محض اشرافیہ کے لیے

ہماری افسر شاہی اور سیاست دان انتہائی فعال ہوتے ہیں، خاص طور پر جب اُنھوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا یا خو د کو مالی فائدہ پہنچانا ہوتا ہے ۔ چونکہ غیر منقولہ اثاثوں، جیسا کہ جائیداد، پر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے آزاد پینل کا کھلی مارکیٹ کے مطابق قیمت پر تعین کردہ کیپٹیل گین ٹیکس پاکستان کے طاقتور حلقوں کے لیے قابل ِ قبول نہیں، اس لیے محترم فنانس منسٹر نے فوری طور پر اُن سے ملاقات کی اور فوری طور پر نافذ العمل انکم ٹیکس آرڈیننس (ترمیمی بل) 2016 ء کے ذریعے اُنہیں ریلیف دیا۔ یہ ہے ہمارے ہاں جمہوریت جو دولت مند اور طاقت ور حلقوں کا تحفظ کرتے ہوئے غریب اور کم آمدن والے افراد پر بالواسطہ ٹیکسز کا بوجھ لادتی ہے ۔ 
نیا آرڈیننس اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہماری اشرافیہ صرف یک نکاتی ایجنڈا رکھتی ہے ، جو کہ اپنی دولت میں اضافہ ہے ۔ طاقتور طبقہ ریاستی زمین کو کوڑیوں کے داموں حاصل کرکے مارکیٹ قیمت پر فروخت کرکے اربوں روپے کماتا ہے ، جبکہ عام پاکستانی ایک مناسب مکان بھی نہیں خرید پاتا۔ پاکستان میں سالانہ پانچ سے چھ ملین مکانات کی کمی سامنے آرہی ہے۔دوسری طرف حکومت کی پالیسیاں لینڈ مافیا، ڈویلپرز اور بلڈرز کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ۔ اب یہ مافیا خود پر عائد کردہ ٹیکس کا بوجھ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء میں نئی شامل کردہ شقوں، 7C & 7D کے ذریعے خریداروں پر منتقل کردے گا۔ 
افسوس ناک بات یہ ہے کہ شہری، جن کے مالی وسائل قابل ِ ٹیکس آمدن سے کم ہیں، پر مجرمانہ طور پر وودہولڈنگ ٹیکس عائدکیا گیا ہے ، جو ستر سے زائد اشیاپر ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اُن کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے حاصل کردہ فنڈزسیاسی اشرافیہ، سول اور ملٹری بیوروکریسی، جج، صدر ِ مملکت، وزیر ِاعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزرا، ارکان ِ قومی و صوبائی اسمبلی پر بے دریغ خرچ ہوتے ہیں۔2015-16ء کے مالی سال کے دوران اس اشرافیہ کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات پر 1200 بلین روپے خرچ ہوئے ۔ صرف یہی نہیں، یہ فضول خرچ طبقہ ٹیکس دینے کا مطلق روادار نہیں۔مزید یہ کہ یہ اشرافیہ الاٹ کردہ پلاٹس پر سیکشن 13(11)، جبکہ اسے 4(b), 39(1)(j) اورانکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ء کی شق 68 کے ساتھ ملا کرپڑھیں ، کی کھلی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ اس سیکشن کے مطابق۔۔
"Where, in a tax year, property is transferred or services are provided by an employer to an employee, the amount chargeable to tax to the employee under the head "Salary" for that year shall include the fair market value of the property or services determined at the time the property is transferred or the services are provided, as reduced by any payment made by the employee for the property or services"
قومی اسمبلی نے فنانس ایکٹ 2016 ء کے ذریعے سیکشن 68 میں ایک ذیلی شق (4) بھی شامل کردی ، جس نے اسٹیٹ بنک کے آزاد پینل کو یہ جائیداد کی قیمت کا آزاد مارکیٹ کے نرخوں کے مطابق تعین کرنے کا اختیار دے دیا۔ تاہم ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس نئے قانون کو غیر موثر کر دیا گیا۔ اس 
آرڈیننس نے جائیدادکی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار ایف بی آر کو سونپ دیا، نیز جہاں ایسے نرخوں کا تعین موجود نہیں، وہاں ڈی او(ریونیو) ان کاتعین کرنے کا مجاز ہوگا۔ یہ ترمیم یقینی طور پر دولت مند اشرافیہ کی سہولت کے لیے ہے۔افسوس، ایک مرتبہ پھر طاقتور طبقے سے واجب ٹیکس وصول نہیں کیا گیا۔ اب انکم ٹیکس آرڈیننس (ترمیمی) 2016 ء کہتا ہے کہ سی جی ٹی۔۔
shall be reduced by fifty percent on the first sale of immovable property acquired or allotted to ex-servicemen and serving personnel of Armed forces or ex-employees or serving personnel of Federal and Provincial Governments, being original allottees of the immovable property, duly certified by the allotment authority.
یہاں شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اعلیٰ افسران کو رعایتی نرخوں پر پلاٹ کیوں دستیاب ہیں، اُنہیں ٹیکس کی چھوٹ بھی حاصل کیوں ہوتی ہے جب وہ ان پلاٹوں کو فروخت کرتے ہیں؟ایک افسر کو اپنا مکان بنانے کے لیے رعایتی قیمت پر پلاٹ دیا جاسکتا ہے لیکن فروخت کے لیے نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو شہری پوچھ سکتے ہیں کہ سہولیات سے استفادہ کرنے والے یہ افسران ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے؟یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کا سیکشن 111 غیر وضاحت کردہ سرمایہ کاری اور اخراجات سے متعلق ہے ،لیکن انکم ٹیکس آرڈیننس (ترمیمی) 2016 ء بل اس شق کو بھی غیر موثر کردیتا ہے کیونکہ اصل قیمت خرید کی بجائے ایف بی آر کے تعین کردہ نرخوں کو درست سمجھا جاتا ہے ۔ کیا یہ رعایت ٹیکس چوروں کو ایک اور چھوٹ دینے کے مترادف نہیں ؟فنانس منسٹر، اسحاق ڈار کا دعویٰ درست نہیں کہ کسی کو رعایت نہیں دی گئی ۔ حقیقت سب کے سامنے اور محترم وزیر کے دعوے کے برعکس ہے ۔
کئی سال پہلے ایف بی آر کے سابق رکن، عبدالحفیظ شیخ نے اُس وقت کے فنانس منسٹر کو خط لکھا تھا کہ اعلیٰ افسران کو الاٹ کردہ سرکاری زمین کی وجہ سے ٹیکس چوری ہوتی ہے ۔ تاہم اس پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ اب ایک مرتبہ پھر سینیٹر اسحاق ڈار ٹیکس کے نقصانات کم کرنے اور طاقتو ر حلقوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی بجائے اُنہیں مزید رعایت دے رہے ہیں۔ پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں شہری برابر نہیں ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں