کاروباری حکمران اور سیاست

افلاطون نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "Republic" (جمہوریہ) میں لکھا کہ کسی بھی ملک کی بربادی تب ہوتی ہے جب کوئی تاجر، جس کا دل لالچ و طمع سے بھرا ہو، حکمران بن جائے ۔ یہ بات آج کے پاکستان پر بالکل صادر آتی ہے۔ بلکہ اس سے ایک ہاتھ آگے، یہاں وہ تاجر حکمران ہیں جو کاروباری اجارہ داری کے لیے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوںمیں حالیہ اور گزشتہ فیصلوں میں اس کا ذکر ہی نہیں، ثبوت بھی موجود ہے ۔ اس کے باوجود نہ کوئی سزا، بلکہ انعام، کہ تیسری بار وزیر ِاعظم منتخب ، اور ہر انتخاب میں فتح کے نعرے۔ 
سیاست اور شوگر مافیا کا گٹھ جوڑ بلکہ سیاست اور شوگر مافیا کا راج پاکستان میں ایک حقیقت ہے، اور کا اس کا اظہار اب برملا عدالتوں میں بھی ہونے لگا ہے جہاں، اجارہ داری کے خواہش مند سیاست دان ایوان ِ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں، اربوں روپے کے منافع کے لیے سرگرم ِ عمل ہیں۔ایف بی آر ایک طرف تو ٹیکس چوری کو روکنے میں ناکام ہے تو دوسری طرف حکمران اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے خلاف تادیبی کارروائیوں سے محکمۂ ان لینڈ ریونیو کو حال ہی میں لاہورہائی کورٹ نے منع کیا اور جہانگیر خان کی رٹ میں حکم امتناعی جاری کیا۔ اُن کو ایف بی آر نے 130ملین روپے کے واجبات کا نوٹس ارسال کیا تھا، اور 5 ستمبر 2016 ء کو اس کی ریکوری کرنے سے لاہور ہائی کورٹ نے منع کردیا۔قومی اسمبلی میں 9 ستمبر کو تقریر کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے الزام عائد کیا کہ باوجود اس کے کہ وہ حکمران خاندان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے خلاف ایف بی آر اور الیکشن کمیشن میں ریفرنس کے ذریعے غیر قانونی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ اُن کا الزام تھا کہ جس شوگر ملز کواُن کے نام منسوب کیا گیا ہے، وہ دراصل ہارون اختر کی ہے ، جو اس وقت وزیر ِاعظم کے خصوصی معاون برائے محصولات کام کر رہے ہیں۔ 
پاکستان میںسیاست اور کاروباراب یوں گھل مل گئے ہیں کہ سیاست دان پیشہ ور کاروباری جلاد اور اجارہ دار کا روپ اختیار کرگئے ہیں۔ ٹیکس دینے سے گریزاں اور ریاستی اداروں کے ذریعے اپنے کاروباری حریفوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے وہ من پسند طبقوں میں زمینیں بانٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ احتساب تو بہت دور کی بات ہے ، وہ اس کا تذکرہ بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی کاروباری سلطنت کے پیچھے چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کی جرأت کرے ۔1990 ء سے لے کر آج تک اندرونی اور بیرونی اثاثوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود سیاست دانوں کا ٹیکس چند ہزار روپے سے آگے نہیں بڑھتا۔ 
ایف بی آر کی طرف سے حالیہ ٹیکس ڈائریکٹری برائے 2015ء میں وہی حالات ہیں جو 2013 ء اور 2014 ء میں تھے ۔ آرٹیکل 77 کے مطابق ٹیکس عائد کرنے کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کو ہے، لیکن حالت یہ ہے کہ خود نمائندگان ِ ایوان ِ زیریں اور بالا، اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان ٹیکس کے معاملے میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ ٹیکس گزاروں کے پیسوں سے غیر معمولی مراعات کے خواہاں ، اور اس کے علاوہ ٹیکس قوانین کے اندر بے شمار فائدے ،اور پھر ایس آر او کی دنیا۔ یہ ہیں ہمارے حکمران جو خود دولت کے انبار پر انبار جمع کرنے کے لیے دن رات ایک کیے دیتے ہیں، اور غریب سے ووٹ لے کر اُن کو بدلے میںصرف بھوک وننگ دیتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں