پاناما بحران پر قابو کیسے پایا جائے؟

وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر نے‘ سیاسی رہنمائوں کی طرف سے ٹیکس ادائی کی ذمہ داری پوری کرنے سے گریز اور سچ بولنے میں ناکامی کے بارے میں‘ عوام کی مزید غلط فہمی، اگر بعض کو تھی، دور کر دی۔ عوام سمجھ چکے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت موجودہ مسئلے کا کوئی حل نکالنے‘ اور پہلے ہی مسائل کا شکار اس ملک کو مزید افراتفری اور انتشار سے بچانے کے بجائے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کام کر رہی ہیں۔ قومی قیادت کا اصل ایجنڈا ملک کو مسائل سے بچانا ہوتا ہے‘ لیکن وہ تیز و تند جملوں کے تبادلے اور دیگر لاحاصل کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی وزیر اعظم کو نااہل قرار دلانے کے لیے کیس فائل کرتا، لیکن بیان بازی اور پوائنٹ سکورنگ کے سوا ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاست دان جمہوریت کے ساتھ بھی مخلص نہیں۔ 
پہلے 1956ء کے ایکٹ کے تحت انکوائری کمیشن بنانے پر کھینچا تانی دکھائی دی۔ اسے حکومت کی طرف سے بنائے گئے غیر واضح اور مبہم 'ٹرمز آف ریفرنس‘ کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسترد کردیا۔ اپوزیشن چاہتی تھی کہ اس مسئلے کی تحقیقات کے لیے خصوصی کمیشن ''پاناما پیپرز ایکٹ 2016ء ‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر فیصلہ کیا کہ وہ کسی سیاسی تنازع کی دلدل میں قدم رکھنے سے گریز کرے گی۔ چنانچہ اس نے حکومت کو ہدایت کی کہ واضح ٹرمز آف ریفرنس تیار کرے۔ تاحال ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی تصفیہ نہیں ہوپایا ۔اس کا مطلب ہے کہ، ٹیکس چوری، سرمائے کے فرار اور بدعنوانی کے عفریت کا سرقلم کرنا کمیشن کے بس کی بات نہیں۔ اس مقصد کے لیے مضبوط سیاسی قوت ِ ارادی اور قومی اتفاق ِ رائے درکار ہیں ، اور فی الحال یہ ہمارے ہاں موجود نہیں، اور نہ کبھی تھیں۔ 
بدعنوانی اور دیگر مالیاتی جرائم کے خلاف لڑنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں، لیکن سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا اور دیگر ممالک کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے اس سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ ان ممالک نے حالیہ برسوں میں بدعنوانی کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ملک سے بدعنوانی کو جڑسے اکھاڑنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات اٹھانے کا وقت آگیا ہے، اب مزید ٹال مٹول نقصان دہ ہوگا ۔ جب تک ریاستی ادارے سیاسی گرفت سے آزاد نہیں ہوں گے اور بے لاگ احتساب اوپر سے شرو ع نہیں کیا جائے گا،ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نہیںہوگا۔سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں، اعلیٰ سول اور ملٹری افسروں، ججوں اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ملک میں اور بیرونی ممالک میں چھپائے گئے اثاثوں اور ان کی اعلانیہ دولت کے درمیان فرق کی چھان بین کون کرے گا؟
اس مقصد کے لیے جمہوری اورشفاف طرز ِعمل اپناتے ہوئے ایک خصوصی قانون کے تحت مشترکہ ''Parliamentary Standing Committee on Asset Disclosures & Investigation‘‘قائم کی جائے۔ اس میں تمام جماعتوں کے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران شامل ہوں۔ ضروری ہے کہ احتساب کا عمل نواز شریف صاحب کے گرد گھومتا دکھائی نہ دے اور نہ ہی اس سے سیاسی انتقام کی بو آئے ، لیکن بطور سربراہ، اس کا آغاز انہی سے کیا جائے۔ اُنھوں نے پہلے ہی خود کو اور اپنی فیملی کو ہائوس کمیٹی کے سامنے تفتیش کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا ، اس سلسلے میں جتنی جلدی ہوسکے ، پیش رفت ہونی چاہیے ۔ تاہم یہ کام سپریم کورٹ کے سپرد کرنے گریز کیا جائے کیونکہ فاضل عدالت پہلے ہی التوا میں پڑے ہوئے ہزاروں کیسز کا بوجھ رکھتی ہے ۔ تاہم آئین کی محافظ ہونے کے ناتے ، یہ کسی بھی تنازع میں حتمی منصف ہوگی، اور اگر کمیٹی کے ممبران کو گائیڈ لائن یا ہدایت کی ضرورت پیش آئے تو کسی بھی مرحلے پر فاضل عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ 
ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کرنے سے پہلے پارلیمنٹ اُن افراد کو سزا دینے کے لیے ایک قانون منظور کرے جو اپنے کالے دھن اور غیر اعلانیہ دولت کو بیرونی ممالک میں چھپائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال ان کالموں میں، میں نے یہی تصور جناب فنانس منسٹر کے گوش گزار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن موصوف نے نظر انداز کردیا۔ یہ پاناما انکشافات سے پہلے بھی ہمارا بہت بڑا مسئلہ تھا، اور اگر انکشافات کا سلسلہ رک گیا تو بھی مسئلہ اپنی جگہ پر موجود رہے گا۔ اس قانون کے تحت ایف بی آر کے لیے ضروری ہوگا کہ طلب کرنے پر عوامی نمائندوں اور ریاستی عہدیداروں کے گوشوارے ہائوس کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔ مجوزہ کمیٹی سول سرونٹ ایکٹ 1973ء ، آرمی ایکٹ 1952ء ، و دیگر قوانین،عوامی نمائندگی کا ایکٹ 1976ء ، سینیٹ (الیکشن ) ایکٹ 1975ء ، 2002ء سیاسی جماعتوں کے ضابطہ نمبر 4 کے تحت فائل کیے گئے گوشواروں کو انکم ٹیکس گوشواروں سے ملا کر دیکھے ۔ اگر ان میں کوئی تضاد یا کچھ چھپائے جانے کا معاملہ سامنے آئے تو کمیٹی الیکشن کمیشن آف پاکستان ، نیب، ایف آئی اے ، ایف بی آر، فوجی حکام کے علم میں اس تضاد یا غلط بیانی کو لائے تاکہ قانون کے تحت کارروائی عمل میںلائی جاسکے ۔ 
پاناما پیپرز اور دیگر انکشافات جوابھی تک کیے گئے ہیں یا مستقبل میں کیے جائیں گے ، سے ایک ہی شرمناک کھیل کا تسلسل دکھائی دیتا ہے کہ بدعنوان سیاست دان، عوامی عہدیدار اور مافیاز اس ریاست کے اداروں کو برباد کررہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ، ان افراد کے نہ ختم ہونے والے لالچ نے جمہوری نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ڈھٹائی یہ کہ اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتو فوراً جمہوریت کو لاحق خطرے کی دہائی دینا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ جمہوریت کو خطرہ صرف اور صرف ان کی بدعنوانی سے ہے ۔ تاہم بدعنوانی کے خلاف شروع کی جانے والی مہم کسی کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نہ کرے ، تمام طریق ِ کار قانون کے دائرے کے اندر ہو، اور اگر ممکن ہوسکے تو اسے میڈیا کی بریکنگ نیوز بننے سے بچایا جائے اور نہ ہی اس کا فیصلہ ٹی وی ٹاک شوز میں ہوتا دکھائی دے ۔ 
جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اور شفاف احتساب کے بغیر دونوں محض رسمی کارروائیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔ اگر قانون ساز غلط کاری کا ارتکاب کرتے پائے جائیں تو اُنہیں زیادہ سخت سزا ملنی چاہیے کیونکہ وہ عوام کے اعتماد اور وسائل کے محافظ ہوتے ہیں۔ کارروائی کا آغاز اس سے ہو کہ محترم فنانس منسٹر، جو ایف بی آر کے انچارج ہیں، ہائوس کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر وضاحت فرمائیں کہ ٹیکس افسران اُن ارکان ِ پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں قاصر ہیں جو انتہائی شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں لیکن ان کے گوشوارے نہایت معمولی آمدنی(جس سے ایک عام خاندان کا چولھا بھی نہ جلے ) ظاہر کررہے ہوتے ہیں؟یہ بات کوئی راز نہیں، ایف بی آر کی اپنی شائع کردہ ٹیکس ڈائریکٹریز 2013ء ،2014 ء اس بات کا ثبوت ہیں۔فنانس منسٹر یہ بھی بتادیں کہ ایسا کرنے میں ناکامی پر ایف بی آر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں کیوں نہیں لائی گئی؟ اس سوال کا جواب ہی اس کھلے راز سے مزید پردہ اٹھا دے گا کہ کس طرح سیاسی ماسٹرز اپنے مفاد کی خاطر ریاستی اداروں کو مفلوج کردیتے ہیں۔ اگر پاناما انکشافات کے بعد احتساب کے عمل نے انگڑائی لے کر جاگنے کا ارادہ کرہی لیاہے تو ایف بی آر کو بھی غفلت کی چادر اتارپھینکتے ہوئے ارکان ِ پارلیمنٹ، جنھوں نے اپنے اثاثے اور آمدن چھپائی، کے خلاف بے لاگ کارروائی کا آغاز کرنا چاہیے ۔ جب تک اس گھر سے صفائی کا عمل شروع نہیں ہوتا ، ہم ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ نہیں دے سکیں گے اور ہماری معیشت ہمیشہ کشکول بردار رہے گی۔ جب تک منتخب ارکان، عوامی عہدیداروں، سرکاری افسروں، جنرلوں، ججوں اور دیگر اشرافیہ سے ان کے بے پناہ اثا ثوں کی بابت جواب طلبی نہیں کی جاتی، ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، چاہے آپ جتنے مرضی انتخابات کرالیں ، جس مرضی نظام ِ حکومت کو آزما لیں۔ جب تک یہ مثال اوپر سے تحریک نہیں پکڑے گی، عوام ٹیکس اداکرنے کی طرف مائل نہیں ہوںگے ۔ اس مقصد کے لئے وزیر ِاعظم جتنی مرضی تقاریر کرلیں، جلسے کرلیں، عوام کو اکٹھا کرلیں، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوگا۔ ہمیں جذباتی جلسے نہیں‘ اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ بے گناہوں کا تحفظ اور قصوروار کو سزا ملنے کا کلچر ہمارے ملک میں بھی فروغ پاسکے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں