نیا این ایف سی ایوارڈ کہاں ہے؟

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ اس وقت ساتواں این ایف سی(نیشنل فنانس کمیشن)جاری ہے، 2016-17ء کے بجٹ کا خلاصہ یہ کہتا ہے کہ ''آٹھواں این ایف سی ایوارڈ اکیس جولائی 2010ء کو تشکیل دیا گیا، لیکن ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ نواں این ایف سی چوبیس اپریل 2015ء کو تشکیل دیا گیا اور اس کی پہلی میٹنگ اٹھائیس اپریل 2015ء کو ہوئی، اور اس کے موضوعات کا جائزہ لینے اور سفارشات پیش کرنے کے لیے چار ورکنگ گروپس بنائے گئے‘‘عوام کے علم میں نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے یہ رویہ وفاقی حکومت کی افسوس ناک کارکردگی کا مظہر ہے۔ تاہم کسی نے بھی اسے نوٹ نہیں کیا۔ باخبر اور جاندار میڈیا ''رمضان پیکیج ‘‘ کی فروخت کے لیے شوبازی یا بغدادکے مناظروں کی طرز کے مباحثے کرا کے قوم کو مزید تقسیم اور تنائو کا شکار کرنے میں مصروف ہے۔ 
محترم فنانس منسٹر نے قوم کو اطلاع دی ہے کہ بجٹ 2016-17ء میں ''صوبوں کے حصے کے وسائل ساتویں این ایف سی ایوارڈ، 2009ء کے مطابق طے پائے ہیں۔ ‘‘گویا 2016 ء میں 2009 ء کے این ایف سی ایوارڈ پر عمل ہورہا ہے ۔ اس کے باوجود صوبے اس پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ وفاقی محصولات اور ٹرانسفرز میں اُن کا حصہ 2016-17ء کے مالی سال میں تقریباً2135.881 بلین روپے ہے۔ یہ حصہ 2015-16 ء کے مالی سال کی نسبت 15.3 فیصد زیادہ ہے ۔ بظاہروفاقی اور صوبائی حکومتیں بنیادی معاشی انصاف اور مرکز اوروفاقی اکائیوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کے معاملے کو زیر بحث لانے کی زحمت نہیںکرتیں حالانکہ یہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔ 2009 ء میںوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر ''اطمینان ‘‘ کا اظہار کیا۔ اس پر ہونے والے اتفاق ِرائے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ یہ ہمارے حکمران طبقوں کا کھوکھلا پن تھا کہ وہ وفاق کو درپیش اصل مسئلے کو سمجھنے میں ناکام رہے ۔ یہ ایشو ز نہ صرف آرٹیکل160 کے تحت اکٹھے کیے گئے محصولات کی تقسیم کا درست فارمولہ طے کرنے کی بابت تھے بلکہ مالیاتی حقوق کا جائزہ لیا جانا بھی درکار تھا۔ 
آئین کا آرٹیکل 160 صوبوں کے درمیان وصول شدہ ٹیکسز کی تقسیم کاکوئی مخصوص فارمولا تجویز نہیں کرتا، لیکن یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مساوی تقسیم کا تقاضا کرتا ہے۔ مسئلہ ٹیکسز اور وسائل کی افقی یا عمودی تقسیم ، جس کے لیے نویں این ایف سی ایوارڈ میں چار ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے تھے، کا نہیں بلکہ صوبوں کو مکمل خودمختاری دینے کا ہے تاکہ وہ اپنے دائرہ کار میں آنے والی اشیا اور خدمات پر ٹیکسز لگا سکیں۔ اس وقت مرکز صوبوں کوکچھ سروسز کی گراس ویلیو پر انکم ٹیکس لگانے کی اجازت نہ دے کر آئینی حقوق دینے سے انحراف کررہا ہے ۔ اس کے بعد حاصل کردہ اُن ٹیکسز ، جو دراصل صوبوں کے ہی ہوتے ہیں، میں سے کچھ ''مونگ پھلی کے دانے‘‘ انہیں دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ یہ افسوسناک ایشو ہے جس کا فی الفور تدارک ہونا چاہیے ۔ صوبوں کی اپنے وسائل پردسترس اور پھر انہیں نچلی سطح تک منتقل کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح پرخرچ کرنا وہ اصل مسئلہ ہے جس پر پارلیمنٹ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔صرف اس طریقے سے ہی کم ترقی یافتہ علاقوں اور وسائل سے محروم افراد کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے، نیز حکمرانوں کو من مانی کرنے سے بھی اسی طریقے سے روکا جاسکتا ہے۔ 
صوبوں کو اپنی پیدا کردہ اشیا پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کے حق سے محروم کرنا ہمارے آئین کی بنیادی خامی ہے۔ آزادی سے پہلے صوبے یہ حق رکھتے تھے، لیکن 1948ء میں دستورساز اسمبلی نے صوبوں سے یہ کہہ کر حق عارضی طور پر لے لیا کہ جیسے ہی مرکز کی مالی حالت بہتر ہو گی، اُنہیں یہ حق واپس لوٹا دیا جائے گا۔ تاہم یہ وعدہ آج تک پورا نہ ہوسکا اور نہ ہی کسی صوبے نے اس کے لیے آواز بلند کی ۔ ا مریکہ، کینیڈا اورانڈیا سمیت تمام اہم فیڈریشنز میں وفاقی اکائیاں اپنی اشیا اور خدمات پر ٹیکس لگانے کا اختیار رکھتی ہیں۔ تاہم پاکستان میں سیلز ٹیکس وفاقی ادارہ ، ایف بی آر وصول کرتا ہے ، اور اس کی وصولی بھی حقیقی پوٹیشنل سے بہت کم ہوتی ہے ۔ من مانی کرتے ہوئے بھاری بھرکم اور غیرمنصفانہ ٹیکسز عائد کرنے اور صوبوں کو اُن کا حق نہ دینے کے باوجود وفاق مالیاتی خسارا کم کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ اگر صوبوں کو اپنے وسائل خود پیدا کرنے کی اجازت دی جاتی تو موجودہ مبہم صورت ِحال سے بچا جاسکتا تھا۔ 
بلوچستان کے پاس اپنی قدرتی گیس اور خیبر پختونخوا کے پاس اپنی بجلی پرسیلز ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے تھا(یہ صرف دومثالیں ہیں)۔ اس کی وجہ سے یہ صوبے بہت خوشحال ہوسکتے تھے۔ ان کا سیلز ٹیکس میں موجودہ حصہ بالترتیب نو اور چودہ فیصد ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہ صوبے قدرتی وسائل ، تیل، گیس اور بجلی، کے اعتبار سے مالا مال ہیں لیکن اپنی کم آبادی کی وجہ سے وہ اپنی ہی پیدا کردہ چیزوں سے کم حصہ لے پاتے ہیں۔ یہی صورت ِحال سندھ کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ شاید ٹیکسز کی غیر منصفانہ تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو ہوتا ہے ۔ یہ تقسیم کے فارمولے کے تحت 53 فیصد حصہ وصول کرتا ہے (اس کا 2016-17ء کا حصہ ایک ٹریلین روپے تک متوقع ہے)۔ اس مستقل عدم توازن نے مرکزاور صوبوں کے درمیان مخاصمت اورتنائو کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ 
اگر پاکستان غربت اور قرض کے جال سے نکلنا چاہتا ہے تو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا طے کیا جانا چاہیے ۔ ٹیکسیشن کے حقوق، اور وسائل کی درست تقسیم کے بغیر صوبائی خودمختاری کا تصور بے معنی ہے ۔ تمام قوم کی خوشحالی اور ہم آہنگی کے لیے صوبوں کے پاس مالیاتی خودمختاری اور اپنے وسائل تک دسترس کا حق ہونا چاہیے۔ مقامی حکومتوں کا مقصد ان وسائل کی عوامی نمائندوں کے ذریعے تقسیم ہوتی ہے ،اور یہی چیز عوام اور ریاست کے درمیان تعلق کو بڑھا کر ریاست کو مضبوط کرتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں