اگر کبھی آپ اس دنیا پہ غور کریں تو آپ کو کئی پر اسرار چیزیں نظر آتی ہیں ۔انہی چیزوں میں سے ایک چیز ہے ٹراما۔ جب بھی انسان کو کسی غیر متوقع تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کا دماغ ٹراما سے گزرتا ہے ۔ٹراما کا وقت بہت خوفناک ہوتاہے ۔ دماغ صدمے میں ہوتاہے اور تکلیف محسوس کرتاہے ۔ ان حالات میں ‘ جب صبح سویرے آدمی کی آنکھ کھلتی ہے تو چند لمحے بعد ہی اسے اپنا صدمہ یاد آتاہے ‘ اسے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے کوئی مر گیا ہے ۔ جب آپ کا کوئی پیارا مر جاتاہے تو آپ کو بھوک نہیں لگتی ‘ اسی کے صدمے میں روتے روتے آپ سو جاتے ہیں ۔ صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو چند لمحات میں جیسے ہی شعور بیدار ہوتاہے تو ساتھ ہی وہ صدمہ یاد آتاہے۔ آپ کا دل چاہتاہے کہ کاش ساتھ ہی آپ کو بھی موت آ گئی ہوتی ۔ٹراماز کی ان گنت قسمیں اور جہات ہیں ۔یہ ٹراماز دنیا کے ہر شخص کو لازماً پہنچ کر رہتے ہیں ۔ کسی کی دولت اسے ان سے محفوظ نہیں کر سکتی ۔ ایک بچّہ جو کھرب پتی والدین کے گھر میں پیدا ہوا ہے تو یہ دولت ہرگز اسے ان صدمات سے بچا نہیں سکتی۔ ہو سکتاہے کہ یہ بچہ سکول جائے تو بچے اس کے کانوں یا گہرے رنگ کا مذاق اڑائیں۔ ایسی باتیں بچوں کو انتہائی تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے بچّہ بڑا ہوتا چلا جاتاہے ‘ ویسے ویسے وہ ان چیزوں کا عادی ہوتا چلا جاتاہے ۔
ایک طالبعلم بہت لائق اور محنتی ہے ۔ ہمیشہ وہ امتیازی نظروں سے امتحان پاس کرتا آیا ہے ۔ وہ ایک امتحان کے لیے انتہائی محنت کرتاہے‘ لیکن جب نتیجہ آتاہے تو اس کے نمبر معمولی اور اس کے لا ابالی دوست کے نمبر اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔ یہ صورتِ حال بھی ایک ٹراما کو جنم دیتی ہے ۔ یہ ٹراماز اس قدر زیادہ اور اتنی مختلف قسموں کے ہیں کہ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ خدا کی طرف سے انسان کے دماغ میں ٹراما سے نمٹنے کا کیا میکنزم بلٹ ان کیا گیا ہے ۔ انسانی دماغ میں یہ صلاحیت اللہ نے رکھی ہے کہ وہ ہر اچھی اوربری صورتِ حال کے ساتھ سمجھوتہ کرتا چلا جاتاہے ‘ اگر آپ نے برسوں کی محنت کے بعد ایک انتہائی مہنگی گاڑی خریدی ہے تو پہلے دن تو خوشی کے مارے آپ کا برا حال ہوگا ۔ جیسے جیسے دن گزرتے چلے جائیں گے ‘ آپ اس کے عادی ہوتے جائیں گے ؛حتیٰ کہ ایک دن آئے گا ‘ جب وہ آپ کے لیے ایک عام سواری بن چکی ہوگی ‘اسی طرح جب انسان اپنے پیاروں کی موت سمیت کسی بہت بڑے صدمے سے گزرتاہے تو غیر محسوس انداز میں اس کا دماغ اس صدمے کا عادی ہوتا چلا جاتاہے ۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس صدمے کی کیفیت میں کمی آرہی ہوتی ہے ؛ حتیٰ کہ ایک دن آتاہے ‘ جب وہ بالکل نارمل ہو جاتاہے ۔ اسے اپنے بچّے کی موت کا صدمہ بھی بھول جاتاہے ۔ وہ دوبارہ دنیا کی گہما گہمی میں دلچسپی لینے لگتاہے ۔
یہ کوئی عام بات نہیں ‘ اگر دماغ میں تکلیف دہ صورتِ حال سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھی جاتی تو ساری زندگی انسان ٹراما میں ہی گزار دیتا۔ سکول جانے کے پہلے دن کا ٹراما ہی انسان ساری زندگی اٹھائے پھرتا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ٹراماز کی دنیا ہے ‘ اسی طرح ٹراماز کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی جو صلاحیت دماغ میں رکھی گئی ہے ‘ وہ خدا کا بہت بڑا انعام ہے ۔
لیکن ٹراماز آتے کیوں ہیں ؟ جب خدا نے انسان کی زندگی کو ایک نیا موڑ دینا ہوتاہے ‘ وہاں ایک ٹراما اس کا منتظر ہوتاہے ۔ ظہیر الدین بابر‘ اگر کم عمری میں یتیم نہ ہوجاتا تو وہ اس قدر سخت جان کبھی نہ بن پاتا۔ غیر معمولی خطرہ مول لینے اور بڑے فیصلے کرنے کی صلاحیت اس میں کبھی پیدا نہ ہوتی ۔ محمد علی جناحؒ پر ایک وقت ایسا تھا کہ جب وہ کرایہ بچانے کی خاطر پیدل سفر کیا کرتے تھے ۔تکالیف سے گزرتا ہوا انسان آہستہ آہستہ سخت جان بن رہا ہوتاہے ‘ پھر وہ پتھر بن جاتاہے ۔ صدمات اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے ۔ یہی محمد علی جناحؒ کے ساتھ ہوا تھا ۔ بیوی سے علیحدگی ‘ بیٹی سے راستہ الگ ہونا اورحتیٰ کہ صحت کی تباہی بھی انہیں توڑ نہیں سکی ۔ زندگی کے آخری لمحے تک وہ کام کرتے رہے ۔ جناح ؒ اگر ایک عام شخص ہوتے تو ان صدمات میں ہم انہیں روتے پیٹتے دیکھتے اور یہ صدمات ان کی جان لے لیتے ۔
زیادہ تر بڑے لیجنڈز نے بچپن میں انتہائی برے حالات دیکھے ۔ ابرہام لنکن ان میں سے ایک تھا‘ اگر آپ اس کا چہرہ دیکھیں تو تکالیف جیسے اس پہ ثبت ہو کر رہ گئی ہیں ۔ ان تکالیف کا نتیجہ یہ تھا کہ اس کا ذہن بالکل کلیئر ہو چکا تھا ۔اس کے دماغ میں ویژن پیدا ہو چکا تھا۔ وہ غیر معمولی اور انتہائی نا مقبول اقدام اٹھانے کی جو صلاحیت رکھتا تھا‘ اس کی بنیاد زندگی کی انہی تکالیف پہ استوار ہو ئی تھی ‘اگر آپ پاکستانی میڈیا کے بڑے صحافیوں کے ماضی کا جائزہ لیں تو ان کی ایک بڑی اکثریت بچپن میں شدید غربت اور نامسائد حالات میں گھری ہوئی نظر آتی ہے ‘ یہی وجہ تھی کہ یہ لوگ انتہائی سخت جان ثابت ہوئے ۔
انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ تکالیف کا سامنا جس ہستی کو کرنا پڑا وہ ہمارے سرکارِ دوعالم ﷺ ہیں ۔ آپؐ نے انسانی تاریخ کی سب سے عظیم شخصیت بننا تھا۔ بجائے اس کے آپؐ ناز و نعم میں پرورش پاتے اور دنیا کے بہترین استاد آپ ؐ کو میسر آتے‘ سب سے پہلے ہم آپؐ کو والدین سے جدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ پھر ہم آپؐ کو لوگوں کی بکریاں چراتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ ایک ایک کرکے ہر رشتہ آپؐ سے جداہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ خدا کی طرف سے آپؐ کی تربیت ہو رہی تھی۔
ٹراماز برے نہیں ہوتے ۔ یوں بھی اس دنیا میں ایک نہ ایک دن تو انسان کو اپنے پیاروں سے جداہونا ہی ہے !