آئینی جمہوریت کی ضرورت

موجودہ سیاسی بحران اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ ریاست آئینی تقاضوں کے مطابق جمہوریت قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ گزشتہ چھ عشروں سے جاری فوجی آمریت اور سول حکومتوں کی ''بادشاہت‘‘ نے پاکستان کو کمزور کردیا ۔ تھیوری کی حد تک پاکستان ایک جمہوریہ ہے لیکن حقیقت میں اس پر طاقتور اشرافیہ طبقے کی حکمرانی ہے۔ اگر بطور وزیر ِ اعظم نواز شریف ایک بادشاہ کا سا طرز ِعمل رکھتے ہیں توتحریک انصاف کی اپنی صفوں میں عمران خان کا رویہ بھی کسی شہنشاہ سے کم نہیں۔ جہاں تک طاہرالقادری کا تعلق ہے، وہ محض ذاتی مقاصد کے لیے لوگوں کو مذہب اور پرکشش نعروںسے فریب دیتے ہوئے انقلاب کے نام پر انتشار برپا کرکے اصلاحات کی مالا جپتے ہیں۔ 
2ستمبر2014ء سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی دھواں دھار تقاریر میں جمہوریت کے تحفظ کا عزم تو کیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وزیر ِ اعظم ایک شہنشاہ کی طرح کیوں برتائو کرتے ہیں اور تمام ارکان کے حقوق عام شہریوں کے حقوق پر مقدم کیوںہیں؟ یہ استحقاق یافتہ طبقہ ملک کے عام شہریوںسے اتنا کٹ کرکیوں رہتا ہے کہ اُنہیں اپنی بات سنانے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑے؟حقیقت یہ ہے کہ عوام کے منتخب شدہ نمائندے خود کو ''عوام ‘‘ نہیں سمجھتے۔ ایوان ، جس کی تقدیس پر وہ مرمٹنے کے لیے تیار ہیں، میں کی گئی تقریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی عوام ان کے نزدیک ''رعایا‘‘ یا ''نمک خوار‘‘ ہیں۔ اُنھوں نے اس نظام سے مستفید ہونے والے سرکاری افسران‘ سیاست دانوں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے اُس رویے کا ذکر نہ کیا جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آن پہنچی ۔ 
آئین اور قانون کی بالادستی کی غیر موجودگی میں پاکستان میں مختلف گروہ مفاد پرستی کی مسابقت میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے ''ریڈ زون ‘‘ میںہیں جہاں عوام کو دم مارنے کی بھی اجازت نہیں۔ 2009ء کے بعد سے دکھائی دینے والی عدالتی فعالیت کو جمہوریت کے لیے ایک خطرہ تصور کیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے احکامات سے کھلے عام سرتابی کی گئی ۔سابق وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر مبشر حسن اور دیگر کے فیڈریشن آف پاکستان پر کیے گئے کیس 2010 PLD Supreme Court 265، جسے عرف ِ عام میں این آراو کیس کہا جاتا ہے، میںفاضل عدالت کی ہدایت کی تعمیل سے روگردانی کی۔ عدالت نے کہا۔۔۔''چونکہ این آراو 2007ء کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے، اس لیے اس قانون کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی منسوخ تصور ہوںگے۔ حکومت ِ پاکستان کی ہدایت پر ملک محمد قیوم کی مختلف غیر ملکی عدالتوں اور حکام سے کی گئی تمام خط وکتابت، جس کی رو سے پاکستان سوئس بینکوں اور دیگر ممالک کے بینکوں میں چھپائے گئے کالے دھن کو واپس لینے کے دعوے سے دستبردار ہوگیا تھا،کو بھی ہم نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے، اس لیے پاکستان سول پارٹی کا سٹیٹس برقرار رکھتے ہوئے اس غیر قانونی دعوے کو منسوخ کرتا ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت اور دیگر اداروں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ رقم واپس لینے کے لیے دی جانے والی تمام درخواستوں کا پرانا سٹیٹس بحال کریں۔‘‘
جب سابق وزیر ِاعظم کو ان احکامات کی خلاف ورزی پر توہین ِ عدالت کیس میں سزا سنائی گئی توموجودہ وزیر ِ اعظم نے خوشی منائی تھی۔ اب یہی موجودہ وزیر ِ اعظم چاہتے ہیں کہ تمام جماعتیں ان کے ساتھ مل کر جمہوریت کا تحفظ کریں۔ چنانچہ 2ستمبر 2014ء کو ان کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی گئی۔ 9مارچ 2007ء جنرل مشرف کی حماقت کے بعد سے اب تک پاکستان میں آئین کی بالا دستی اور ''پسندیدگی‘‘ کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ حکمران طبقہ اور ان کے چمچے قومی دولت کو جی بھر کے لوٹنے اور عوام کو ان کے آئینی اور انسانی حقوق سے محروم کرکے دبا کر رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہی سب کچھ ہے اور اس ملک میں انقلابی تبدیلیوں کی کوئی جگہ نہیں۔ چنانچہ انقلاب کے نعرے کو ریاستی وسائل پر پلنے والی اشرافیہ اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتی ہے۔ 
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا عدالتی ڈھانچہ بھی اشرافیہ کا ہی ایک حصہ ہے۔ قانون کی حکمرانی کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ہمارا نظام ِ انصاف غریب عوام کو اُ س وقت تک انصاف مہیا نہیں کرسکتا جب تک موجودہ عدلیہ کو یکسر تبدیل کرکے اس کی جگہ کوئی اور 
موثر نظام نہ قائم کیا جائے۔ گراس روٹ لیول پر انصاف سے نہ صرف ایک ذمہ دار حکومت اقتدار میں آسکتی ہے بلکہ سماجی نظام میں بھی مساوات اورعدل کاپہلو اجاگر ہوگا۔ اس وقت پاکستان دنیا کا کمزور ترین عدالتی نظام رکھتا ہے۔ لوگ غربت اور افلاس سے مررہے ہیں جبکہ عدلیہ شاہر اہ ِ دستور کے تحفظ کے لیے آئین کی تشریح میں مصروف ہے۔ جب 17 جون 2014ء کو لاہور میں ریاستی اہل کاروں نے وحشت کا بازار گرم کیا اور متاثرہ فریق کی شنوائی نہ ہوئی تو ناقدین نے سوال اٹھایا کہ اس وقت منصف حضرات کہاںتھے اور اُس خونریزی پر سوموٹو نوٹس کیوں نہ لیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی معاملات کے حل لیے عدالت مناسب جگہ نہیں ، اس کے باوجود یونانی ہیرو سیسی پس کی طرح ہمہ وقت سیاسی مسائل کا بھاری پتھر چوٹی پر پہنچانے کی سعی کی گئی۔ 
وہ لوگ جو اقتدار میں ہیں اور وہ جو اس نظام کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، کو اس بات کا احساس ہوناچاہیے کہ آئین کی بنیاد پر قائم ہونے والی جمہوریت مراعات یافتہ طبقے کے استحقاق کا نہیں بلکہ عام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ تاہم جس طرح عمران خان اور طاہر القادری ایک فلاحی مملکت کا تصور پیش کررہے ہیںوہ ایک المیہ مگر مضحکہ خیز ڈرامے سے کم نہیں۔ ان کا طریق ِ کار بالکل ایسا ہی ہے جیسے انتہا پسند گروہ بنددق کی نوک پر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست کہ پاکستان میں سرمایہ دار اور بااثر افراد جمہوری اقدار کا خون کرتے ہیں، تاہم ان کے مقابلے پر طاقت کے استعمال کی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ 
نظام میں مثبت تبدیلیاں لانا جمہوری نظام کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اصلاحات کے ذریعے موجودہ نظام کے استیصالی پہلووں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اب تک تقریباً تمام حلقوں کو اس بات کی سمجھ آچکی ہے کہ فرد ِ واحد کی اتھارٹی مسائل کا حل نہیں اور نہ ہی سیاست دانوں کی کوتاہیوں کو جواز بنا کر طاقتور اداروںکی طرف دیکھنے سے مسئلہ حل ہوگا۔ ماضی میں ان اداروں کو نجات دہندہ سمجھا جاتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آمریت میں ہم نے ملک کا آدھا حصہ گنوایا، معاشی اور سیاسی ادارے تباہ ہوئے ، لسانی اور نسلی تعصبات نے سراٹھا کر وفاق کو کمزور کیا اور عام شہریوں کا خون بہا (یا وہ غائب کردیے گئے)۔ 
دوسری طرف نام نہاد سویلین حکمران بھی عوام کو تعلیم ، صحت ، انصاف اور دیگر حقوق سے محروم رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں۔ ان کے لیے اقتدار میں آنے کا مقصد اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے۔ عوام کے پاس ان مسائل کا حل یہ ہے کہ وہ پہلے تو ہر قسم کے غیر آئینی اقدامات کی مزاحمت کریں اور ملک میں جمہوریت کے احیاء کی فکری تحریک چلائیں۔۔۔ اس کے لیے کیلوں والے ڈنڈوں کی ضرورت نہیں۔ آئین کے مطابق تمام ریاستی اداروں کی حدود کا تعین یقینی بنایا جائے۔ ہمیں ایک ایسے پاکستان کی ضرورت ہے جہاں آئین کی بالا دستی ہو تاکہ کسی کی دھونس اور دھمکی نہ چل سکے۔۔۔ ایک ایسا پاکستان جہاں عوام کی مرضی کو اہمیت حاصل ہو تاکہ کوئی طالع آزما ان کے حقوق غصب نہ کر سکے۔۔۔ ایک ایسا پاکستان جہاںعوام کو کیلوں والے ڈنڈے، کٹرز اور کرینیں لے کر احتجاج کی ضرورت پیش نہ آئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں