درد مندوں کا شہر…ملتان

گرد‘ گرما‘ گدا ‘و گورستان ...
عام طور پر ملتان کی یہی چار نشانیاں بتائی جاتی ہیں لیکن میں نے یہاں دو دن گذارے تو انکشاف ہوا ایک خصوصیت اور بھی ہے ...دردمندی۔دردمندی کی سب سے بڑی نشانی ملتان کا ایک گھر ہے جہاں دوسو سے زائد بچے رہتے ہیں۔یہ بچے انسانی ضمیر کا سب سے بڑا امتحان ہیں۔ وہ معصوم جو زندگی کے ستم سہنے کے لیے اکیلے رہ گئے ۔یتیم ہونا کتنا بڑا دکھ ہے اس کا احساس ہم نہیں کرسکتے۔ ہم جو اس درد سے گذرے ہی نہیں۔ ملتان کا ایس او ایس(SOS) ولیج۔ 
مسز ثریا انور کی سربراہی میں یہ ادارہ پاکستان کے مثالی اداروں میں سے ہے۔ ہزاروں یتیم بچے کہتے ہیں کہ ثریا انور پاکستان کی سب سے اچھی ماں ہے۔' ' ہم نے اپنی ماں نہیںد یکھی‘ لیکن وہ ثریا انور سے اچھی تو نہ ہوگی...‘‘ لاہور ایس او ایس تو میں کئی بار گیاجہاں لبنیٰ کامران لاشاری اور زرقا طاہر ہمہ وقت بچوں پہ محبت نچھاور کرتی ہیں لیکن ملتان ایس او ایس میں آنا پہلی بار ہوا۔ ایثار کی ایک عجب سی مہک تھی۔ مہناز فرید کی بانہوں میں پناہ لیتے ہوئے بچوں کو دیکھا تو مجھے اپنی ماں یاد آنے لگی۔ وہ بھی مجھ سے ایسا ہی پیار کرتی تھی ۔ اگرکسی کو دیکھنا ہو کہ ماں اور ماں کی ممتا کیا ہوتی ہے تو وہ ایس او ایس(SOS) کا رخ کرے ۔ لبنیٰ ‘ زرقا‘ مہناز... ان عظیم خواتین سے مل کر انسانیت پر اعتبار آجائے گا۔ 
ان دو دنوں میں بیسیوں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ کون کہتا ہے کہ دنیا خیر سے خالی ہوگئی۔ نشتر میڈیکل کالج‘ جسے حال ہی میں یونی ورسٹی کا درجہ ملا‘ کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفیٰ کمال پاشا ۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر بننا اعزاز کم اور امتحان زیاد ہ ہے۔ صبح و شام ایک ہی دھن ہے کہ یہ ادارہ کسی سے کم نہ ہو۔ مجھے نشتر کے وہ دن یاد آنے لگے جب پروفیسر حیات ظفر یہاں کے پرنسپل تھے۔ شفیق ‘ خلیق اور مہربان۔جن کے سیکڑوں شاگرد ساری دنیا میںپھیل گئے۔جن کی نیکیوں کا کچھ حصہ نجانے کب تک پروفیسر حیات ظفر کے مرقد پہ سایہ فگن رہے گا۔ وائس چانسلرکے دفتر میں پروفیسر افتخارحسین بھی تھے ۔ افتخار سرجن ہے۔ رفو گر۔ زخم کو یوں سیتا ہے کہ درد کا احساس نہیں ہوتا۔ جب اس نے ایف آر سی ایس کی ڈگری حاصل کی تو برطانوی پروفیسر نے کہا یہیں رہ جائو۔دولت بھی ہے ‘ شہرت بھی لیکن اس کا شہر اسے واپس بلا رہا تھا۔ اس نے ایک لمحہ بھی توقف نہ کیا اور واپس لوٹ آیا۔ میں ان دنوں محکمہ صحت میں ڈپٹی سیکرٹری تھا۔افتخار میرے پاس پہنچا۔وہ نشتر میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر لگنا چاہتا تھا۔ آج بہت عرصہ بعد افتخار کو دیکھا تو یاد آیا اس کے پہلے تقررنامے پہ میرے ہی دستخط ثبت ہوئے تھے۔ نشتر یونی ورسٹی کے بعد بہائو الدین زکریا یونی ورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر اور سٹاف کے ممبران سے ملاقات ہوئی...یہ سب لوگ استاد کے روپ میں فرشتے ہیں۔کاش ہم ان کے رتبے کو پہچان سکیں۔ ان دونوں جگہوں پہ طلباء طالبات سے خطاب کا موقعہ بھی ملا ۔ موضوع تو ایک ہی تھا '' امید‘ امید اور امید‘‘ طلباء اور طالبات کی چمکتی ہوئی روشن پیشانیاں اور نگاہوں سے پھوٹتی ہوئی روشنی ۔ کون کہتا ہے پاکستان کا مستقبل تابناک نہیں۔
رات کے کھانے پر چیمبر کے صد ر جلال الدین رومی نے بہت سے دوست اکٹھے کرلیے ۔ سب کے سب صنعت کار اور کاروباری لیکن کسی نے بھی اس موقعہ پر کاروبار کی بات نہیں کی۔ آج کیا خریدا‘ کیا فروخت کیا۔ نفع کس میں ہے ‘ نقصان کس میں۔یہ مو ضوع ہی نہ تھا۔ سب اس غم میں پریشاںکہ بندگی کا حق کیسے ادا ہو ۔ خدا کی راہ میں کیا دیں ۔کوئی ایسی شے کہ بس'' وہ‘‘ راضی ہو جائے ۔ رومی صاحب نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ شہرکے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ رومی صاحب جتنا کماتے ہیں اتنا ہی بانٹ دیتے ہیں لیکن وہ کہنے لگے لوگوں کو علم ہی نہیں‘ بانٹنے والا تو کوئی اور ہے ۔ ہاں شاید وہ درست ہی کہتے ہیں ؎
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
سید اعجاز شاہ‘ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ اور فیصل ۔ ان لوگوں کا ذکر بھی نیکی ہے۔ شہر میں خیر کا آغاز انھی سے ہوتا ہے۔ ملتان میں یہ دو دن فرید لغاری کے پاس گزرے جو کل تک ایک اور طرح کی زندگی گزارتا تھا لیکن اب ایک اور کیفیت میں ہے ۔ خدا کی رحمت جب کسی کو اپنی آغوش میں لیتی ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ اس سفر کا سہرا ملتا ن کے نوجوان کمشنر بلال احمد بٹ کے سربندھتا ہے۔انھوں نے ہی یہاں آنے کی دعوت دی اور سارا اہتمام کیا۔ بلال بہت ذہین اور خو ب صورت انسان ہے۔ اس نے شہر کی ایک تصویر بنا رکھی ہے اور اس تصویر میں ہر روز نئے نئے نقش و نگار کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اس نے وہ ساری اچھی اچھی باتیں بتائیں جو اب تک ہو چکیں اور پھر ان نئے منصوبوں کے بارے میں بھی بتایا جو وہ وزیراعلیٰ کو بھجوا چکا ہے۔ ''ملتان حکومت کی ترجیحات میںسرِ فہر ست ہے‘‘۔ بلال نے بہت اعتماد سے کہا۔ ہم افسروں کو اور حکومتوں کو برا کہتے ہیں لیکن ملتان کے درودیوار دیکھ کے ان سب کی تعریف کرنا پڑتی ہے۔ گورنر پنجاب کا تعلق بھی یہیں سے ہے ۔دکھ اور درد کی کہانیاں سنتے ہوئے میں نے کئی باران کی آنکھیں بھیگتی ہوئی دیکھیں۔ خوش خلقی اور دردمندی میں بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ ہوں گے۔ گورنر اپنے شہر میں ذہنی امراض کا ایک ہسپتال بنانا چاہتے ہیں۔ جگہ ڈھونڈی جاچکی ۔ رقم کا بندوبست بھی ہوچکا۔ بس اب تعمیر کا انتظار ہے۔ایس او ایس کی طرح ایک اور گھر!
گرد‘ گرما ‘ گدا‘و گورستان...یہ چار چیزیں ملتان کی پہچان ضرور ہیں لیکن ان پہ مستزاد ایک شے اور بھی ہے‘ دردمندی!
کوئی اس شہرِ بے مثال کے لوگوں سے مل کے تو دیکھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں