بے نظیر بھٹو کی آٹھویں برسی

بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بہت بہادری سے اپنی جان کی قربانی دی۔ اُنہوں نے انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو اُس وقت مسترد کردیا جب مخصوص طاقتیں پاکستا ن کو ایک کٹڑ مذہبی ریاست بنانے کے درپے تھیں۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پاکستان کی جمہوریت اور فلاحی مملکت بننے کی راہیں ہمیشہ کے لیے مسدود ہوجاتیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے قاتل اور اُن کے سہولت کار آٹھ سال بعد بھی گرفتار نہیں ہوسکے۔محترمہ کی گزشتہ سال، ساتویں برسی کے قریب انہی طاقتوں نے ایک اور گھنائونی کارروائی کرتے ہوئے آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کا خون بہایا۔ گزشتہ سال پندرہ جون کو آپریشن ضرب ِ عضب شروع کیا گیا کیونکہ انتہا پسندوں سے مذاکرات ناکام ہوچکے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے لیکن جہاںتک محترمہ کے قاتلوں کا تعلق ہے تو انہیں ابھی سزا ملنا باقی ہے۔ اگر محترمہ کا سیاسی قد اور ان کی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات یاد کی جائیں تواُن کا خون بہانے والوں کو بے نقاب کرنا اور مثالی سزا دینا ضروری تھا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ہم دہشت گردوں، ان کے ایجنڈے اور مذموم مقاصد سے بھی آگا ہوجاتے اورشاید انتہا پسندی اور جنونیتکا، جس نے ملک میں اپنی جڑیں گاڑ رکھی ہیں، کسی قدر تدارک کرنا بھی ممکن ہوتا۔
27دسمبر 2007ء کو محترمہ کی المناک شہادت کے بعد سے یکے بعد دیگرے اٹھنے والے بہت سے بحران اور کشیدگی کے بادل پاکستا ن کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ ان بحرانوں کی ایک وجہ تو عالمی حالات بھی ہوسکتے ہیں، لیکن بڑی وجہ ملک میں قیادت کا بحران ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی پی پی نے پانچ سال تک آصف علی زرداری کی قیادت میں ملک پر حکومت کی ، لیکن اس حکومت نے نہ صرف ملک بلکہ بھٹو کی پارٹی کو بھی بے حد نقصا ن پہنچایا۔ اُن پانچ برسوں کے دوران نااہلی، بدانتظامی، بدعنوانی اور معاشی تباہی کے ایسے ریکارڈ قائم کیے گئے جنہیں توڑنا اگر ناممکن نہیں تو بھی بہت دشوارہے۔اُس دوران اداروں کے درمیان تصادم خطرناک حد کو چھوتا دکھائی دیا ،جبکہ عوام معاشی بدحالی کا عذاب سہتے، جمہوریت کو انتقام لیتے دیکھ رہے تھے۔ پی پی پی کی اختیار کردہ راہو ں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی سفر جاری رکھا، جبکہ پی پی پی کی تباہی کے بعد ابھرنے والی اپوزیشن جماعت، پی ٹی آئی بھی عوام کے سامنے عملی اورحقیقی معاشی پروگرام رکھنے میں کامیاب نہ ہوئی۔ چنانچہ آج جمہوریت کے تسلسل کے باوجود پاکستانی عوام کے مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ آج کے پاکستان میں ایک بھی رہنما ایسا نہیں جوبے نظیر بھٹو کی سیاسی فکر کا ہم پلہ ہو۔ درحقیقت محترمہ کے بعد ہم ملکی اور عالمی سطح پر ایک مدبر رہنما کی سیاسی خدمات سے محروم ہوگئے ہیں۔ 
یہ بات افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ باعث شرمندگی بھی ہے کہ ریاستی مشینری ہائی پروفائل قتل کا سراغ لگانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دہشت گردی اور اندھیرے کی قوتوں کو جرأت مندی سے للکارتے ہوئے یقینا محترمہ نے بہت سے دشمن بنا لیے تھے۔ اُن کی بے باکی اور صاف گوئی نے اُنہیں سیاسی میدان میں ایک ناقابل ِ فراموش شخصیت بنا دیا۔ آج اُن کے بہت سے سیاسی حریف، بلکہ بدترین مخالف ، بھی ان کی خوبیوں کو سراہتے ہیں۔ دراصل اُنہیں منظر ِ عام سے ہٹاتے ہوئے انتہا پسند اس جوہری صلاحیت کی حامل ریاست پر قبضہ کرتے ہوئے اس پر تنگ نظر ی مسلط کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح وہ اس کے ہمسایوں، جیسا کہ چین اور بھارت ، کے لیے شدید خطرہ بن جاتے اور جنوبی ایشیا آگ کے شعلوں میں جل اٹھتا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بعدمیں آنے والی حکومتوں نے انتہا پسندوں کے سامنے معذرت خواہانہ لہجہ اپنایا، اُنہیں باتوںسے رام کرنے کی کوشش کی ، اُنہیں'' بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ قرار دے کر پچکارا، دل جوئی کی، تاوقتیکہ 16 دسمبر کے سانحے میں بہنے والے معصوم بچوں کے پاکیزہ خون نے سب ابہام دور کردیے۔ ایف سی کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے سکول کی دیواریں پھلانگیں، ایک سو پچاس کے قریب بچوں اور عملے کے افراد کو سفاکی سے قتل کیا، یہاں تک کہ فوجی کمانڈوز نے اُنہیں انجام تک پہنچایا۔ آرمی پبلک سکول پر حملے سے پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات کا ایک تسلسل تھا۔ 15 ستمبر2013ء کو جنرل ثناء اللہ نیازی اور لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور ساتھی، اور 22 دسمبر 2012ء کو عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر احمد بلور نوساتھیوں سمیت دہشت گردوں کی سفاکیت کا نشانہ بن چکے تھے۔ اس کے علاوہ 2001ء کے بعد دہشت گرد اپنے من پسند مقامات پر بم دھماکے اور خود کش حملے کر رہے تھے ۔ ان سب حملوں میں ایک ربط اور تعلق پایا جاتا تھا، لیکن دوسری طرف ریاست کنفیوژن کا شکار تھی۔ ستم یہ کہ تحریک ِطالبان پاکستان ا ن حملوں کی بڑے فخر سے، سینہ تان کر، ذمہ داری قبول کرتی ، لیکن معاشرے میں اُن کے حامی ہمیں بتاتے کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل ہے،نیز کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کا خون نہیں بہا سکتا۔ 
بنیاد پرستی ایک پیچیدہ اور دقیق تصور سہی، لیکن اس کی منزل واضح ہے۔۔۔ ملک کو جمہوریت کی راہ سے ہٹا کر اندھیروں کی نذر کرنا۔ تمام انتہا پسند گروہ، چاہے خوفناک داعش اور تحریک ِطالبان ہو یا مقامی انتہا پسند، اُن کے بیرونی ممالک سے روابط ایک حقیقت ہیں۔ انہیں بھاری تعداد میں فنڈز اور عطیات میسر آتے ہیں جو نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گروہ مختلف جرائم ، جیسا کہ منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان ،تیل اور دیگر اشیا کی سمگلنگ اور بھتہ خوری سے مالی وسائل حاصل کرتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک ان کے مالیاتی نیٹ ورک کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ہماری وزارت ِخزانہ اور وزارت ِ داخلہ ابھی اس سلسلے میں کچھ کرتی دکھائی نہیں دیتیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد کچھ طاقتیں ان عناصر کو ایک ٹول کے طورپر استعمال کرتے ہوئے دنیا پر اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ بھی ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ انتہا پسند گروہ ایک نظریے کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیاسی، جس کے ایک طرف عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے ، تو دوسری طرف انتہا پسندی پر مبنی نظریہ، جو نوجوانوں کے لیے اُس وقت باعث کشش بن جاتا ہے جب وہ اپنی جمہوری حکومتوں کو غیر فعال پاتے ہیں۔ ایسے انتہا پسند گروہ دراصل مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک آڑ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 
انتہا پسندی کا فوری علاج تو فوجی آپریشن ہے لیکن اس کے دیرپا علاج کے لیے ان کے مالیاتی نیٹ ورک کو توڑنا اور تنگ نظری کے مقابلے میں سیاسی اور سماجی بیانیہ لانا ضروری ہے۔ آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے سے دکھائی دیتا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی حکمت ِعملی نے اس کے اہم پہلو کو نظر انداز کردیا ہے ، چنانچہ بے پناہ فوجی اور مالی وسائل رکھنے کے باوجود امریکہ اس جنگ کو جیتنے میں ناکام رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھی اور نہ ہی ان کے کنٹرول میں ڈرون تھے، بلکہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سیاسی بیانیہ سامنے لارہی تھیں، اور یہ انتہا پسندوں کے لیے سب سے تشویش ناک بات تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر کو لاحق خطرے کا احساس تھا لیکن اُنھوں نے مبینہ طور پر اُنہیں بچانے کے لیے ضروری اقدامات نہ کئے۔ 
اقوام ِ متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے ہیرالڈو مونز(Heraldo Munoz) نے اپنی کتاب ''Getting Away with Murder‘‘میں اس بات پر شک کا اظہار کیا ہے کہ محترمہ پر حملہ کالعدم تحریک ِطالبان نے کیا تھا۔ اُنہوں نے خفیہ اداروں کے اس کیس میں ملوث ہونے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا ۔ اُن کے خیال میں اس قتل پر پڑا ہوا پردہ شاید کبھی نہ اٹھ سکے۔ اگر پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو محترمہ کے قتل کیس کو حل کرنا اور اس کے پیچھے کارفر ما ہاتھ کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔ انتہاپسندی دھندلے ماحول میں ہی عوام کو کنفیوژن میں ڈال کر اپنی حمایت کا راستہ ہموار کرتی ہے، اسے کھلی دھوپ میں لانا ہوگا تاکہ عوام تلخ حقائق اور اس کے مکروہ چہرے کو دیکھ سکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں