"FBC" (space) message & send to 7575

بیٹ کیا ہوتی ہے؟

آپ کے ساتھ زندگی میں کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ آپ ایک شخص کو کوئی بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ سورج کی طرح چمکتے ہوئے دلائل‘ سب لوگوں کو آپ کی بات سمجھ آ رہی ہے لیکن بیچ میں ایک بندہ ایسا ہوتاہے کہ جسے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھنا چاہتا ہی نہیں۔ جن لوگوں نے نہیں سمجھنا تھا، انہیں تو قرآن سمجھ نہیں آیا‘ حدیث سمجھ نہیں آئی اور وہ کافر کے کافر رہے۔ ٹیڑھا برتن بھی کبھی بھرا ہے؟
بیٹ والا لطیفہ میں آپ کو دوبارہ سناتا ہوں۔ اگر آپ غور کریں گے تو اس میں گہری حکمت کی ایک رمز پوشیدہ ہے۔ میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ اس دن ایک نئے استاد ہمیں پڑھانے آئے۔ لڑکوں میں سے کسی نے فرمائش کی کہ سر! پہلا دن ہے، آپ ہمیں کوئی لطیفہ سنائیں۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ تو خود لطیفے سنانے کے شوقین تھے۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ ہر ہفتے ہمارے سکول میں بزمِ ادب منعقد کی جاتی تھی اور ہر دفعہ تقاریر وغیرہ کے علاوہ کسی ایک لڑکے کو لطیفے سنانا ہوتے تھے اور جو لطیفے سناتا تھا، اس کے ساتھ بہت بُری ہوتی تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ جب لطیفہ شروع ہوتا تو سارے عجیب وغریب آوازوں میں ہنس رہے ہوتے اور جب لطیفہ ختم ہوتا تو ہر طرف ایک گہری خاموشی چھا جاتی۔ 
خیر سر نے لطیفے سنانا شروع کیے۔ بزمِ ِادب والا کام یہاں بھی شروع ہو گیا لیکن سر سناتے رہے آخر بیٹ اور نسوار والا لطیفہ آیا۔ اس موقع پر میرے ہم جماعت دانش نے شور مچا دیا ''سر بیٹ کیا ہوتی ہے؟ سر بیٹ کیا ہوتی ہے؟ ‘‘۔ سر نے بتایا کہ بیٹ پرندوں کا فضلہ ہوتی ہے۔ لطیفہ دوبارہ شروع ہوا۔ جیسے ہی بیٹ کا لفظ آیا، اس نے ایک بار پھر آواز لگائی کہ بیٹ کیا ہوتی ہے۔ کلاس میں اتنا شور ہو رہا تھا کہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کون بیٹ کا پوچھ رہا ہے۔ سر سمجھے ان کو واقعی سمجھ نہیں آ رہی۔ انہوں نے ایک بار پھر کھل کر بیٹ پر روشنی ڈالی اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسے پنجابی میں ''بٹھ‘‘ کہتے ہیں۔ میرے ایک دوست سعد کو سخت غصہ چڑھ رہا تھا۔ اسے تجسس تھا کہ لطیفے کے آخر میں کیا ہوتا ہے لیکن دانش نے سر کو بیٹ پہ پھنسا رکھا تھا۔
تیسری دفعہ لطیفہ شروع ہوا۔ جیسے ہی بیٹ کا لفظ آیا، خوشی اور سرمستی میں جھومتے ہوئے دانش نے ایک بار پھر پوچھا ''سر بیٹ کیا ہوتی ہے؟‘‘ یہ وہ وقت تھا، جب سعد پھٹ پڑا۔ اس نے کہا ''او دانش! او تینوں پتا لگ تے گیا، بیٹ کی ہندی آ‘‘۔ اس کے بعد اس نے دانش کو بیٹ کے اجزا چیک کرنے کا ایک آسان طریقہ بتایا۔ یہ طریقہ اتنا دلچسپ تھا کہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے ہم چار پانچ لڑکے پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع ہوگئے۔ سر کے لطیفے ایک طرف رہ گئے۔ دانش شرمندہ سا ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد لطیفے میں چھ دفعہ بیٹ کا لفظ آیا۔ اس نے مکمل خاموشی سے لطیفہ سنا اور ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ بیٹ کیا ہوتی ہے۔ 
اسی طرح کئی دفعہ جب ایک بندہ بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہا ہوتا ہے تو اس کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے۔ میں آپ کو ایک اور لطیفہ سناتا ہوں۔ ایک دفعہ کسی نے ایک نیا ڈرائیور ہمارے پاس بھجوایا۔ اسے ہم نے کسی کام سے ایف ایٹ بھیجا۔ وہاں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ اس نے کیا کیا‘ ٹائر تبدیل کرنے کے بجائے پنکچر ٹائر کے ساتھ ہی گاڑی کو تیس چالیس کلومیٹر تک چلا تا رہا۔ جب گاڑی گھر پہنچی تو ٹائر کا ستیاناس ہو چکا تھا۔ بڑے بھائی نے پوچھا کہ یہ کیا کیا؟ کہنے لگا پتا ہی نہیں چلا۔ اس طرح کے تین چار کارنامے جب وہ سر انجام دے چکا تو ایک دن اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس نے کہا: میں تو نہیں چھوڑوں گانوکری۔ وہ پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس گیا اور ان سے سفارش کی درخواست کی۔ پھر ہمارے گھر آیا۔ میں نے کہا: یار مہربانی کرو، کہیں اور نوکری کر لو۔ کہنے لگا کہ میں یہاں اس لیے نوکری کر رہا ہوں کہ تاریخ میں جہاں ہارون الرشید صاحب کا نام آئے، ساتھ میرا نام بھی آئے۔
اب آپ بتائیں کہ جو شخص اس قدر گہری بات کر رہا تھا، اسے اتنی سمجھ نہیں تھی کہ ٹائر پنکچر ہو جائے تو اسے تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ عقل اسے ساری تھی، صرف نیت نہیں تھی کام کی۔ دل میں‘ میں نے کہا کہ تاریخ میں تمہارا ذکر اسی طرح آئے گا کہ ہارون الرشید صاحب کو تم نے بہت تنگ کیا تھا۔ اسے میں یہ بھی کہنے لگا تھا کہ تاریخ میں ابھی تک میرا نام آنے کا کوئی چانس پیدا نہیں ہوا، تمہارا کہاں سے آئے۔
خیر! نصیحت اور عقل کی بات وہی سمجھتا ہے، جس کا برتن سیدھا ہو۔ جس کی نیت ہو بات کو سمجھنے کی۔ جس نے بات نہیں سمجھنی اور اسے سمجھانا بھی ضروری ہو تو اس کے لیے پہلے چھترول کا ایک سیشن ضروری ہوتا ہے۔ 
اب جو بات میں پوچھنے لگا ہوں، اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر اس کا جواب دیں اور آئیں بائیں شائیں بالکل نہیں کرنی۔ خدا نخواستہ اگر آپ یا آپ کے والدین اور بیوی بچوں میں سے کسی کو دل کا دورہ پڑ جائے یا دماغ کی رگ پھٹ جائے تو آپ انہیں اٹھا کر کہاں لے جائیں گے ؟ کسی ''نبض شناس ‘‘ حکیم کے پاس، کسی ہومیو پیتھ کے پاس یا ہسپتال۔ جواب سب کو پتا ہے کہ ہسپتال۔ فرض کریں کہ آپ نبض شناسوں اور ہومیو پیتھک والوں کے پاس لے بھی جائیں تو وہ خود ہاتھ جو ڑ کر کہیں گے کہ اسے ہسپتال لے جائو۔گوجرانوالہ میں میرے والد کے دوست ہیں شیخ عرفان صاحب۔ انہوں نے اپنی والدہ کی پوری کہانی سنائی کہ آخر میں حکیم صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ انہیں ہسپتال لے جائو۔ 
میری دادی کے جو بھائی تھے، انہیں لوگ ''ابا جی‘‘ کہتے تھے۔ وہ رحیم یار خان میں ہومیو پیتھی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ مرحوم ڈاکٹر رفیق صاحب ان کے داماد تھے اور انہوں نے ابا جی سے ہی ہومیو پیتھی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ابا جی کی ہیبت سے پورا شہر کانپتا تھا۔ انہوں نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے کئی نسلوں کو قرآن پڑھایا۔ مسجدیں بنائیں۔ ادارے بنائے۔ ایک ہومیو پیتھی کی فارمیسی بنائی۔ وہ خود ہرنیا کے مریض تھے اور انہوں نے اپنا علاج ہمیشہ خود کیا لیکن لگ بھگ 75بر س کی عمر میں جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو پھر ایک ایلو پیتھک سرجن نے ان کا آپریشن کیا تھا۔ ڈاکٹر رفیق کے بیٹے ہیں، میرے پھوپھی زاد بھائی ساجد رفیق، انہوں نے وزن کم کرنے کے لیے اپنے معدے کا آپریشن کروایا، جو کہ میرے خیال میں نہیں کروانا چاہئے تھا۔ وزن کم ہوتا ہے، منہ بند کر نے سے۔ اس آپریشن کے کئی سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں اور یہ تو کیا جاتا ہے اس بندے کا‘ جس کا موٹاپا اس کی زندگی کے لیے خطرہ بن چکا ہو۔ میرا خود یہ آپریشن ہوا ہے کیونکہ میرا معدہ اپنی جگہ سے اوپر چلا گیا تھا اور اس کا ایک حصہ خوراک کی نالی کے اندر تھا۔ ایل ای ایس نامی ڈھکن ختم ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ سے تیرہ سال میں نے بہت تکلیف کاٹی۔ پھر ڈاکٹر عامر نثار صاحب نے اسے repairکیا۔ معدے کے اوپر والے حصے کو خوراک کی نالی کے گرد لپیٹ کر اس پر ٹانکے لگائے گئے۔ اس سے میرا معدہ ایک تہائی چھوٹا بھی ہو گیا اور وزن بھی کم ہوا لیکن اگر آپ اپنا منہ بند نہیں کریں گے تو وزن دوبارہ بڑھے گا۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ اب پھر مجھے سات آٹھ کلو وزن کم کرنے کی ضرورت ہے اور میں آم کا موسم ختم ہونے کا منتظر ہوں۔ مجھے تجربہ ہے کہ وزن کیسے کم کرتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ میں نے میڈیکل سائنس پر اتنی تحقیق کی ہے کہ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ کبھی کبھار میرے والد بھی مجھ سے کہتے ہیں کہ متبادل طریقہ علاج والوں کے بارے میں تم زیادہ بے رحم ہو جاتے ہو۔ میرا جواب یہی ہوتاہے کہ سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا۔ یہی سبق میرے والد اور میرے استاد نے مجھے دیا تھا اور اسی پر میں کاربند ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں