مدرسے‘ تاجر اوردہشت گرد

تاجر وں کو مذہبی رہنمائوں کی طر ف سے بہت حمایت ملتی ہے کیونکہ وہ ان کی مدد سے زیادہ منافع بھی کما سکتے ہیںاور ٹیکسز بھی بچا لیتے ہیں۔ اس کے عوض وہ ان کے مدرسوں کو دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ ایف بی آر قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ ایسے عطیات کی تحقیقات کرے، لیکن اُس نے مدرسوں کو کبھی ٹیکس فائل جمع کرانے کا نوٹس نہیں بھیجا۔ ان درس گاہوں کوپاکستان اور بیرونی ممالک میں موجود ہمدردوںکی طرف سے بھاری رقوم ملتی ہیں۔ 
بہت سے دولت مند کاروباری افراد حج، عمرے، عیدالاضحی اور دیگر مذہبی رسومات پر بھاری رقوم خرچ کرتے ہیں۔ علما زور دیتے ہیں کہ دین صرف عبادات، جیسا کہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا ہی نام ہے۔ ان کا موقف ہے کہ چونکہ ان کے مدرسے دین کی بہترین خدمت کررہے ہیں، اس لیے وہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں۔ وہ دولت مند افراد کو یہ کہہ کر مساجد اور مدارس کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے قائل کرلیتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کے گناہ دھل جائیں گے اور وہ جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کریں گے۔ بہت سے تاجر، جو ٹیکس فائل جمع نہیں کراتے، مدرسوں کو رقوم دے کر اپنی ''عاقبت‘‘ سنوارتے ہیں کیونکہ اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ ان مدرسوں میں غریب والدین کے بچے دینی علم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح غریب بچوں کے نام پر مدرسے چلانے والے بھاری رقوم حاصل کرلیتے ہیں۔ کچھ سیاسی نما مذہبی جماعتیں بہت بڑے بڑے مدرسے چلاتی ہیں۔ 
مذہب کو تجارت بنانا، جیسا کہ ہمارے ہاں ہورہا ہے، ایک طرف، لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو قرآنِ پاک دولت جمع کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، لیکن مدرسوں کو رقوم فراہم کرنے کے بعد تاجر قوم کی رگوں سے بھاری منافع نچوڑنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ا س کے باوجود اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں دولت جمع کرنے کا لالچ ہمارے ہاں ایک خبط بن چکا ہے‘ اس کے لیے ہر قسم کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کو پامال کیا جاتا ہے اور ضمیر میں خلش تک نہیں ہوتی کیونکہ خرقۂ سالوس میں چھپے ہوئے مہاجن اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ وہ جنت کے حقدار ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ ، ناپ تول میں کمی بیشی، ناقص اور غیر معیاری اشیا کی فروخت ، مشہور برانڈز کی نقول،جعلی دستاویزات کی تیاری اور سرکاری واجبات بچانے کی لامتناہی سرگرمیاں معاشرے میں بلاروک ٹوک جاری ہیں۔۔۔۔ پھر بھی زعم کہ ہمارے ہاںکوئی حکومت بھی پائی جاتی ہے!
پاکستان میں قائم ہزاروں مدرسے یقینا ریاست کی ناکامی کی دلالت کرتے ہیںکیونکہ وہ آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت اپنی ذمہ داریاںپوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔مذہبی جماعتیں سیاسی لبادہ اوڑھ کر بھی بھاری بزنس کرتی ہیں۔ ان کے مدرسے ہی ان کے ''انتخابی حلقے‘‘ ہیں جہاں سے وہ بلاشرکت ِ غیرے جیت جاتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں اسمبلی میں زیادہ نشستیں تو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں لیکن وہ خاصی سٹریٹ پاور رکھتی ہیں۔ اس کے بل بوتے پر وہ حکومت کو اپنا احتساب کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ 
تیسری مدت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے نواز شریف نے ٹیکس چوروں کو غیر معمولی فوائد کی ہر آن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مواقع فراہم کیے۔ اب یہی ٹیکس چور، جو قومی مجرم ہیں، مدرسوںکو کھل کر چندہ فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے اس ''ناجائز دولت ‘‘ کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا حالانکہ حرام مال پر مذہب کے احکامات انتہائی سخت ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد نواز شریف پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے بے چین تھے۔ یہ دہشت گرد بھتہ خوری کے ذریعے بھی شہریوںکا جینا حرام کیے ہوئے ہیں۔ ستمبر 
2013ء میںفنانس منسٹر نے بڑے فخر سے اعلان کیا۔۔۔ ''تاجروں کے تمام مطالبے (ٹیکس ادا نہ کرنے کے) تسلیم کرلیے گئے ہیں۔‘‘چنانچہ توقع کے مطابق 2013ء اور 2014ء میں دولت مند تاجروں کی اکثریت نے ریٹیل سیلز ٹیکس کے لیے رجسٹر کرانے سے انکار کردیا۔ اسی سال مدرسوں کوملنے والے عطیات کا حجم غیر معمولی طور پر زیادہ رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسہ کلچر اور ٹیکس چوری کا رجحان باہم مربوط ہیں۔ ٹیکس چور نہ صرف مدرسوں کو ر قوم فراہم کرتے ہیں بلکہ انتخابات میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔ یہ دولت مند تاجر اربوں روپوں کے اثاثے بیرونی ممالک میں رکھتے ہیں۔ 9 جنوری 2015ء کو چیئرمین ایف بی آر نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے سامنے تسلیم کیا کہ ''سوئٹزرلینڈ اور یو اے ای معلومات فراہم نہیں کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور ٹیکس چوروں نے دوسرے ناموں سے اثاثے چھپائے ہوئے ہیں۔‘‘
انتخابات اور مدرسوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ٹیکس چور‘ علماء اور سیاست دانوں کی آشیر باد حاصل کرلیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے Statutory regulatory orders کی رعایت کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ ان کی پاکستان اور بیرونی دنیا میں بے اندازہ مالیت کی جائیداد ہوتی ہے لیکن یہ برائے نام ٹیکس اداکرتے ہیں۔ ایف بی آر کے اپنے جائزے کے مطابق تاجروں کی طرف سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی شرح صرف 0.5 فیصد جبکہ سیلز ٹیکس ادا کرنے کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔ طاقت ور جاگیردار اور تاجر بہت کم انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت اسمبلیوں میں موجود ہے‘ اس لیے ریونیو حکام کی مجال نہیں کہ ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھیں۔ انکم ٹیکس قوانین کی تاریخ گواہ ہے کہ تاجروں کی ہڑتالوں کے ڈر سے ان میں ترامیم در ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ تاجر بھی اپنے مارکیٹ میں اتنے ہی طاقتور ہیں جتنے علماء اپنے مدرسوں میں ، جہاں کوئی قانون انہیں چیلنج نہیں کرسکتا۔ حکومتیں، چاہے سول ہو یا ملٹری، ان کو خوش کرنے کے لیے رعائتیں دیتی رہی ہیں، چنانچہ یہ دھڑے آج قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ 
آج پاکستان میں دو اہم ترین مسائل ہیں۔۔۔ دہشت گردی اور ٹیکسز کی عدم ادائیگی۔ ریاست ان دونوں معاملات میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ یہ تعلیم ، ٹرانسپورٹ، صحت اور عوام کو دیگر شہری سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔دراصل سرکاری شعبے میں چلنے والے پرائمری سکولوں کی ناکامی کی وجہ سے مدرسہ کلچر توانا ہوا۔ یہ صورت ِحال جنرل ضیا کے دور سے بلا روک ٹوک پروان چڑھ رہی ہے۔ آج ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں دہشت گردی اور ٹیکسز کی عدم ادائیگی ہم معانی ہوچکے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس دومنہ والے اژدھے پر ہاتھ ڈالے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں