محصولات میں اضافے کا قانون

پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد کم از کم پچاس ملین ہے‘ جو ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن ان میں صرف آٹھ لاکھ پچاس ہزار افراد ٹیکس فائل جمع کراتے ہیں۔ ٹیکس فائل جمع کرانے سے گریز کی بنیادی طور پر دو وجوہ ہیں... ٹیکس مشینری کی بے جا سختی کا خوف یا ان کے سامنے خود کو غیر محفوظ سمجھنے کی روایت۔ اگلے دن لاہور ٹیکس بارکے زیر اہتمام ایک سیمینار میں چیئرمین ایف بی آر نے ٹیکس مشیران کو یاد دلایا کہ عوام کو ٹیکس فائل جمع کرانے اور اپنے محصولات پوری ایمانداری سے جمع کرانے کے لیے قائل کرنا ان کا قومی فرض ہے۔ یہ یاددہانی کراتے ہوئے چیئرمین نے پوچھے گئے ان سوالات کو بڑی صفائی سے نظر انداز کر دیا‘ جن میں ان سے استفسار کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے سٹاف کو بددیانتی، جس کی وجہ سے لوگ ٹیکس ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں، سے باز رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ انہوں نے ٹیکس پروفیشنلز کو دعوت دی کہ وہ ٹیکس کی شرح بڑھانے کے لیے ٹھوس تجاویز دیں‘ لیکن یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ ہر سال ایس آر اوز کے تحت کم از کم تین سو بلین روپے ضائع ہو جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داری ٹیکس مشیران کی بجائے صرف اور صرف حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر روز پاکستان کے ہوائی اڈوں سے لاکھوں ڈالر باہر سمگل ہو جاتے ہیں، لیکن اس غیر قانونی بہائو کو روکنے کے لیے قابل قدر اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح قوانین کے کمزور نفاذ اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت کم سرکاری افسران ٹیکس فائل جمع کراتے ہیں جبکہ ایف بی آر یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتا رہتا ہے۔ یہ سرکاری محکموں پر دبائو ڈالنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام د یتے ہوئے ملک میں ٹیکس کے دائرے کو پھیلائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر ممالک میں چھپائی گئی دولت کو واپس لانے کے بھی بلند بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آج تک ایک پائی بھی وصول ہوتی دکھائی نہیں دی۔ دوسری طرف بھارتی حکومت نے 20 مارچ 2015ء کو غیر ظاہر کردہ فارن انکم اور اثاثہ جات کا قانون پیش کیا۔ یہ بل ایسی دولت پر الگ ٹیکس عائد کرتا ہے۔ اس کا دائرہ کار ان تمام افراد پر ہو گا‘ جو انڈیا کے شہری ہیں۔ اس کا اطلاق غیر ظاہر کردہ دولت اور اثاثہ جات، دونوں پر ہو گا۔ اس میں ٹیکس تیس فیصد کی یکساں شرح سے وصول کیا جائے گا‘ جبکہ کسی کو بھی استثنا ملے گا‘ نہ رعایت۔ اس بل میں نئی اور سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ انڈیا سے باہر کسی اثاثے یا دولت کو چھپانے، اس پر ٹیکس ادا نہ کرنے پر تین گنا جرمانہ (نوے فیصد ) ہو گا۔ یہ واجب الادا تیس فیصد ٹیکس کے علاوہ ہو گا۔ دس لاکھ بھارتی روپے جرمانہ اس کے علاوہ ہے۔ اگر کوئی ملکی دولت پر ٹیکس فائل جمع کرائے لیکن غیر ملکی دولت کو چھپائے تو اس پر بھی یہی سزا لاگو ہو گی۔ اس کے علاوہ مختلف خلاف ورزیوں کی صورت میں تین سے لے کر دس سال تک قید بامشقت دی جا سکتی ہے۔ ان چھپائے گئے اثاثوں سے استفادہ کرنے والے افراد پر بھی انہی سزائوں کا اطلاق ہو گا۔ غلط فائل جمع کرانے کی سزا چھ ماہ سے لے کر سات سال قید بامشقت ہو گی۔
اس قانون کے ذریعے بھارتی حکومت نے بیرونی ممالک میں دولت چھپانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی طرف پہلا قدم اٹھا لیا ہے‘ جبکہ ہم ابھی تک دعوے کرنے اور نعرے لگانے میں
مصروف ہیں۔ اس سے بھارت کو کالے دھن کو ٹیکس کے دائرے میں لانے میں مدد ملے گی۔ یقینا اس میں پاکستان کے لیے ایک مثال موجود ہے؛ تاہم ہمارے محترم فنانس منسٹر اور چیئرمین ایف بی آر سکوت کے مظہر ہیں۔ ان کالموں کے ذریعے اُنہیں بارہا ٹیکس میں اضافے کی تجاویز پیش کی جا چکی ہیں‘ لیکن ان پر عمل درآمد دکھائی نہیں دیا۔ کیا اس وقت ہماری حکومت کے لیے بھارت کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے غیر ظاہر کردہ بیرونی دولت اور اثاثہ جات پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت نہیں؟
پاکستانی موبائل فون صارفین کے بل ایک طے شدہ معاشی علامت ہے۔ کم از کم ایک ملین بھاری بھرکم بل ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر ٹیکس فائلز جمع نہیں کراتے۔ یہ افراد بھاری اثاثوں کے بھی مالک ہیں۔ ان سے ٹیکس وصول نہ کرنا ایف بی آر کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسری طرف ایف بی آر یہ کریڈٹ لے رہا ہے کہ اس نے کم و بیش تین لاکھ افراد کو نوٹس بھیج کر چند ملین روپے نکلوائے ہیں، لیکن یہ تمام قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے افراد سے ٹیکس وصول نہ کر پانے کی ناکامی کا اعتراف نہیں کرتا۔ یہ بات میں نے پہلے شائع ہونے والے
کالموں میں بھی کہی تھی کہ ایف بی آر آسانی سے آٹھ ٹریلین روپے جمع کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں بیرونی قرضے حاصل کرنے کی بھی حاجت نہ رہے، بلکہ حکومت کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ عوام کو شہری سہولیات فراہم کر سکے۔
ہمارے رہنما جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں لیکن ٹیکسز سے اجتناب کرتے ہیں۔ ملک میں دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے عام محنت کش شہری کو ٹیکس کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے۔ عوام کے خون پسینے پر پلنے والی اشرافیہ اس کے مفاد کے تحفظ کی دعوے دار بھی ہے۔ عوام کو اس بات کا احسان بھی جتایا جاتا ہے کہ وہ ان کی خاطر رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اشرافیہ کے اخراجات کی وجہ سے ریاست کا خزانہ خالی رہتا ہے۔ اب تک ہمارا کل قرضہ اٹھارہ ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکا ہے، لیکن نہ تو دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرنے کی کوئی کوشش دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار ہے۔ اس کے علاوہ غیر ضروری منصوبوں پر بھی بھاری رقوم خرچ کرنے کی روایت جاری ہے۔ اسی کی بنیاد پر انتخابات میں ووٹ لیے جائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اہم رہنمائوں کے اربوں ڈالر بیرونی ممالک میں ہیں، لیکن وہ پاکستان میں ایک پائی بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے، اس کے باوجود وہ انتخابات جیتنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں