئوف کلاسرا صاحب کا کالم پڑھا ۔ اپنے گائوں کی کسی زمین پر تنازع طے کروانے کی کوشش پر انہیں قبضہ گروپ قرار دیاجا رہا ہے ۔ مڑ کر کلاسرا صاحب نے دیکھا تو وہ لوگ نظر آئے ‘جن پر ان کے بڑے بڑے احسانات تھے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ایک شخص پر احسا ن کیا جاتا ہے‘ تو اس وقت وہ سر جھکانے اور شکریہ ادا کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتاہے ؟ نفس کی حرکیات جاننے والے ‘لیکن بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنا موازنہ اپنے محسن کے ساتھ کرتا رہتا ہے ۔ وہ سوچتاہے کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتا اور یہ میری جگہ۔ اوپر والا ہاتھ میرا ہوتا۔ یہ انسانی نفسیات ہے ۔ نفس کے اندر یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنے سے بلند پوزیشن پر موجود شخص سے حسد کر کے رہے گا‘پھر جب زندگی میں وہ موقع آتا ہے کہ احسان کرنے والا گر پڑتا ہے تو اسی حسد کی وجہ سے وہ اسے اٹھانے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل کر پتھر مارتا ہے ۔ ہاں! البتہ کچھ لوگ قدرتی طور پر نیک ہوتے ہیں۔ ان کی عقل انہیں شکرگزاری پہ قائل کیے رکھتی ہے اور وہ احسان یاد رکھتے ہیں ۔ 
میں تو یہ کہتا ہوں کہ انسان کو ہمیشہ اس کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ احسان کرنے والے کی بھی ایک نفسیات ہوتی ہے ۔ وہ یہ سمجھ رہا ہوتاہے کہ میں گرا تو لوگ مجھے اٹھائیں گے ۔ انسان کو کسی سے یہ توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے ۔ یہ توقعات تکلیف دیتی ہیں ۔یہ توقعات نہیں ہوں گی تو آپ اس قابل ہوں گے کہ حیران پریشان پتھر پتھر کھانے کی بجائے اپنا دفاع کر سکیں ۔ انسان کو ہر حال میں اپنے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ کلاسرا صاحب نے بریگیڈئیر اعجاز شاہ کا واقعہ لکھاہے کہ مشرف دور میں اہم عہدوں پر رہتے ہوئے انہوں نے اپنے حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ‘ بے تحاشا نوکریاں بانٹیں اورضلع بنوایا۔ اس کے باوجود 2013ء کا الیکشن ہارے تو انہیں یقین نہیں آرہا تھا ۔ بار بار وہ کہہ رہے تھے '' دنیا پیتل دی اویار ‘‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو سونے اور پیتل کی شناخت ہی نہیں۔ وہ پیتل اٹھا کر چومنا شروع کر دیتے ہیں ۔ میں یہ کہتاہوں کہ حکمت ِ عملی بھی کوئی چیز ہے ‘ اگر آپ نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے اور نوکریاں بانٹیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لازماً آپ الیکشن جیت جائیں گے کہ لوگوں پر آپ کے احسانات ہیں ۔ الیکشن ایک پوری سائنس ہے ۔ سیاست میں زندہ رہنا ایک پوری سائنس ہے ‘ اگر آپ اس سائنس کو نہیں سمجھتے تو بے تحاشا کام کروا کر بھی آپ ہار جائیں گے ۔ '' دنیا پیتل دی او یار ‘‘ اصل میں لوگوں سے اپنی توقعات ٹوٹ جانے کا مظہر ہے۔ 
انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ اپنی غلطیوں اور شکست کا جائزہ لے کر ایک نئی حکمت ِ عملی کے ساتھ میدان میں اترے اور دوبارہ جیت کر دکھائے ۔ سیاست دان تو بار بار اس عمل سے گزرتا رہتاہے۔ سیاستدان تو پیدائشی طور پر ہوا کا رخ پہچانتا ہے ۔ آپ ایک وفاقی وزیر صاحب کو بخوبی جانتے ہیں ‘وہ کبھی پرویز مشرف کے وزیر کے طور پر وہ ٹی وی میں کہتے تھے کہ عمران ایک تانگہ پارٹی کے مالک ہیں‘ 2008ء کے الیکشن میں پرویز مشرف کی عبرت ناک شکست کے بعد ان کا سیاسی ستارہ بھی ڈوب گیا تھا۔ وہ مشرف کا چہرہ اور اس کے سب سے بڑے ترجمان ہوا کرتے تھے ۔ جنرل مشرف کو امریکی کاسہ لیس سمجھا جاتا تھا۔ آپ یہ دیکھیں کہ مشرف کا دور ختم ہوا تو وہ جنرل حمید گل مرحوم کے ساتھ تشریف فرما ہوا کرتے تھے ‘ جس سے بڑا لطیفہ میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔کہاں ‘ مشرف اور جنرل حمید گل کا ساتھ ‘ پھر ہوا کا رخ پہچانتے ہوئے وہ اسی عمران کے ساتھ ہو لیے ‘ جسے مشرف دور میں وہ تانگہ پارٹی کا طعنہ دیا کرتے تھے ۔ 
یہ نہیں کہ آپ ابن الوقت بن جائیں ‘لیکن ہوا کا رخ پہچاننا‘ الیکشن کی سائنس سمجھنا کس کا کام ہے ۔ اسلامی دنیا میں جو شخص سب سے زیادہ زیرک ہے ‘ وہ طیب اردوان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اقتدار طوالت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔ باوجود کرپشن اور ایک ہزار کمروں کا عالیشان محل تعمیر کرنے کے‘ مسلم دنیا اسے سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے ۔ اپنے طویل دورِ اقتدار میں ترک معیشت کو انہوں نے زمین سے آسمان تک تو پہنچایا ہی ‘ فلسطین ‘ مصر اور شام سمیت ہر سلگتے موضوع پر وہ ایسا بیان جاری کرتے ہیں کہ یہ حمایت بڑھتی چلی جا رہی ہے ؛حالانکہ طویل اقتدار کی وجہ سے ہونا اس کے برعکس چاہیے ‘اسی طرح جب ایک صحافی بہت زیادہ مشہور ہو جاتاہے‘ تو اسے بہت سے فائدوں کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکتاہے ۔ ایک گمنام شخص اس سے مبرّا ہوتاہے ۔میرے والد صاحب نے کچھ زمینیں خریدیں ؛ دھوکے ہوئے‘ قبضے ہوئے اورطویل مقدمات۔ مخالف پارٹی اور اس کے وکیل یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں کہ یہ شخص ایک مشہور اخبار نویس ہے ۔ ایک دن میں نے ان سے کہا : زمینوں کا کام تو وہ لوگ کرتے ہیں ‘ جنہوں نے بیس بیس مسلح افراد ساتھ رکھے ہوں ‘جو اپنی بندوقیں اٹھا کر لینڈ کروزرز پر بیٹھ کر نکلیں تو لوگ ان سے ڈریں ۔ جن کے مسلح کارندے زمین پر موجود رہیں ۔ ہم جیسے شہری بابو لوگ ‘جو دو دو سال زمینوں پر جائیں ہی نہ ‘ان کی زمین کون چھوڑتا ہے ؟ مشہور بندے کو خطرات بھی بہت ہیں ۔ ہر موبائل میں کیمرہ نصب ہے ۔ ہر چیز ریکارڈ ہو رہی ہے ‘ جنہوں نے آپ کی شہرت پر حملہ کرنا ہو ‘ وہ ویڈیو اور آڈیو کی ایڈیٹنگ کر کے اپنی ضرورت کے الفاظ کاٹ لیتے ہیں ۔معاملہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے ۔مشہور لوگوں سے نفرت کرنے والے بھی بہت ہیں اور ان میں سے کئی انتہائی منظم ہوتے ہیں ۔ آ ج ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں ‘ جہاں روزانہ کی بنیاد پر ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پہ چلنے والے یہ ٹرینڈ بڑے صحافیوں کے اعصاب توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا حل بھی موجود ہے‘ اگر انسان اپنے حواس کھو نہ دے ‘ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں کرنی ‘ پھر راستے کھلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں