کیا ہم سوئس اکائونٹس سے اربوں ڈالر واپس لے سکتے ہیں؟

یکم اکتوبر 2010ء کو سوئس پارلیمنٹ نے ''آر آئی اے اے‘‘(ناجائز اثاثوں کی واپسی کا ایکٹ) منظور کیا۔ اس وقت میں نے ڈان میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں کہا تھا کہ اب پاکستان اپنے وہ اربوں ڈالر واپس حاصل کرسکتا ہے جو بدعنوان افراد اور کمپنیوں نے ملک سے لوٹ کر سوئس اکائونٹس میں جمع کرائے تھے ، لیکن اُس وقت کسی نے میری بات پر توجہ نہ دی۔ میںنے یہ بھی کہا کہ حکومت سوئٹزرلینڈ کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 25(1) کے تحت دہرے ٹیکس(جو ایک ہی رقم پر دو ممالک میں ادا کرنا پڑتا ہے) سے چھوٹ کے معاہدے پر بات کرے۔ تیس ماہ گزرنے کے باوجود اس تجویز پر بھی عمل ہوتا دکھائی نہیںدیا۔ اس سستی میں بہت سی سیاسی مصلحتیں بھی آڑے آتی ہیں اورکچھ ذاتی مفاد بھی۔ درحقیقت اسے مجرمانہ غفلت قرار دیا جانا چاہیے۔ 
2010ء سے لے کر اب تک بہت سے ممالک نے اقدامات کے ذریعے سوئس بنکوں میں چھپائی ہوئی ناجائز دولت حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ کئی برسوںکے دوران سوئس حکومت نے مختلف شخصیات ، جیساکہ نائیجیریا کے سانی اباکا، فلپائن کے فرڈیننڈ مارکوس اور میکسیکو کے کارلوس سالیناس اور بہت سے دیگر افراد کے اپنے بینکوں میں چھپائے گئے ساڑھے گیارہ بلین ڈالر ان کی حکومتوںکو واپس کیے ۔ یقینا ان وصولیوںکا طریقِ کار بہت مشکل اور پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں مقامی قوانین کے ساتھ ساتھ عالمی معاہدے بھی آڑے آتے ہیں۔ ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے سوئس حکومت نے ''آر آئی اے اے ‘‘ نافذکیا۔ 
اگلے دن فنانس منسٹر اسحاق ڈار نے بیان دیا کہ سوئس بینکوںمیں غیر قانونی طور پر چھپائے گئے دوسو بلین ڈالر بازباب کرانے کے لیے کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے ''آرآئی اے اے ‘‘کو آرٹیکل 25(1) سے الجھادیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی نے بھی وزیر موصوف کو اس معاملے پر بریفنگ نہیںدی تھی۔ منی لانڈرنگ کیسز کے حوالے سے جب سوئس حکومت نے ''آرآئی اے اے‘‘نافذکیاتو اس کے پیش ِ نظر یہ معروضہ تھا کہ سوئس بینکوں میں مختلف شخصیات کی طر ف سے جمع کرائی گئی دولت اور دیگر اثاثہ جات اس سے کہیں زیادہ تھے جو وہ افراد اپنے عہدوںسے جائز طریقوںسے حاصل کرسکتے تھے۔ اس لیے اس دولت کو ناجائز تصور کیا گیا۔ یہ ایکٹ بناتے ہوئے اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ اس دولت کو جائز ثابت کرنے کی ذمہ داری اُس مذکورہ شخص پر عائد ہوگی جس پر شبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ یہ دولت جائزذرائع سے حاصل 
کی گئی تھی تو سوئس حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس دولت کو ضبط کرلے۔ اس کا آرٹیکل 25(1) سے کوئی تعلق نہیں۔ 
عالمی بینک کے ''چرائے گئے اثاثوں کی بازیابی‘‘ کے ضابطے کے مطابق ایک ملک سے دوسرے ملک میں بدعنوانی اور ٹیکس کی چوری سے جمع شدہ رقم کی منتقلی کا حجم ایک سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالرسالانہ ہے۔ اس میں سے نصف کے قریب ترقی پذیر ممالک سے آتی ہے۔ 1997ء سے لے کر اب تک سوئس بینکوں پر تواتر سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے آمر حکمران اور طاقتور شخصیات غیر قانونی طور پر جمع کی گئی دولت اور اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھا کر چرائے گئے اثاثے ان بینکوں میں جمع کرادیتے ہیںاور پھر وہ دولت اس ملک ، جہاںسے یہ لوٹی گئی تھی، کی پہنچ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ بینک ان افراد سے دولت حاصل کرنے کے ذرائع بھی دریافت نہیں کرتے۔ 
پانچ سال تک جدوجہد کرنے کے بعد نائیجریا لوٹی ہوئی دولت میںسے سات سو ملین ڈالر سوئس بینکوںسے بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ فلپائن کو ایسا کرنے میں اٹھارہ سال لگ گئے۔ اس نے چھ سو چوراسی ملین ڈالر وصول کیے۔ 2001ء سے لے کر2004ء کے درمیان پیرو نے سابق جاسوسVladimiro Montesinos کی طر ف سے لوٹے گئے ایک سو اسی ملین ڈالر حاصل کرلیے۔ اس نے یہ رقم سوئٹزر لینڈ اور امریکی جزیروںمیں موجو د بینکوں میں جمع کرائی تھی۔ ''آر آئی اے اے‘‘کے تحت سوئٹزرلینڈاپنی انتظامیہ کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایسی رقم کی نشاندہی کریں جس پر ٹیکس ادا نہیںکیا گیا۔ تاہم اس سوئس حکومت کی طرف یہ قانون بنانے کے بعد بھی ہماری طرف سے نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے، این سی بی اور اے ایف این نے کوئی رپورٹ فائل کرنے کی زحمت نہیںکی۔ یہ سب ادارے کیا کررہے تھے؟اکیس جون 2013ء کو اپنی اشاعت میں ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے۔۔۔''جہاںتک سوئس بینکوں میں چھپائی گئی دولت کے حجم کا تعلق ہے تو پاکستان کو بھارت پر بالا دستی حاصل ہے۔ ‘‘
سینٹ سیکرٹریٹ فنانس بل 2013-14ء سفارش کرتا ہے کہ قومی اسمبلی سوئس بینکوں میں پاکستانی افراد اور کمپنیوںکی طرف سے جمع کرائی گئی رقوم کی تفصیل حاصل کرے اور ان اکائونٹس کی تفصیل سٹیٹ بینک آف پاکستان کوفراہم کی جائے؛ تاہم ایک مرتبہ پھر حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیںدی۔ اب فنانس منسٹر اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ سوئس بینکوں میں چھپائی گئی ملکی دولت بازیاب کرانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔اس وقت پاکستان بدترین مالی بحران سے گزررہا ہے۔ قرضوںکے بوجھ اور تجارتی خسارے میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے معیشت ڈگمگارہی ہے۔ سوئس حکومت تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے حکومت ِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اخلاص کا مظاہرہ کرے اور قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے اس دولت کو واپس لانے کے لیے قانون سازی کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوںکی جتنی دولت سوئس اور دوبئی کے بنکوںمیں پڑی ہے ، اسے واپس حاصل کرنے سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ رقم قوم کی امانت ہے اور اس کو بازیاب کرانا حکومت کا قومی فریضہ ہے۔ تاہم ایسا کرنے سے پہلے حکومت کو ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانا ہوںگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ٹیکس چور قومی دولت لوٹتے رہیںگے اور غریب عوام کی جیب کاٹی جاتی رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں