"FBC" (space) message & send to 7575

دائمی مسرت؟

کبھی کبھی آپ دنیا میں تکلیف دیکھتے ہیں، غم دیکھتے ہیں، حادثہ دیکھتے ہیں اور ذہن یہ سوال کرنے لگتاہے کہ آخریہ دنیا ایسی کیوں ہے؟ کیا اس دنیا کو مسرتوں سے بھرپور نہ بنایا جا سکتا تھا۔ ایسی دنیا،جس میں غم ہی نہ ہوتے۔ مجھے ایک بچہ یاد آتاہے، عید کے دنوں میں جس کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔ یہ لڑکا منڈی میں بیٹھا ہوا تھا اور اس نے ایک بکری کا بچہ اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر صدمے کے آثار تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اپنا جانور بیچتے ہوئے اسے شدید صدمہ ہو رہا ہے۔ اس پر مجھے دو واقعات یاد آئے۔ ان واقعات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں ہماری محبتوں کی حقیقت کیا ہے۔ 
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محبت ہماری ملکیت نہیں۔یہ مصنوعی طور پر ہمارے دلوں پر اتاری گئی ہے۔ قرآن میں اللہ کہتاہے کہ ہم نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اتاری اور اگر تم ساری دنیا کی دولت بھی خرچ کر لیتے تو بھی یہ محبت پیدا نہ کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت پیدا ہوتی ہے دماغ میں دو نیورونز کے درمیان کنکشن بننے کی وجہ سے اور وہاں تک انسان کی رسائی نہیں ہے۔ تمام انسانی رویہ مختلف کیمیکلز کے اخراج کا محتاج ہوتاہے۔ جب بھی میں ایسی کوئی چیز لکھتا ہوں تو مجھے پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر یاد آتے ہیں۔ نفسیات کی دنیا کا لیجنڈ۔ ان کے برابر کااب کوئی بھی نہیں۔ ایثار کیش ایسے کہ پانچ سو روپے فیس لیتے رہے، جبکہ پانچ ہزار روپے لے سکتے تھے۔ تین تین ہزار تو ان کے شاگرد لے رہے ہیں۔ معالج ایسے کہ جن لوگوں کو میں نے ان کے پاس بھیجا، ان کی اکثریت نے مجھے دعائیں دیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کی وفات کا غم آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا۔ 
خیر آپ کا کیا خیال ہے کہ اپنی اولاد سے آپ کی محبت آپ کی ملکیت ہے ؟ یہ آپ کی ہے ہی نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بلی کے دل سے بلونگڑوں کی محبت واپس اٹھائی جاتی ہے تو بلی اپنے بچوں کو اجنبیوں کی طرح چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے۔ ٹائیگرز میں مادہ کے بچّے بڑے ہو کر اس سے اس کا علاقہ چھیننے کے لیے خونخوار جنگ پہ اتر آتے ہیں۔ بچوں کوخدا نے انتہائی خوبصورت بنایا ہے تاکہ ماں باپ کے دل ان کی محبت میں باقی سب کچھ بھول جائیں۔ بچّے کی جلد کے لمس کا احساس دماغ میں کیمیکلز ریلیز کرتاہے۔ بچہ جب ماں کا دودھ پیتا ہے تو اس کا لمس ماں کے دل میں ایسی شدید محبت کو پیدا کرتا ہے اور اس کے دماغ میں ایسے کنکشنز بنتے ہیں، جو ساری زندگی ختم نہیں ہوتے۔ 
اب انسانی محبتوں کی حقیقت دیکھیے۔ ایک لڑکی پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس آئی۔ کہنے لگی کہ میرے نانا کے دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے۔ وہ کومے میں ہیں۔ دعا کیجیے، اللہ انہیں جلد صحت یاب کر دے۔ پروفیسر صاحب نے کہا : اللہ ان کا آخری وقت آرام دہ بنائے۔ اس پر وہ لرز اٹھی اور کہنے لگی کہ یہ کیا کہا آپ نے؟ آپ دعا کریں کہ وہ صحت یاب ہو جائیں۔ وہ چلی گئی اور چند ہفتوں بعد دوبارہ آئی۔ اب وہ کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ کہنے لگی : پروفیسر صاحب نانا اسی حالت میں ہیں۔ دعا کریں کہ اگر ان کے لیے صحت یاب ہونا اچھا ہے تو صحت یاب ہو جائیں۔ پروفیسر صاحب نے پھر وہی دعا کر دی۔ وہ خاموشی سے چلی گئی۔پھر وہ ایک مہینے بعد آئی اور کہنے لگی : پروفیسر صاحب دعا کریں کہ اللہ میرے نانا کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ 
ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ جب آپ کا عزیز ترین رشتے دار بھی جب آپ پر بوجھ بنتا ہے تو آہستہ آہستہ انسان اکتانا شروع ہو جاتاہے۔ بچّے کی خوبصورتی ہے اس کی شرارتوں سے، مسکراہٹوں سے۔بڑے کی خوبصورتی ہے، اس کی دنیاوی مہارتوں سے۔ اگر اس نے کومے میں ہی رہنا ہے اور بوجھ بن جانا ہے تو دماغ سے محبت نکلتی چلی جاتی ہے۔ 
دوسرا واقعہ میرا ذاتی ہے۔ میں نے بچپن میں ایک بلی پالی تھی۔ وہ مجھے بہت عزیز تھی۔اس نے دو دفعہ ہمارے گھر میں بچّے دیے۔ ایک دفعہ اس کی ٹانگ پہ چوٹ لگی اور وہ تین ٹانگوں پر چلنے لگی تو مجھے سخت صدمہ ہوا۔پھر وہ بلی بوڑھی ہو گئی۔ اب اکثر وہ ایک ہی جگہ پر لیٹی رہتی۔ اس نے کھانا بہت کم کر دیااور بھاگنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک پورا سال اسی طرح گزر گیا۔ پھر ایک دن وہ مر گئی۔ ایک وقت تھا، جب اس کے لنگڑے ہونے کا مجھے سخت صدمہ ہوا تھا۔ اب اس کی موت پر نہ صرف یہ کہ صدمہ نہیں ہوا بلکہ ایسا محسوس ہوا، جیسے میں آزادہو گیا ہوں۔ یہ ہے حقیقت ہماری دنیاوی محبتوں کی۔ 
اب میں نے خود کو اس لڑکے کی جگہ رکھ کر سوچنا شروع کیا، جو اپنا بکری کا بچہ بیچنے پر مجبور تھا۔ فرض کریں کہ وہ اسے واپس گھر لے جاتا ہے اور ساری زندگی گھر رکھتا ہے۔لڑکا جب بڑا ہوگا تو آہستہ آہستہ اس کی زندگی میں زیادہ خوبصورت چیزیں آئیں گی۔ ایک دن اس کی شادی ہو گی۔ ایک دن اس کے گھر اولاد ہوگی۔ بکری کا بچّہ بڑا ہو جائے گا۔ اس میں وہ خوبصورتی نہیں رہے گی۔ پھر ہو سکتاہے کہ جس بکری کے بچّے کو بیچتے ہوئے اسے ہول آرہا تھا، اسے وہ خود ہی اپنے بچّے کے عقیقے میں ذبح کر دے۔ فرض کریں کہ ایسا نہیں ہوتا اور یہ محبت برقرار رہتی ہے تو پھر بھی ایک دن تو بکری کے اس بچّے کو مرنا ہی ہے، خواہ اسے ذبح نہ کیا جائے او روہ اپنی طبعی موت ہی مرے۔ 
یہ ہے دنیا کا سب سے خوفناک سچ۔ آپ اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں۔ کسی کو ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس دوران ہم سب اس خوفناک حقیقت کو جان بوجھ کر نظر اندازکرتے رہتے ہیں کہ جس سے ہم محبت کرتے ہیں، اسے ایک دن مر جانا ہے، یا ہم نے پہلے مرجانا ہے۔ یہ بات کس قدر خوفناک ہے کہ ہم سب کو او رہمارے پیاروں کو ایک دن مرجانا ہے۔ساری زندگی ہم خود کو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ یہ سب اسی طرح رہے گا۔ 
کسی بھی شخص کی اہمیت اس کے کام کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب وہ مر جاتاہے تو ایک لمحے میں اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس پر منحصر تمام افراد فوراً اپنے مستقبل کی نئی strategyبنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب نکتہ بیان کیا تھا کہ مرے ہوئے شخص کو اس کے نام سے پکارا ہی نہیں جاتا۔کوئی یہ نہیں کہتا کہ فراز یا اسلم کہاں ہے؟ پوچھنے والا پوچھتا ہے کہ میت کہاں ہے ؟ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں ؟ انجینئر صاحب کہاں ہیں ؟ ہر آدمی اسے میت کہہ کر ہی بلاتا ہے؛حالانکہ ابھی اسے قبر میں اتارنا باقی ہوتا ہے۔
اسی طرح دماغ میں خدا نے حالات سے ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت رکھی، جو مخلوقات پر اس کا سب سے بڑا کرم ہے۔ میرا ایک دوست تھا، جس کا 7ماہ کا بیٹا فوت ہو گیا۔ صدمے کی شدت سے وہ پاگل ہونے کے قریب تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اس کا ایک اور بیٹا پیدا ہوا۔ چند ماہ بعد وہ اتنا ہی خوش رہنے لگا، جتنا پہلے بچے کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔میں نے نوٹ کیا کہ اسے اپنا پہلا بیٹا پوری طرح بھول چکا تھا۔ ایک ہلکا ساشائبہ بھی باقی نہ تھا۔ 
اگر آپ تاریخ کی عظیم ترین ہستیوں کو دیکھیں تو ان پر ٹوٹنے والے مصائب بھی عظیم ہوتے ہیں۔ رسالت مآبﷺ کو طائف میں لوگوں نے پتھر مارے اور سخت تکلیف پہنچائی۔ شعب ابی طالب میں تین سال آپﷺ کو پورے معاشرے کے بائیکاٹ کا سامنا رہا۔سیدنا امام حسینؓ پہ کربلا میں جو خوفناک ترین آزمائش اتری، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ہو سکتاہے کہ اس بچّے کے لیے وہ میمنا بیچنا ہی اس کی آزمائش ہو۔ اس کی استطاعت جو کم تھی۔ 
جو دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے، اس میں دائمی مسرت کی تلاش خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں