"FBC" (space) message & send to 7575

منحوس

یہ ڈیڑھ صدی پرانی کہانی ہے۔ افریقی ملک بوٹسوانا کے شہر سیروو کے ایک ہسپتال میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس بچے کی پیدائش میں گہری پیچیدگیاں ہوئیں اور اس کی ماں مر گئی۔ دوسری طرف بچّے نے جب پہلا سانس لیا اور اس نے رونا شروع کیا تو ہسپتال کا عملہ سہم کر رہ گیا۔ ایک تو عجیب آواز، دوسرا ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ رو نہیں رہا بلکہ ماتمی چیخیں مار رہا ہے۔ وہ اپنی ماں کو مار کر پیدا ہوا تھا۔ اس خطے میں جہالت عام تھی۔ ایک بوڑھی نرس نے کانپتے ہوئے بتایا کہ چالیس سال پہلے اسی ہسپتال میں اسی طرح کا ایک بچّہ پیدا ہوا تھا۔ وہ بھی اپنی ماں کو کھا گیا تھا اور اسی طرح چیخ چیخ کر ماتم کر رہا تھا۔ ایسے بچّے سخت منحوس ہوتے ہیں۔
بھوک کی شدت سے سر پٹختے ہوئے بچّے کی چیخیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا، جب اسی ہسپتال کا ایک سرجن افولابی اندر داخل ہوا۔ یہ بہت بڑا سرجن تھا، دور دور کے ممالک تک اس کی مہارت کا چرچا تھا۔ افولابی دیوقامت شخص تھا۔وہ اپنے ہاتھ میں ہر وقت ایک بہت بڑی چھڑی رکھتا تھا۔ عام طور پر وہ ایک نرم دل انسان تھا لیکن مشہور تھا کہ غصہ آئے تو پاگل ہو جاتا ہے۔ 
افولابی نے بچّے کو چیختے ہوئے دیکھا۔ بچّہ بھوک سے بلک رہا تھا لیکن اسے منحوس سمجھتے ہوئے کوئی قریب جانے کو تیار نہ تھا۔ بچّے کا باپ صدمے سے سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔ افولابی ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے اپنی چھڑی گھما کر ماری اور شیشے کا میز دھماکے سے کرچی کرچی ہو گیا۔ دھاڑ کر اس نے کہا ''دودھ پلائو، بے شرمو! دودھ پلائو بچے کو‘‘۔ 
قریب ہی ایک بیڈ پر ایک عورت لیٹی ہوئی تھی۔ گزشتہ روز اس کا بچّہ پیدائش کے دوران مر گیا تھا۔ اس کے سینے میں دودھ اترا ہوا تھا۔ اس نے چیختے ہوئے بچے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ بچّے کو جب خوراک ملی تو وہ چپ کر گیا۔ ویسے دیکھنے میں وہ کافی پیارا سا بچّہ تھا۔ ماتمی چیخوں والے رونے کے علاوہ اس میں بظاہر اور کوئی خامی نہیں تھی۔ اس بچّے کا نام اونیکا رکھا گیا۔
ماں کا سایہ سر پہ تھا نہیں۔ باپ حالات کا مارا ہوا۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی۔ اونیکا بہت کمزور دل کا مالک تھا۔ سکول میں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اکثر وہ رو پڑتا۔ رونا اس کا ویسا ہی تھا۔ جب اس کی چیخیں بلند ہوتیں تو بچّے ہنستے۔ اسی لیے تو وہ اسے رلاتے تھے۔
اونیکا کی عمر اٹھارہ برس سے بھی کم تھی، جب اس کا باپ ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ چار بہنوں کی ذمہ داری، تعلیم برائے نام لیکن وہ جدوجہد کرتا رہا۔ وہ ایک ہوٹل میں ویٹر ہو گیا۔ اس کے علاوہ وہ ایک کیمروں کی دکان میں ملازمت کرتا تھا۔
افولابی اکثر اس ہوٹل میں قیام کیلئے آیا کرتا لیکن وہ اونیکا کو بھول چکا تھا۔ اونیکا نے تو ہوش سنبھالنے کے بعد افولابی کو کبھی دیکھا تک نہ تھا۔ افولابی مہنگی گاڑیاں رکھنے کا شوقین تھا۔ وہ بھاری ٹپ دینے والے شخص کے طور پر بھی مشہور تھا۔ اونیکا افولابی کے کمرے میں کھانا دینے آیا کرتا تھا۔ اسے ایک بات معلوم تھی کہ افولابی کے پاس جو نیلے رنگ کا بیگ ہوتا ہے، وہ ہمیشہ نوٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ درویش صفت اونیکا کے دل میں کوئی بھی لالچ نہیں تھا۔ تاہم اب اونیکا کی بہن کو کینسر ہو ا تھا اور اس کی سرجری ضروری تھی۔ اونیکا اپنی بہن سے بہت محبت کرتا تھا اور وہ یقینی موت کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اونیکا چیخیں مار مار کے روتا رہا۔ یہی وہ دن تھے، جب افولابی پھر ہوٹل آیا۔ اس دن اس کا ایک دوست اس سے ملنے آیا۔ کچھ دیر بعد اس نے اونیکا کو کمرے میں بلایا اور کہا : میں اپنے دوست کو نیچے چھوڑ کر آتا ہوں تم یہیں رکو۔ 
اونیکا نیلے بیگ کو دیکھتا رہا۔ اگر اس میں سے ایک گڈی وہ نکال لیتا تو اس کی بہن کا آپریشن ہو سکتا تھا۔ اونیکا خدا پر کامل ایمان رکھتا تھا۔ دوسری طرف بہن کی اذیت ناک موت تھی۔ آخر اس نے سوچا کہ میں بعد میں کسی طرح پیسے اکٹھے کر کے افولابی کو واپس کر دوں گا۔ اس نے بیگ کھولا اور نوٹوں کا ایک پیکٹ نکالا لیکن سوچ ہی سوچ میں گم، وہ بہت دیر کر چکا تھا۔ اسی لمحے دروازہ کھلا اور افولابی اندر داخل ہوا۔ اونیکا کے ہاتھ میں نوٹوں کا پیکٹ تھا اور وہ خالی خالی نظروں سے افولابی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 
افولابی آگے بڑھا۔ اس نے اونیکا کے ہاتھ سے نوٹوں کا پیکٹ لینے کی کوشش کی لیکن اس نے بہت زور سے اسے پکڑا ہوا تھا۔ اتنے زور سے کہ اس کا بازو کانپ رہا تھا۔ ''میری بہن، میری بڑی بہن‘‘ اس نے کہا۔ افولابی نے اسے نرمی سے کہا ''بچّے نوٹ چھوڑ دو‘‘۔ ''میری بڑی بہن، میری بہن‘‘ اونیکا نے پھر کہا۔ آخر اونیکا کو ہوش آیا کہ وہ کیا کربیٹھا ہے۔ اس نے نوٹوں کا پیکٹ چھوڑ دیا۔ اب وہ سر سے پیر تک کانپ رہا تھا۔ افولابی کو اس پہ ترس آیا اور اس نے لڑکے کو پکڑ کر کرسی پر بٹھایا۔ اس نے اونیکا کو پانی کا گلاس دیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب اونیکا کے آنسو بہنے لگے۔ جیسے ہی اس کے جذبات بے قابو ہوئے، اس کی ماتم زدہ چیخوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب افولابی کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور وہ اس لڑکے کو پہچان گیا۔ یہ وہی لڑکا تھا جس کی پیدائش کے وقت اس کی ماں مر گئی تھی اور اگر افولابی اس کی پیدائش کے دن ہنگامہ کھڑا نہ کرتا تو یہ بھوکا مر جاتا۔ 
افولابی کی عمر اس وقت ساٹھ کے لگ بھگ تھی۔ نامی گرامی سرجن کے طور پر دنیا میں اس کا ڈنکا بج رہا تھا اور وہ ایک ارب پتی شخص تھا۔ اسے اس یتیم بچّے پر اتنا ترس آیا، جتنا اس کی پیدائش کے دن آیا تھا۔ افولابی بخوبی جانتا تھا کہ افریقی معاشرہ آج بھی اونیکا کو منحوس سمجھتا ہوگا۔ اونیکا چیخیں مار مار کے نڈھال ہو چکا تھا۔
افولابی نے پوچھا: بچے، کیا تمہاری پیدائش کے دوران تمہاری ماں مر گئی تھی؟ اونیکا کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اس کی چیخیں بلند ہوتی چلی گئیں۔ بہت دیر بعد آخر لڑکا اس قابل ہوا کہ اسے اپنی مصیبت بتا سکے۔ ماں پیدائش کے وقت مر گئی تھی۔ باپ بھی مر چکا تھا۔ بڑی بہن کو کینسر تھا۔ وہ دو نوکریوں کے باوجود اس کے علاج سے قاصر تھا۔ اس کی پیاری بہن اس کی نظروں کے سامنے مر رہی تھی۔ زندگی ایک سزا بن چکی تھی۔
افولابی نے پوچھا: کیا تم کوئی ہنر رکھتے ہو ؟ اونیکا نے بتایا کہ وہ بہترین فوٹوگرافر ہے۔ تقریبات کی کوریج کر سکتا ہے۔ افولابی نے اس سے پوچھا کہ اسے کتنے پیسے مل جائیں تو وہ بہن کا علاج اور اپنا کام شروع کر سکتا ہے؟ اونیکا بے یقینی سے دیو قامت سرجن کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے خواب اترنے لگے۔
افولابی نے اونیکا کو اتنی بڑی رقم دی، جو اس کے وہم و گمان سے بھی باہر تھی۔
جذبات سے بے قابو اونیکا ایک بار پھر چیخنا شروع ہو گیا۔ اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس کا چیخنا افولابی کو مطلق ناگوار کیوں نہیں گزر رہا۔ ایک تو یہ چیخیں اس کے اخلاص کا ثبوت تھیں لیکن ایک وجہ اور بھی تھی، جو کہ افولابی نے اپنے سینے میں چھپا رکھی تھی۔ اونیکا کو معلوم نہیں تھا کہ افولابی کی آنکھوں میں بھی نمی اتر آئی تھی لیکن اس نے سختی سے اپنے آنسوئوں کو روک رکھا تھا۔ اونیکا کو یہ معلوم تھا کہ افولابی قیمتی گاڑیوں کا شوقین ہے۔ اس نے کہا: جناب، ایک دن میں ایک بہت قیمتی گاڑی کا تحفہ لے کر آپ کے پاس آئوں گا۔ سب جانتے تھے کہ افولابی شہر سے باہر ایک محل میں رہتا تھا۔ افولابی اس بات پہ ہنس پڑا۔
اونیکا جب ہوٹل سے باہر نکلا تو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ افولابی کو کیسے پتا چلا کہ اس کی پیدائش کے وقت اس کی ماں مر گئی تھی۔ پھر اس کی سوچوں کا رخ کینسر زدہ بہن کی طرف مڑ گیا۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں