سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا… (14)

سیلاب زدگان اور بارش سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ ابتدائی تخمینے بہت پیچھے رہ گئے۔ دور دراز سے اندوہناک خبریں آنے لگیں تو احساس ہوا کہ نقصانات کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ کون جائے گا ان دور دراز علاقوں میں۔ کون سنے گا ملبے کے ڈھیر میں سسکتی آوازوں کو۔ حکومت کے محدود وسائل شاید اس قابل نہ ہوں کہ اتنے لوگوں کو ڈھونڈ سکے یا ان کی مدد کرسکے۔ سماجی اور فلاحی ادارے کب کے میدان میں نکل چکے تھے۔ اب تو ہر گھر سے لوگ متاثرہ لوگوں کے پاس پہنچ کر مدد کرنا چاہتے تھے۔ کھانے پینے کی اشیا‘ کپڑے‘ ادویات‘ ٹینٹ‘ صاف پانی۔ جس کے بس میں جو کچھ تھا اس نے پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ایک زندہ سماج کا اندازہ اکثر اوقات مشکلات میں ہی ہوتا ہے۔ دکھ اور مایوسی اپنی جگہ۔ ایثار کی ان گنت کہانیاں ہر طرف ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں۔
ملک بھر سے بہترین فلاحی ادارے نئی مثال قائم کرنے لگے۔ کھانے پینے کی کمی نہ ہوئی۔ جگہ جگہ کیمپ لگ گئے۔ خیموں کے شہر بسنے لگے۔ اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاحی اداروں میں باہمی روابط کی کمی ہے۔ معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقوں میں زیادہ مدد پہنچتی ہے اور کئی علاقوں میں لوگ انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں کے اگلے سفر سے پہلے فیصلہ ہوا کہ بیسیوں میں سے چند بڑے اداروں سے رابطہ کیا جائے اور باہمی اشتراک سے ایسی حکمتِ عملی بنے جس کے تحت ہر جگہ کسی نہ کسی ادارے کا پہنچنا ممکن ہو سکے۔ ان اداروں کو جمع کرنے میں سب سے اہم کردار چودھری محمد سرور کا تھا جو دو دفعہ پنجاب کے گورنر رہے لیکن جب بھی کوئی مشکل وقت آیا انہوں نے سیاست سے بلند ہو کر ذاتی حیثیت میں ان اداروں کی مدد اور تعاون کا فیصلہ کیا۔ان کی طرف سے ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام ہوا جس میں الخدمت‘ بیت السلام‘ سیلانی ٹرسٹ‘ سرور فاؤنڈیشن‘ اخوت‘ لاہور انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز‘ الخیر فاؤنڈیشن‘ اسلامک ایڈ‘ اسلامک ریلیف‘ ایدھی فاؤنڈیشن‘ مسلم ہینڈز‘ مسلم ایڈز‘ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل اور شاہد آفریدی فاؤنڈیشن جیسے اہم اداروں کے سربراہان کو مدعو کیا گیا۔ ان تمام اداروں نے پاکستان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے پرچم تلے اکٹھا ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔پاکستان اگر مشکل میں ہے تو اس کا حل بھی اہلِ پاکستان کو ڈھونڈنا ہے۔ پاکستان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کا قیام دس سال پہلے وجود میں آیا تھا اور اس میں200 کے قریب چھوٹی بڑی تنظیمیں شامل ہیں۔ایثار اور رضاکاریت‘ ان کا ایک ہی مشن تھا اور ایک ہی منزل۔
اس نیٹ ورک کے قیام میں بھی کلیدی کردار چودھری محمد سرور کا تھا۔ نیٹ ورک نے سب سے پہلے کووڈ19 میں اپنی خدمات سرانجام دیں اور مجموعی طور پر پندرہ ارب روپے مالیت کے کام کیے۔ان میں کھانا کھلانا‘ راشن کی تقسیم‘ مالی امداد‘ میڈیکل ٹیسٹ‘ ادویات‘ ہسپتالوں میں طبی سازو سامان اور ضروری اشیاکی فراہمی شامل تھی۔ سرور فاؤنڈیشن نے صاف پانی کی فراہمی کے لیے غیر معمولی کام کیا۔ ڈاکٹر شکیل خان کی نگرانی میں کئی ہزار فلٹریشن پلانٹ نصب ہوئے۔ مختلف جیلوں میں بند قیدیوں کو اچھی خوراک اور میڈیکل کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ نیٹ ورک کی جانب سے وفاقی حکومت کو کروڑوں روپے کا عطیہ بھی پیش کیا گیا۔ ان بے لوث خدمات کے اعتراف میں گورنر ہاؤس لاہور میں ایک بہت خوبصورت یادگار تعمیر کی گئی جس میں ان تمام اداروں کے نام رقم کیے گئے۔ کسی ادارے کی جانب سے نام لکھنے کی درخواست نہیں آئی۔یہ تو محض اس لیے تھا کہ کچھ اور لوگ انہیں دیکھ کر اپنے عزم کو دوبالا کرسکیں۔ اس یادگار کا افتتاح صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے کیا۔ اس پر لکھی ہوئی ایثار کی کہانی لوگوں کے دلوں پہ ہمیشہ نقش رہے گی۔ کووڈ 19 کے بعد بھی اس نیٹ ورک میں مزید اضافہ ہوتا رہا اور نمایاں افراد کو صدرِ پاکستان اور گورنر پنجاب کی جانب سے اعزازی شیلڈ ز پیش کی گئیں۔کئی لوگوں کو شانِ پاکستان کا لقب دیا گیا۔ چودھری محمد سرور کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک بار پھر اسی جذبہ کا اظہار کرنا ہے۔ کووڈ ہو یا سیلاب اور بارشیں۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔جو درد مند ہیں وہ گھر نہیں بیٹھ سکتے۔ یہی وجہ تھی کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک بار پھر اسی جذبے کا اظہار ہوا۔ لوگوں نے اجتماعی اور انفرادی ہر دو سطح پر اپنے اپنے فرض کی ادائیگی کا عہد کیا۔ موجودہ سیلاب کے حوالہ سے اس تقریب میں کئی سو افراد مدعو تھے۔ قربانی کا عزم لیے‘ خدمت کے جذبہ سے سرشار۔ تقریب کے دوران کئی تقاریر ہوئیں۔ میری گفتگو کا کچھ حصہ یوں تھا :
''خواتین و حضرات!
موجودہ سیلاب اور بارشوں سے آنے والی تباہی سے کون آگاہ نہیں۔ میں جنوبی پنجاب بھی گیا‘ سندھ بھی۔ سجاول اور شاہ بندر بھی جو بحیرہ عرب کے ساحل کے قریب ہے۔ جہاں بسنے والے مچھیرے اب بھی زمانہ قدیم کے باسی نظر آتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ٹھٹھہ‘ اورماڑہ‘ لسبیلہ‘ اتھل اور اب بحیرین‘ مدین اور کالام کا ارادہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ ان بھائیوں کو اپنے گلے سے لگائیں جن کا سب کچھ لٹ گیا۔ کیا کہوں میں آپ سے؟ مال و اسباب کے لٹنے کی کہانی‘ مویشی بہہ جانے کی کہانی‘ گھر گر جانے کی کہانی‘ فصلوں کے زِیر آب آنے کی کہانی۔ یہ مالی نقصان تو پورے ہو جائیں گے لیکن اس معصوم بچے کی آنکھوں میں بسے خوف کاازالہ نہیں ہوسکتا جس نے اپنی ماں کو پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۔کتنی ماؤں کے بچے لہروں کی نذر ہو گئے۔ کتنی سہاگنوں نے اپنے خاوندوں کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے دیکھا لیکن کوئی انہیں بچا نہیں سکا۔ کتنے بھائیوں کے سامنے پانی کا پُر زور ریلا ان کے کم سن بھائیوں اور بہنوں کو بہا کے لے گیا۔ دولت کے زخم‘ مال و اسباب سے محرومی کے دکھ‘ یہ دکھ مٹ جائیں گے لیکن یہ تصویریں ان لوگوں کے ذہنوں سے کون مٹائے گا۔ ہم ان کی مدد کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی اس دل گرفتگی کا شاید کوئی سامان نہ کرسکے۔ اس اداسی اور اس تنہائی کا کوئی مداوا نہیں۔دنیا بھر میں نفسیاتی دکھوں کے علاج کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ شاید اب ہمارے اساتذہ کو‘ طالب علموں کو‘ دانشوروں کو‘ ادیبوں اور شاعروں کو بھی پہنچنا پڑے گا ان لوگوں کے پاس اور ان کے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہنا ہو گا کہ
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
ہم تمہاری آنکھوں سے آنسو پونچھیں گے۔ ہم تمہارے سر پر ہاتھ رکھیں گے۔ ہم تمہارا آنچل بنیں گے۔ مالی نقصانات کے ازالہ کے ساتھ ساتھ میں آپ کی توجہ ان جذباتی صدموں کی طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جن سے بچنے کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ یہ معصوم بچے جو والدین سے محروم ہو گئے۔ خوف‘ بے بسی اور غصے کے عالم میں بڑے ہوں گے۔ ان کی بے بسی اور ان کا غصہ شاید ان کے دل سے ایثار اور محبت جیسے احساس کو ختم کردے اور جس دل سے نرم خوئی اور محبت و الفت کا نقش مٹ گیا وہاں باقی کیا بچا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں