ٹیکس چوروں کا احتساب

اس یوم ِ آزادی پر قوم کو چاہیے کہ بڑے بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے متحد ہوجائے۔ ہمارے بدعنوان اور نااہل حکمران اور ٹیکس افسران چھوٹے تاجروں کا تو تعاقب کرتے ہیں لیکن دوسری طرف کالے دھن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوتے ٹیکس سے بچنے کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ کالا دھن ایک طرف ریاستی اداروں کو بدعنوان بنادیتا ہے تو دوسری طرف منظم جرائم اور دہشت گردی کی وارداتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کالے دھن کے خلاف کارروائی کاآغاز فنانس ترمیمی بل 2012 ء سے ہونا چاہیے جس کا نفاذ چوبیس اپریل 2012 ء کو قومی اسمبلی کے طے شدہ اجلاس سے ایک دن پہلے ہوا، لیکن کسی رکن ِ اسمبلی نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ 
کالا دھن رکھنے اور ٹیکس ادا کیے بغیر دولت کے ڈھیر لگانے والے افراد خود پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں لیکن وہ اپنی آمدنی بہت کم ظاہر کرتے ہیں۔ بعض نے اپنی آمدنی اتنی کم ظاہر کی ہوتی ہے کہ اس سے کسی متوسط گھرانے کا چولہا بمشکل جل سکے لیکن اُن کی گاڑیاں، رہائش، غیر ملکی سفر، وسیع جائیدادیں کوئی اور ہی کہانی سناتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود کو جمہوریت کا چمپئن قرار دے کرمنتخب ہوکر ایوانوں میں آجاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام بھی انہیں منتخب کر لیتے ہیں ، لیکن پھر یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ عوام کے پاس کوئی اور چوائس نہیں ۔ چونکہ پاکستان کے موجودہ سیاسی کلچر میں ووٹ ایسے افراد کا محاسبہ نہیں کرسکتا، اس لیے یہاں احتساب کے کسی آزاد اور خود مختار ادارے کی ضرورت ہے جو ایسے افراد کو گرفت میں لائے ۔ 
فنانس ترمیمی بل 2012ء نے ناجائز مال بنانے والوں، منشیات فروشوں، بھتہ خوروں، ٹیکس چوروں اور غیر قانونی اسلحہ بیچنے والوں کو منی لانڈرنگ کی ''سہولت‘‘ فراہم کی۔ 
اس آرڈیننس کے مطابق اگر کوئی شخص چوبیس اپریل2012 ء سے لے کرتیس جون 2014 ء کے درمیان صرف ایک سو بیس دن کے لیے کسی بھی پبلک کمپنی ، جوپاکستان میں سٹاک ایکس چینج کے پاس رجسٹرڈ ہو ، میں سرمایہ کاری کرے تو اُس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ان ''استحقاق یافتہ سرمایہ کاروں ‘‘ نے2012ء کے ٹیکس سال کے دوران اپنی دولت اور آمدنی کی سٹیٹمنٹ جمع کرانی تھی۔ ایف بی آر کے افسران کا دعویٰ تھا کہ یہ قانون کیپٹل گین ٹیکس کو بہتر بناتے ہوئے معیشت کو ڈاکومنٹ کرنے میں معاون ثابت ہو گا اور اس سے سٹاک ایکسچینج کی حالت بھی بہتر ہوجائے گی۔ اب قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ یہ اہداف حاصل ہو پائے یا نہیں؟چیئرمین ایف بی آر اس غیر معمولی سہولت فراہم کرنے کے کچھ فوائد عوام کے گوش گزار بھی کردیں۔سوالات بہت سادہ ہیں: (1) اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹاک مارکیٹس میں کن افراد نے سرمایہ کاری کی؟(2)یہ افراد عام حالات میں اپنی آمدنی کے ذرائع ظاہر کرنے سے قاصر کیوں تھے؟(3)ان سرمایہ کاروں کو اپنے وسائل کے ذرائع کو چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟(4)انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے ضابطوں کو غیر فعال کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو اُن سے پوچھ گچھ کی اجازت کیوں نہیں دی کہ سٹاک ایکس چینج میںانوسٹ کی جانے والی رقم کہاںسے آئی؟(5) اس غیر معمولی سہولت سے استفادہ کرنے والوں سے میں سے کتنے افراد نے بعد میں ریٹرن فائلز جمع کرائیں اور (جیسا کہ ٹیکس حکام کو توقع تھی) ان کی وجہ سے محصولات کے حجم میں کیا اضافہ ہوا؟قوم اور میڈیا کو چیئرمین ایف بی آر سے یہ سوالات پوچھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس غیر معمولی سہولت کے پیچھے سکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی) کی مرضی شامل تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس اقدام سے مارکیٹس کو تقویت ملی گی تو ریاست کے محصولات میں اضافہ ہوگا۔ اب ایس ای سی پی کا فرض ہے کہ ہمیں بتائے کہ 2012ء کے بعد سے ریٹرن فائلز جمع کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی کیوں واقع ہوئی؟نیز لگے ہاتھوں یہ بھی بتادے کہ اس کے پاس رجسٹرڈ 64,000 کمپنیوں میں سے صرف 24,128 نے 2014ء کے ٹیکس سال میں فائلز جمع کیوںکرائیں؟
ٹیکس چوروں کو فراہم کی جانے والی یہ سہولتیں اور استثنیٰ قانون کی پابندی کرنے والے ٹیکس دہندگان کو شدید صدمے سے دوچار کرتی ہیں۔ ایک ریاست کی سطح پر غیر روایتی معیشت یا منظم جرائم سے حاصل کردہ کالے دھن کو سفید کرنے کی سہولت فراہم کرنا اور یہ سمجھنا کہ اس سے محصولات میں اضافہ ہوگا، انتہائی قابل افسوس اقدام ہے۔ اس کی بجائے ریاست کو ان تمام اثاثوں کو ضبط کرنا چاہیے جو غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت سے بنائے گئے ہیں ۔ ان اثاثوںکو مفاد ِعامہ کے لیے مختص کیا جائے کیونکہ یہ عوام کا پیسہ لوٹ کریا عوام کو نقصان پہنچانے والے ذرائع سے ہی حاصل کیے گئے ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیںکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ ٹیکس اد ا کیے بغیر دولت کے ڈھیرلگا کر ملک میں اور بیرونی ممالک میں اثاثے بنانے والے اپنے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیںگے۔ ''ولی را ولی می شناسد‘‘، لہٰذا اپوزیشن بھی ایسا کوئی قانون پیش نہیں کرے گی اور نہ ہی حکومت پر دبائو ڈالے گی۔ افسوس، پاکستان کے منتخب شدہ افراد عوامی مفاد کے خلاف متحد ہیں۔ 
اگر عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں آنے والے افراد ملک کے ساتھ مخلص ہوتے تووہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں نئی صنعتیں لگانے، روزگار کے مواقع پید ا کرنے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے ضروری اقدامات اٹھاتے دکھائی دیتے۔ اس کی بجائے وہ اپنے مفاد کا تحفظ کرنے اور لوٹ مار سے حاصل کی گئی دولت کو قانون سے بچانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا مذکورہ سہولیات کی وجہ سے سماجی سطح پر کوئی طویل المدت مثبت تبدیلیاںبرپا ہوتی ہیں یا صرف ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے اور ٹیکس چوری کرنے کا رجحان فروغ پاتاہے؟۔ 
یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ اگرچہ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کو آگے بڑھانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے ( جیسا کہ تعلیم ، صحت اور رہائش) کے لیے فنڈز کی شدید کمی ، لیکن غیر روایتی معیشت سے حاصل کیے گئے وسائل کی بہتات معاشرے کوسماجی اور معاشی بحران سے دوچار کررہی ہے۔ بدعنوان عناصر اور ان کے سیاسی پشت پناہ پاکستا ن کو کنٹرول کرتے ہوئے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992 ء اورانکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کے سیکشن 111(4کاسہارا لیتے ہیں۔ 2012 ء میں حکمران طبقے نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ ان کی حکومت کا آخری سال ہے اور اُنہیں اگلی مرتبہ باری(بقول عمران خان) ملنے کا کوئی امکان نہیں، اُنھوں نے اپنی ترسیلات ِ زرکے تمام ثبوت مٹانے کے لیے فنانس ترمیمی بل 2012ء متعارف کرایا اور اسے تمام اسمبلی ، جس میں موجودہ حکمران پارٹی، پی ایم ایل (ن) بھی موجودگی رکھتی تھی، نے بیک زبان ہوکر منظور کرلیا۔ اس سے یہ تصدیق ہوگئی کہ اس حمام میں سب کی جامہ پوشی کا ایک ہی معیار ہے۔ اب تک یہ بات ثابت ہوچکی کہ کالے دھن کو سفید کرنے کی سہولت فراہم کرنے سے ، جیسا کہ ایف بی آر کے حکام کا دعویٰ تھا، محصولات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اُس کا مقصد قومی دولت لوٹنے والے کچھ مافیاز کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس کا ایک اور نقصان یہ ہوا کہ بے پناہ کالا دھن رکھنے والوںنے سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کا صفایا کردیا۔ اس طرح ایک ''چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوتا گیا‘‘۔ چنانچہ آج ضرب ِ عضب میں یہ بات سامنے آئی کہ کالے دھن سے لوٹی گئی رقم ہی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی معاونت کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ 
منی لانڈرنگ کی سہولت فراہم کرنا اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 ء کے سیکشن تین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اس کا سیکشن 2(f)(vii)(a) سٹاک ایکس چینجز میں ہر قسم کے لین دین کا احاطہ کرتا ہے۔ اس وقت ملک کو معاشی محاذ پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت روز مرہ کے اخراجات کے لیے اندھا دھندقرض لینے کی عادی ہوچکی ہے۔ صنعتی اور کاروباری سرگرمیاں سرد ہونے کی وجہ سے تجارتی اور مالیاتی خسارہ بڑھتاجارہا ہے، چنانچہ ملک کے ادائیگیوںکے توازن میں بگاڑ آچکا ہے۔ جس رفتار سے کالے دھن کوسفید کرکے معیشت میں ڈالا گیااور جس طرح کے فراڈ سامنے آئے، اس نے ملک کی چولیںہلا ڈالیں۔ اس وقت جبکہ ملک دہشت گردی ، انتہا پسندی اور منظم جرائم سے لڑرہا ہے، منی لانڈرنگ اور کالے دھن کی ترسیل روکے بغیر اس جنگ میں کامیابی دشوار ہے، چنانچہ غیر روایتی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کوآئینی تحفظ کی چھتری فراہم کرنے کی بجائے اس میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اسے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں