بجٹ 2016-17ء ..... ایک اور کار ِ لاحاصل

زیادہ تر پاکستانی تین جون 2016ء کو فنانس منسٹر، اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سن کر مایوس ہوںگے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بجٹ میں غریب شہریوں کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہوگا۔ سچی بات یہ ہے کہ اب پاکستانیوں کو کسی ریلیف کی توقع ہے بھی نہیں، چنانچہ مایوسی کیسی؟ مایوسی کی اصل وجہ جابرانہ ٹیکسز کے نظام کا تسلسل ہے جو نہ صرف عوام دشمنی کا مظہر بلکہ ملکی ترقی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ غیر منصفانہ ٹیکسز کے نظام کا بوجھ غریب اور متوسط طبقات پر بڑھتا جارہا ہے ۔ دوسری طرف امیر افراد بہت کم ٹیکس ادا کرنے کے باوجود غیر معمولی فوائد سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ 
گزشتہ تین برسوں کے دوران یہ بات کم و بیش ایک اصول کی طرح طے ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت کسی بھی صورت میں ٹیکس کے نظام کی اصلاح کرنے کی روادار نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں براہ ِ راست ٹیکسز بھی دراصل بالواسطہ ٹیکسز ہی ہیں۔ ان کی وجہ سے معیشت مفلوج اور تنخواہ دار طبقہ انتہائی پریشانی کا شکار ہے۔ حکومت معاشی ترقی کی شرح بڑھانے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ یہ معاشی پالیسی کے نام پر دراصل قرض دینے والے اداروں کے نسخے پر عمل کرکے بچت کا تاثر دے رہی ہے ۔پریس رپورٹس کے مطابق اہم ٹیکس تجاویزکی نوعیت شدید ہو گی۔ ان کی وجہ سے غریب افراد کی زندگی مزید اجیرن اور معاشی ترقی مزید سست ہوجائے گی۔ اس دوران قومی اسمبلی کے ممبران نے ''دیدہ دلیری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجٹ سے پہلے ہی اپنی تنخواہوں میں تین گنا اضافہ کرلیا ہے ۔ ان ممبران کا تعلق اُس ملک سے ہے جس کے ساٹھ ملین افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ خوراک کی کمی کا شکارہیں ، انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا ہے ۔ شتر ِ بے مہار، سفید ہاتھیوں کا غول ، بدعنوانی اور ناقص گورننس کے باعث پرتعیش زندگی بسر کرنے والی افسرشاہی ، ابھی اپنی سہولیات میں مزید اضافہ کرے گی۔ فی الحال حکومت کا غیر پیداواری اخراجات میں کمی لانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 
2016-17ء کا بجٹ اس طرح کا کیوں ہوگا؟ اس سوال پر حکومت اور اپوزیشن ، دونوں خاموش ہیں۔ فی الحال وہ پاناما انکشافات سے ہاتھ آنے والے پتھر ایک دوسرے پر برسا کر اپنا اپنا سیاسی قدبڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں نے ابھی تک یہ بھی نہیں سیکھاوہ مختلف شعبوں کو زیر ِ بحث لانے کے لیے اپنی صفوں میں موجود دستیاب افراد کی کمیٹیاں بنائیں، تاکہ جب بھی کوئی مسئلہ سامنے آئے تو اس سے متعلق کمیٹی ہی اُس پر غور کرے اور اس پر بحث کرے ، سب مچھلی منڈی کی طرح شور نہ مچانا شروع کردیں۔ اقتدار میں تیسرے سال تیسر ا بجٹ پیش کرتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کی حکومت حسب ِ دستور افسر شاہی اورفنڈز مہیا کرنے والے اداروں کی منشا کا خیال رکھے گی۔ اسحاق ڈار صاحب یہ اہم دستاویز تیار کرتے ہوئے کسی مرحلے پر بھی ملک کے معاشی ماہرین سے تجویز یا رائے لینے کی زحمت نہیں کرتے کہ پاکستان کو معاشی ترقی کی شرح تیز کرنے ، معاشی طبقوں کو استحکام دینے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے تاکہ سماجی انتشار، لاقانونیت اور مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکا جاسکے ۔ اُنھوں نے موجودہ غیر منصفانہ معاشی ڈھانچے کو درست کرنے کے لیے نہ خود کچھ کیا اور نہ ہی کسی سے رائے طلب کی۔بجٹ کا بڑھتا ہوا خسارا، غیر پیداواری اخراجات، کم ہوتی برآمدات، صنعتی ترقی کا شدید انحطاط، کساد بازاری، سرکاری اداروں کی نااہلی اور بدعنوانی معاشی ترقی کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے بجٹ میں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جائے گی۔ 
بجٹ سازوں کی زیادہ دلچسپی اندرونی اور بیرونی وسائل کے ذریعے اپنے کھاتے بیلنس کرنے میں رہی ہے ۔ یہ بیلنس فرضی بھی ہے اور غیر حقیقی بھی، لیکن پھر ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ اُنہیں اس بات کی مطلق پروا نہیں کہ2005ء کے بعد سے پاکستان کا عالمی برآمدات میں حصہ ہر سال صرف 1.45فیصد رہتا ہے ۔ایک حوالے سے برآمدات میں کمی کی ذمہ داری فنانس منسٹری پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ اس نے ریفنڈز روک کر برآمدکنندگان کو رقم کی کمی کے مسئلے سے دوچار کردیا۔ خدشہ ہے کہ آنے والے بجٹ میں پاکستان میں حقیقی ٹیکس پوٹینشل کو بروئے کار لانے کی کوشش دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ یہ بات ان کالموں میں بارہا کہی جاچکی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل آٹھ ٹریلین روپے سے کم نہیں۔ معاشی ترقی کو متاثر کیے بغیر اس ٹیکس کے حصول کا ماڈل ''پرائم انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے لیے لکھے گئے ایک پیپر''Towards Flat, Low-rate, Broad & Predictable Taxes‘‘ میں تجویز کیا گیا ہے۔ اس پیپرکوprimeinstitute.orgکی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس پیپر پر ڈاکٹر آرتھر بی لافر، جو مشہور معاشی اصطلاح ''Laffer Curve‘‘ کے خالق ہیں، کا مندرجہ ذیل تبصرہ ہے ۔۔۔۔'حزیمہ بخاری اور ڈاکٹر اکرام الحق کا وضع کردہ ٹیکس اصلاحات کا پلان پاکستان کے ٹیکس کے ڈھانچے کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک مثالی ٹیکس سسٹم کم از کم ٹیکس نرخوں پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ ٹیکس بیس کو ممکنہ حد تک بڑھایا جاسکے ۔ ایسے نظام میں لوگ ٹیکس چور ی یا درست آمدن کو چھپانے کا نہیں سوچیں گے ۔ مستحکم سرمائے، آزاد تجارت اور اخراجات پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ اس پیپرکی ٹیکس تجاویز پر عمل درآمد پاکستان میں معاشی ترقی اور خوشحالی کا نیا با ب رقم کرے گا۔‘‘
یہ پیپر تجویز کرتا ہے کہ کوئی ٹیکس ریفارمز اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک ٹیکس انتظامیہ کو مکمل طو رپر اوور ہال نہیں کردیا جاتا۔ ٹیکس انتظامیہ کی سربراہی روایتی سرکاری افسران کی بجائے پیشہ ور ماہرین کریں۔ اس دوران ایک آزاد ٹیکس اپلیٹ سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ واجب ٹیکس کا تعین کرکے درست طریقے سے ، نہ کہ من مانی اور جابرانہ ہتھکنڈوںسے، وصول کیا جائے ۔ ایف بی آر ٹیکس وصولی کی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ۔ اس کی ناکامی محض الزام نہیں، ہر سال گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چونکہ ایف بی آر فائلرز سے جابرانہ مطالبات میں اضافہ کرتا جارہا ہے ، اس لیے لوگ گوشوارے جمع نہ کرانے کوہی ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی سوچ یہی ہے کہ اگر ایک مرتبہ آپ گوشوارے جمع کرا کر پھنس گئے تو پھر محکمہ آپ کو نچوڑ لے گا۔ اس وقت ضروری ہے کہ ایف بی آر قوم کو بتائے کہ وہ مندرجہ ذیل افراد کے بارے میں کیا پالیسی رکھتا ہے :
٭کم وبیش اٹھارہ لاکھ پاکستانی تواتر سے غیر ملکی دورے کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے۔
٭سات لاکھ پاکستانیوں کے ایک سے زائد بنک اکائونٹس ہیں لیکن وہ ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
٭ایک لاکھ سے زائد افراد پرتعیش عالی شان گھروں میں رہتے ہیں اور آٹھ لاکھ کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں لیکن وہ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے ہیں۔
٭نوے ہزار افراد بھاری بھرکم یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں لیکن وہ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے۔ 
٭ دولاکھ سے زائد افراد میڈیسن، انجینئرنگ اور قانون کے شعبوںسے منسلک ہیں ، لیکن اُن میں سے تیس فیصد سے بھی کم ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ 
٭پچیس لاکھ افراد کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہے لیکن اُن میں سے صرف آٹھ لاکھ چالیس ہزار افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ کیوں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں