اعدادوشمار کا کھیل

2013-14ء کے مالی سال کے اختتام کے قریب ایف بی آر نے ایک مرتبہ پھر فرضی اعدادوشمارکا کھیل دکھا دیا کیونکہ اس کے افسران جانتے ہیں کہ کوئی اتھارٹی اُنہیں ایسی حرکتوں پر سزا نہیں دے گی۔ ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس کی وصولی کے فرضی اعدادوشمار دکھانے کی روایت کی نشاندہی آزاد ذرائع اور قرضے دینے والی غیر ملکی تنظیموںنے کی ہے لیکن سزا ملنا تو درکنار، پبلک اکائونٹس کمیٹی یا سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے مالیاتی امورنے کبھی اس معاملے پر انکوائری کی سفارش تک نہیں کی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں سزا اور جزا کی روایت سیاست کی نذر ہوچکی ہے۔ 
ایف بی آر نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں کبھی یہ نہیں بتایا کہ اس نے کتنی رقوم واپس کرنی ہیں۔ مالی سال کے اختتام پروصول ہونے والے ریونیو سے قابل ِ واپسی رقوم منہا کرنا ہوتی ہیںتاکہ اصل ریونیو کا علم ہوسکے۔ صرف اصل ریفنڈ کی جانے والی رقوم کو ہی منہا کیا جاتا ہے جبکہ ریفنڈ کی جانے والی رقوم کی قدر میں اضافے کو بھی نوٹ کیا جانا چاہیے تاکہ مالی سال کے دوران وصول ہونے والے ریونیو کی اصل رقم سامنے آسکے۔ اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایک تجربہ کار چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں لیکن اُنھوں نے بھی اس معاملے کو نظر انداز کردیا۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں، جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو من پسند ریونیو کی رپورٹ دکھا کر اپنے لیے مزید مالی فوائد حاصل کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کوئی ادارہ خود اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا جب تک اسے حکومت کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ 
گزشتہ کئی برسوںسے بجٹ میں طے شدہ تو درکنار، ٹیکس کی وصولی کے نظر ِ ثانی شدہ اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر صرف 2275 بلین روپے ٹیکس وصول کیا جاسکا جبکہ بجٹ میں طے شدہ ہدف 2475 بلین روپے اور نظر ِ ثانی شدہ ہدف 2345 بلین روپے تھا۔ حاصل شدہ رقم میں کئی بلین روپے ریفنڈ کے بھی ہیں۔ اس میں بینکوں، بڑی کمپنیوں اور پبلک سیکٹر سے ایڈوانس میں وصول کیا گیا ٹیکس بھی شامل ہے۔ ایف بی آر کمپنیوں اور ان سے وابستہ افراد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اگلے مالی سال کے لیے بھی انکم ٹیکس قسطوں میں ادا کردیں۔ زیادہ فنڈزنکلوانے کے لیے ایف بی آر نے ایس آر او(Statutory Regulatory Orders) کے ذریعے، پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر فنڈز وصول کرنا شروع کردیے۔ اس نے ایس آر اوز کے ذریعے سٹیل ری رولنگ کرنے والی ملوں کے بجلی کے نرخوں میں چار روپے فی یونٹ سے سات روپے فی یونٹ اضافہ کردیا ۔ اس کے علاوہ شپ پلیٹس پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 5,862. روپے فی ٹن سے 6,700 روپے فی ٹن کردیا۔ 
انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی ریفنڈ کو بلاک کرتے ہوئے کسی طور ہدف پورا کردیا گیا۔ 23 اپریل 2014ء کو چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے مالیاتی امور کے سامنے تسلیم کیا کہ ریفنڈ کیے جانے والے 97 بلین روپے بلاک کیے گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیںتھا کہ ایسا اعتراف کیا گیا ہو۔ 2005ء میں بھی اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بتایا کہ بلاک کیے گئے 321 بلین روپے 30جون 2005ء تک واپس نہیں کیے گئے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 2004-05ء کے مالی سال میں ظاہر کی گئی ٹیکس وصولی کی سٹیٹ منٹ میں بیس بلین روپے ایڈوانس کے بھی شامل تھے۔ یہ بھی الزام لگا یا جاتا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر نے ریفنڈ کے جو97 بلین روپے بلاک کرنا تسلیم کیا تھا ، وہ ایک سو پچاس بلین سے کم نہیں ہوں گے کیونکہ سینیٹ کی کمیٹی ایسے معاملات کی باریکی کو نہیں سمجھتی۔ ان معاملات کی چھان بین کا واحد حل یہ ہے کہ آزاد ذرائع سے ایف بی آر کا آڈٹ کرایا جائے ۔ امید کی جاتی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن اس معاملے پر غور کرنے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالے گی۔ 
اعداد وشمار کا کھیل 2005 ء یا 2014ء تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر سال ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اگر 2005ء میں پبلک اکائونٹس کمیٹی چیئرمین ایف بی آر کے خلاف کارروائی کرتی تو ہوسکتا ہے کہ آج معاملات قدرے بہتر ہوتے۔تاہم کارروائی کرنے کی بجائے ہر سال فرائض سے غفلت برتنے والوں کو ایوارڈز دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اس طرح صرف حکومت ہی نہیں ، مجموعی طور پر پارلیمنٹ کو قصور وار ٹھہرایا جانا چاہیے کہ اس کی وجہ سے ایک ادارے کو اعداد وشمار کے ساتھ ہیراپھیری کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ 
دراصل ایف بی آر کی اس کارکردگی کے پیچھے ہیراپھیری، دھوکا دہی اور اعدادوشمار کا کھیل کارفرما ہوتا ہے۔ قومی سطح پر اس طرح کی دروغ گوئی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ اس طرح عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ اوپر سے نیچے تک ، حکومت کے معاملات میں شفافیت عنقا ہے تو ان کا ریاستی اداروںسے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں مالیات کے معاملے میں اس طرح کے چکمے کا تصور بھی نہیںکیا جاسکتا۔ اس کی تازہ ترین مثال ٹیکس ریونیو میں سولہ فیصد اضافے کی نوید ہے۔ یہ بھی وزیر خزانہ اور ان کی وزارت کے ہونہار افسران کا شاہکار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فنانس منسٹری اور ایف بی آر کی ٹیم ایسے دائو پیچ آئی ایم ایف کی آنکھوںکے سامنے آزماتی ہیں، لیکن وہ اتنے معصوم اور سادہ دل لوگ ہر گز نہیں ہیں‘ اس لیے ایسے معاملات سے عالمی سطح پر قوم کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ 
اب بات یہ ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے کی ساکھ بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔ اس کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ اسے تحلیل کرتے ہوئے نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے نام سے ایک نیا اور خود مختار ادارہ قائم کیا جائے ۔ اس ادارے کو بھاری بھرکم سرکاری افسران کی بجائے مالیاتی امور کے پیشہ ور ماہرین چلائیں۔ 2013-14ء کے مالی سال میں وصول شدہ ٹیکس 2260 بلین روپے تھا ۔ اس میں سو بلین روپے کے ریفنڈ کی بلاک شدہ رقوم اور ایڈوانس ٹیکس بھی شامل تھے۔ اس کا بھی چیئرمین ایف بی آر نے اعتراف کرلیا لیکن کسی کا مزاج برہم نہ ہوا۔ غلط اعدادوشمار پیش کرنے اوراس کا برملا اعتراف کرنے پر بھی کسی کو سزا نہیں ملی۔ اس کا مطلب ہے اگلے سال بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔ اعداو وشمار کے کرشمے دکھاتے ہوئے قوم کو مقروض کرنے کی پالیسی جاری رہے گی۔ شاید اسی کا نام سیاست ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ریونیو اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ادارہ نااہلی، بدعنوانی اور جابرانہ رویوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ اپنی قومی خدمت، واجب ٹیکس وصول کرنا اور قومی دولت بڑھانا، میں بری طرح ناکام ہے۔ میںنے ان صفحات میں کئی مرتبہ یہ بات کی ہے کہ اس وقت ، جبکہ پاکستان بہت سے مسائل کا شکار ہے، اس ادارے کا کردار نہایت اہم ہوچکا ہے۔ اگر یہ ادارہ ناکام جارہا ہے، تو اسے کسی اور بہتر ادارے سے تبدیل کرلیں۔ اگر ہم نے توانائی کے بحران کا خاتمہ کرنا ہے یا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے یا عوام کو ریلیف دینی ہے تو حکومت کے محصولات میں اضافہ لازمی ہے۔ اعدادوشمار کے کھیل سے کام نہیں چلے گا۔ یہ نازک وقت اس طرح کے شعبدے دکھانے کا نہیں، عملی طور پر ریاست کو تقویت دینے کا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں