ہزاروں افراد حیرت سے سبکدوش افریقی سرجن افولابی کی داستان سن رہے تھے۔ اس کے پاس میڈیکل سائنس کے بہت اہم راز موجود تھے۔ اس وقت مگر وہ صرف ایک عمر رسیدہ بچّہ تھا۔ اس کے دل میں بہت سے غم تھے۔ وہ اپنا غم انہیں سنانا چا ہتا تھا۔ ان سے اس ماتمی چیخوں سے مشابہ رونے کی اجازت لینا چاہتا تھا، جسے وہ پچھلے 93برس سے چھپا رہا تھا۔
افولابی نے کہا : میرا باپ ایک امیر قبائلی شخص تھا۔ میری ماں کے مرتے ہی، جیسے ہی میری ماتمی چیخیں بلند ہوئیں اور جیسے ہی ہسپتال کا عملہ خوفزدہ ہو کر میرے گرد اکٹھا ہوا، اس نے مجھے اٹھایا اور بھاگ نکلا۔ اس کے بینک اکائونٹ میں بہت سی دولت موجود تھی۔ وہ تو کبھی اپنی جائیداد کے قریب بھی نہیں گیا کہ دوسرے قبائلی اسے ڈھونڈ کر اس کے بیٹے کو قتل کر ڈالیں۔ کئی سال اس نے مجھے ایک تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔کبھی اس کے پاس بہت سے ملازم ہوا کرتے تھے لیکن میری پیدائش کے بعد اس نے تنہا میری دیکھ بھال کی۔ مجھے روپوش رکھنے کی خاطر اس نے دوبارہ شادی نہیں کی۔
افولابی نے کہا ''پھر وہ وقت آیا ، جب مجھے سکول داخل کرانا تھا۔ ایک دن وہ شیشے کی دو بوتلیں لایا۔ اس نے کہا: افولابی دیکھو شیشہ شیشے سے ٹکرا ئے تو کیا ہوتا ہے۔ اس نے دونوں بوتلوں کو ٹکرا کر توڑ دیا۔ ننھا افولابی غور سے دیکھتا رہا۔ پھر میرے بابا نے کہا: افولابی دیکھو لوہا لوہے سے ٹکرائے تو کیا ہوتا ہے۔ اس نے لوہے کی دو بوتلیں ٹکرائیں، انہیں کچھ نہ ہوا۔ اس نے کہا: افولابی تم لوہا ہو۔ عام بچّے شیشہ ہیں۔ اسی لیے اکثر وہ رو پڑتے ہیں لیکن تم کبھی نہیں روئو گے۔ اگر تم روئے تو ہمارے دشمن تمہیں پہچان جائیں گے اور تمہیں قتل کر ڈالیں گے۔ ایک دن افولابی اپنے سکول میں رو پڑا اور انہیں پتا چل گیا۔ اس کا باپ اسے لے کر فوراً دوسرے شہر منتقل ہو گیا۔ وہ ہمیشہ فرار ہونے کے لیے تیار رہتا تھا۔
افولابی آخری بار سات برس کی عمر میں رویا تھا، جب اسے شدید چوٹ لگی تھی اور ہمسایوں کو پتا چل گیا۔ اس کے باپ نے فوراً شہر چھوڑ دیا۔ افولابی غیر معمولی ذہین طالبِ علم تھا۔ اسے حیاتیات میں گہری دلچسپی تھی۔ جب اس نے سرجن بننے کا فیصلہ کیا تو اس کے باپ نے کہا: افولابی اگر کبھی یہ راز کھل گیا کہ تم ماتمی چیخوں والے لڑکے ہو، جس کی ماں اس کی پیدائش پہ مر گئی تھی تو کیا ہوگا؟ لوگ جسے منحوس سمجھتے ہیں، اس سے کپڑا خرید سکتے ہیں، اس کے ہاتھ سے چائے پی سکتے ہیں لیکن منحوس کہلوانے والے سے سرجری کون کروائے گا۔ ایک دفعہ رونے کی دیر ہے اور تمہارا کیریئر تباہ۔ تمہاری پڑھائی کے دو عشرے‘ دن رات کی محنت ہمیشہ کے لیے مٹی میں مل جائے گی۔
افولابی نے کہا: بابا! میں سرجن بننے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ میں کبھی نہیں روئوں گا۔ اس کے باپ نے اس کی بات مان لی۔ وقت گزرتا گیا۔ افولابی سرجن بن گیا۔ اس نے اپنی پہلی کامیاب سرجری کی۔ پھر دوسری، تیسری، چوتھی۔ وہ 17 کامیاب آپریشن کر چکا تھا، جب اس کے باپ کو دل کا دورہ پڑا۔ جب وہ افولابی کو لے کر فرار ہوا تھا تو اس کی عمر 35برس تھی۔ اب وہ 70کا ہو چکا تھا۔ غم اسے کھا گئے تھے۔ پھر اسے دوسرا دورہ پڑا۔ اس کی حالت نازک تھی۔ افولابی جانتا تھا کہ اس کا باپ اب چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ وہ باپ جو ایک فولادی دیوار بن کے دنیا والوں کے سارے حملے خود پر سہتا رہا‘ اب مرنے والا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی تھی۔ اسے خوف تھا کہ افولابی اس کی موت پر روئے گا اور راز فاش ہو جائے گا، ابھرتے ہوئے جواں سال سرجن کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ اور وہ خود کون سا پتھر کا بنا ہوا تھا۔ اس کی اپنی آنکھیں نم ہو چکی تھیں۔ افولابی نے ایک سکون آور انجکشن خود کو لگا لیا۔ اس نے کہا: بابا! بے فکر رہو، میں نہیں روئوں گا اور ایک دن میں دنیا والوں پہ ثابت کر دوں گا کہ ماتمی چیخوں والے بچے منحوس نہیں ہوتے۔ اس کے باپ نے انکار میں سر ہلایا۔ اس نے کہا: افولابی ان سے مت الجھنا، وہ بہت زیادہ ہیں۔ تمہاری نحوست پر ان کا عقیدہ بہت گہرا ہے، وہ تمہیں مار ڈالیں گے۔
مجمع مکمل خاموشی سے سنتا رہا۔ افولابی نے کہا: میرا باپ مر گیا۔ مرنے سے پہلے آدھا گھنٹا وہ روتا رہا۔ سکون آور دوا کے زیرِ اثر‘ میں نہیں رویا۔ گو کہ میرا دل چیخ چیخ کر رونے کی درخواست کر رہا تھا۔ ایک مجبور شخص جسے اپنے باپ کی میت پر رونے کی اجازت نہیں تھی۔ مرنے سے پہلے میرے باپ نے کہا تھا: افولابی اگر تمہاری شادی ہو جائے تو اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھی یہ بات چھپائے رکھنا۔
افولابی سینکڑوں کامیاب آپریشن کر چکا تھا۔ ایک دن اس نے اخبار میں دیکھا کہ ایک ہسپتال میں سرجنز کے انٹرویوز ہو رہے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اسی ہسپتال میں پیدا ہوا تھا۔ جب وہ انٹرویو دینے پہنچا تو ہسپتال والے حیران رہ گئے۔ اتنا بڑا سرجن ایک عام سے ہسپتال میں کام کرنا چاہتا تھا!
افولابی کھوج لگاتا رہا۔ اس نے ہسپتال کے ریٹائر ہو جانے والے بوڑھے سٹاف سے تعلقات بنائے۔ آخر ایک بہت بوڑھی نرس نے اسے بتا دیا کہ اس کی ماں کا بیڈ کون سا تھا۔ اس نے زباں بندی کے لیے اسے قیمتی تحائف دیے تھے۔ افولابی اس بیڈ کے پاس گم صم کھڑا رہا۔ اچانک ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹپک پڑا۔ افولابی نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس دن کے بعد سے اس نے جیب میں سکون آور انجکشن رکھنا شروع کر دیا۔
افولابی کی ماں بھی میڈیکل سائنس کی طالبعلم تھی‘ جس نے اپنی پڑھائی نامکمل چھوڑ کر افولابی کے باپ سے شادی کی تھی۔ نرس نے اسے بتایا کہ اس کی ماں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مرنے والی ہے۔ وہ حیاتیات کو سمجھتی تھی۔ اس نے نرس سے کہا: مرنے کے بعد کچھ دیر جسم کے سیلز زندہ رہتے ہیں۔ میرے بچّے کو ایک بار میرا دودھ پلا دینا۔ افولابی نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا۔ پھر وہ واش روم گیا اور سکون آور انجکشن لیا۔
ساری زندگی رونے کی اجازت مانگتا ہوا ایک بچّہ‘ جو سو سال کا ہو چکا تھا، اب اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ جائیداد خاندان والوں کو سونپ چکا تھا۔ اپنی ساری تحقیق اس نے اونیکا کو دے دی تھی۔ وہ دنیا والوں سے التجا کر رہا تھا کہ ایک بار اسے رونے دیا جائے۔ دنیا سے وہ یہ بھیک مانگ رہا تھا کہ ماں کے مرنے پر جنم لینے اور ماتمی رونا رونے والے بچوں کو منحوس نہ سمجھا جائے۔ اگر وہ منحوس ہوتا تو کیا انیس ہزار کامیاب سرجریز کرتا؟ وہ بولتا رہا ، روتا اور چیختا رہا۔ ہزاروں کا مجمع اس سو سالہ بچّے کا غم سنتا رہا۔ دل شق ہو گئے اور آنکھیں نم۔ وہ اس کا دکھ سمجھ گئے تھے۔ وہ مان گئے تھے کہ وہ منحوس نہیں تھا۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح ایک بچّہ تھا۔اس کے آلۂ صوت میں ایک خرابی تھی‘ جس کی وجہ سے اس کا رونا ماتمی چیخوں جیسا تھا۔ انہوں نے اسے رونے کی اجازت دی۔ بوڑھا بچّہ اپنے باپ اور اپنی ماں کو یاد کر کر کے چیختا رہا۔ اس نے کہا: میرے خاندان والوں نے مجھے ایک بوسیدہ پیرہن کی طرح ایک طرف پھینک دیا۔ وہ میری موت کا انتظار کر تے رہے کہ میری جائیداد بانٹ سکیں۔ میں کبھی رو نہ سکا۔ اگر میں روتا تو مجھے مطعون کرنے کا ایک اور بہانہ انہیں مل جاتا۔ میں نے ساری جائیداد ان کے منہ پر دے ماری ہے۔ دنیا والو! مجھے رونے دو۔ اس نے کہا: 93برس سے میں رونے کے لیے سہک رہا ہوں۔ دنیا والو! مجھے رونے دو۔
کئی گھنٹے چیخنے کے بعد اسی ہال میں افولابی کو دل کا دوسرا خوفناک اٹیک ہوا اور یہیں اونیکا کی آغوش میں سر رکھے‘ وہ مر گیا۔ اگلے روز اس کی آخری رسومات میں ہزاروں افراد شریک ہوئے‘ جہاں اونیکا ماتمی چیخیں مارتا رہا لیکن کوئی بھی اسے منحوس نہیں سمجھ رہا تھا۔