"FBC" (space) message & send to 7575

ماڈرن میڈیسن ……(1)

ہنگامہ اس بات پہ ہو رہا ہے کہ پاکستانی قوم کو جاہل کہہ دیا گیا۔ آج بھی آپ شہروں سے باہر نکلیں تو آبادی کا ایک بڑا حصہ اس بات کو ماننے پر تیار ہی نہیں کہ کورونا نام کا کوئی وائرس بھی ہے ۔ لڑیں گے کیا خاک ؟ کچھ دن پہلے ایک خاتون بتا رہی تھیں کہ میرے والد نے بڑھاپے کی عمر میں بھی پورے روزے رکھے ۔ اس سے جسم میں پانی کی کمی ہو گئی۔ پانی کی کمی سے انہیں خشک کھانسی لگ گئی اور کھانستے کھانستے وہ فوت ہو گئے۔ اس کہانی میں کورونا کا کہیں شائبہ بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ پڑھے لکھے جاہل بھی بہت ہیں ۔یہ لوگ اپنے غلط موقف کے حق میں نت نئے دلائل پیش کرنے کا دھندا کرتے ہیں ۔ دلائل ہر چیز کے حق میں تراشے جا سکتے ہیں ‘ خواہ آپ کتنے ہی غلط ہوں ۔ کچھ عرصہ قبل ایک بھارتی ٹی وی اینکر نے فرمایا تھا : چین میں طویل عرصے تک ‘چونکہ ایک ہی بچّہ پیدا کرنے کی اجازت تھی ‘لہٰذا آج جو چینی فوجی ہمارے سامنے ہیں ‘ یہ سب اکلوتے ہیں اور اکلوتے بچّے جنگ نہیں جیتا کرتے ۔بظاہر کس قدر درست تجزیہ ہے ۔ زمینی حقیقت پھر آپ نے دیکھ ہی لی ۔ اکلوتے بچوں نے تھپڑ مار مار کے بیس بھارتی سپاہی اور افسر مار ڈالے ۔ بھارتی‘ اگر جنگ لڑنے کے قابل ہوتے تو چھ سات گنا کم دفاعی بجٹ اورکم افرادی قوت رکھنے والی پاک فوج اس طرح اس کی ناک رگڑتی رہتی ؟اس طرح کلبھوشن والی ذلالت سے انہیں واسطہ پڑتا؟دلائل فروش مارکیٹ میں کثرت سے دستیاب ہیں ۔ ایسے ہی ایک دوست نے کئی مہینے زور لگانے کے بعد ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی کا موازنہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ کورونا کے بعد ایلوپیتھی ہار گئی ۔ آپ بھی پڑھیں اور محظوظ ہوں ۔ فرماتے ہیں کہ بی بی ہومیو پیتھی ایک پرانی بڑھیا تھی ‘ جو قوتِ مدافعت بہتر بنا نے کا مشورہ دیا کرتی ۔ دوسری طرف صرف تین سو سال پہلے پیدا ہونے والی ایلو پیتھی اس قوتِ مدافعت کی منکر‘ بلکہ دشمن تھی ‘ پھر کورونا آیا تو ایلوپیتھی نے کہا کہ ویکسین تیار کرنے کیلئے کئی سال چاہئیں ۔ایلو پیتھی کی ناکامی کے بعد سب اکٹھے ہوکربی بی ہومیو پیتھی کے دربار گئے تو اس نے کہا: قوتِ مدافعت بہتر بنائو۔ ایلو پیتھی کو بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑی ۔ یوں ہومیو پیتھی جیت گئی ۔اس سبق آموز کہانی کا عنوان ہونا چاہیے تھا '' میرے سپنوں کی دنیا ‘‘۔
بچپن میں پڑھی آنگلو بانگلو اور چھن چھنگلو کی کہانیاں یاد آگئیں ۔ ایلو پیتھی کہاں سے قوتِ مدافعت کی دشمن ہو گئی ؟ اسی نے تو قوتِ مدافعت کی سائنس سمجھ کر ویکسین ایجاد کی اور اربوں زندگیاں بچائیں ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں صرف ایک بیماری چیچک سے تیس کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے تھے‘ اکیسویں صدی میں چیچک ‘اگر قابلِ ذکر ہی نہیں تو اس کی وجہ ہے چیچک کی ویکسین ۔ یہ ویکسین تیار کر کے دنیا کے ہر شخص کو لگائی گئی‘ یہی ماجرا پولیو کے ساتھ پیش آیا ۔ آج چھ مہلک بیماریوں کی جو ویکسینز نوزائیدہ بچوں کو لگائی جاتی ہیں ‘ اس سے اتنی جانیں بچی ہیں کہ انسانوں کی آبادی ایک بم کی پھٹ پڑی ہے۔ جب چیچک پھیل رہی تھی تو سائنسدان یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ آج کروڑوں لوگ مر رہے ہیں تو پھر کیا فائدہ ویکسین بنانے کا۔انہوں نے ایک شجر لگانا ہوتاہے ‘ جس کا فائدہ بعد میں پوری انسانیت اٹھاتی ہے ۔ چیچک اور پولیو جیسی بیماریوں کی ویکسینز تیار کر کے سائنسدانوں نے انسانیت پر اتنا بڑا احسان کیا کہ کبھی چکایا نہ جا سکے گا۔ یوں تو ٹٹو جیسا دماغ رکھنے والے ہمارے بہت سے بھائی ان کا احسان مانتے کب ہیں ۔ پہئے اور انجن کی طرح‘ ویکسین کے خلاف تو جو لکھے گا ‘ وہ اپنا ہی منہ کالا کرے گا۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ‘ ان کی اپنی زندگیاں ان قطروں کی مرہونِ منت ہیں ‘ جو پیدائش کے وقت ان کے منہ میں ٹپکائے گئے ۔دنیا بھر میں سائنسدان مختلف کیمیکلز کو کورونا کے علاج کے سلسلے میں ٹیسٹ کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ڈیگزا میتھا سون نامی سٹیرائیڈ کی بطورِ جان بچانے والی دوا شناخت ہو پائی ہے‘ لیکن حتمی علاج ویکسین ہی ہے ۔یہ ویکسین بن جائے گی اور انسان امیون ہو جائیں گے۔ آپ یہ دیکھیں کہ ایک نئی بیماری سے ہلاکتیں کروڑوں سے کم ہوکر لاکھوں میں اور وقت عشروں سے کم ہو کر ایک سال تک رہ گیا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں ذہین افراد پاگلوں کی طرح کورونا پہ ریسرچ کر رہے ہیں اور یہ ریسرچ آپس میں شیئر کر رہے ہیں ‘جو لوگ یہ تھیوری پیش کر رہے ہیں کہ صرف اچھا کھا پی کر آپ اپنی قوت ِمدافعت کو بہتر بنا کر کورونا اور دیگر بیماریوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں ‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ انسان کی قوت ِمدافعت بالکل ٹھیک ہو تو پھر بھی وائرس انسانی جسم کوتباہ کر سکتاہے ‘ اگر پولیو جیسا وائرس جسم میں داخل ہو جائے تو جب تک اینٹی باڈیز بننا شروع اوربیماری کی علامات ظاہر ہوں گی‘ تب تک کھیل ختم ہو چکا ہوگا؛ مضحکہ خیز صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کے طو ل و عرض میں میں جتنے بھی اتائی اور نیم حکیم پائے جاتے ہیں ‘ ان سب میں اتنی لیاقت بھی پائی نہیں جاتی کہ اکٹھے ہو کر اپینڈکس کا آپریشن ہی کر دیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس علم کو وہ ایلو پیتھی کہہ رہے ہیں اور میں جسے ماڈرن میڈیسن کہتا ہوں ‘ وہ صرف تین سو سالہ تاریخ کا حامل ہرگز نہیں ۔ پچھلے پچاس ہزار سال کا وہ سارا انسانی طبی علم‘ جسے لیبارٹری میںثابت کیا جا سکتا تھا‘ وہ سب ایلو پیتھی میں شامل ہو چکا اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے ۔ یہ سب کچھ ہوا ہے‘ ان لاکھوں ریسرچ آرٹیکلز کی بدولت ‘ جو دنیا بھر میں بیٹھے سائنسدان لکھتے رہے ہیں ‘پھر بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایلو پیتھی بری چیز ہے تو میں اس برائی سے نمٹنے کا آسان حل بتاتا ہوں ‘ جسے پڑھنے کے بعد آپ اچھل پڑیں گے ۔ (جاری ) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں