سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (24)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
لاہور واپسی کے بعد کچھ یاد نہ رہا۔ ایک بار پھر وہی آہ و بکا اور مدد کی آوازیں۔ مشکل وقت ابھی گزرا نہیں تھا۔ ہم نے دوبارہ کے پی کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اس سے قبل ہم بحرین‘ مدین اور کالام کی جانب جا چکے تھے۔ اس بار نوشہرہ اور چارسدہ کا ارادہ تھا۔ اور پھر اس سے اوپر دیر‘ تھل اور چترال۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ان علاقوں پہ بھی قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی تھی۔ وہی دو مہربان‘ میجر امان اللہ اور جنرل (ر) فیض جیلانی۔ اس بار فیصلہ ہوا کہ ہم لاہور سے آئیں گے اور وہ دونوں اسلام آباد سے۔ ہماری ملاقات پشاور انٹر چینج پہ پہنچ کر ہوئی جہاں سے واپس جی ٹی روڈ پر مڑکر ہمیں نوشہرہ پہنچنا تھا۔ نوشہرہ سے کچھ پہلے ایک شادی ہال میں کئی سو افراد جمع تھے۔ ہمیں ان کی کہانی سننا تھی۔ کہانی کیا تھی بے بسی کا اظہار تھا۔ یک دم پانی کی لہر آئی اور سب کچھ بہہ گیا۔ لوگوں نے مقامی اسسٹنٹ کمشنر تنویر احمد اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر کی تعریف بھی کی جنہوں نے سیلاب میں بہت کام کیا۔ سیلاب سے پہلے لوگوں کو ضروری سامان سمیت گھروں سے نکلنے پہ آمادہ کرنا مشکل تھا‘ ورنہ بہت سا مالی اور جانی نقصان ہو جاتا۔ اگر وقت پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں‘ سرکاری ملازم باتدبیر اور مؤثر ہوں اور لوگ تعاون کریں تو مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔ تنویر احمد‘ اسسٹنٹ کمشنر نوشہرہ سے بات ہوئی۔ ان کی گفتگو میں جوش اور اعتماد تھا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر کی کہانی تو اب بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کس بہادری سے اس نے لوگوں کو گھروں سے نکالنے کا کام کیا اور نہ صرف مال و اسباب بلکہ اَن گنت زندگیاں بچائیں۔
جس شادی گھر میں ہم جمع ہوئے اس کے مالک نے قربانی کا عجب مظاہرہ کیا۔ شادی گھر کی ساری عمارت کے دروازے سیلاب میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کھول دیے۔ کئی سو مرد‘ بچے اور خواتین اس شادی گھر میں سما گئے۔ یہاں تک کہ ان کے ضروری سامان اور جانوروں کو بھی جگہ مل گئی۔ یہی وہ جذبہ ہے جسے لوگوں نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے تعریف کی۔ شادی گھر بہت خوبصورت تھا۔ درودیوار رنگین اور منقش۔ ریشمی پردے اور چمکتا ہوا فرش۔ دینے والے نے شاید ایک لمحہ بھی نہ سوچا کہ یہ عمارت گندگی کا شکار ہو جائے گی۔ یہی مواخات ہے۔ دکھ درد میں کسی کے کام آنا۔ یہی ایثار ہے۔ ہم لاہور سے کئی سو لحاف اور رضائیاں لے کے گئے تھے۔ یہ بھی کسی درد مند کا عطیہ تھا۔ پہلے تو یہ تحفے پیش کیے گئے پھر لوگوں سے گفتگو شروع ہوئی۔ ان افراد میں پچاس کے قریب لوگ اپنے گھروں کی تعمیر کے لیے اخوت سے قرض بھی لے چکے تھے۔ چند ایک گھر مکمل بھی ہوگئے اور باقی تعمیر کے قریب تھے۔ دولاکھ کے قریب رقم کا یہ قرضہ اور چار سال میں واپسی۔ سود کے بغیر یہ قرضے ایک نعمت کی طرح تھے۔ ''ہم بہادر اور خود دار ہیں، ہم مانگتے نہیں، خود پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔ ہمیں یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی۔ جو لوگ مانگتے نہیں‘ خود پر بھروسہ کرتے ہیں‘ وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ کاش ہم ان بہادر لوگوں کی قدر کر سکیں۔ شادی گھر کے قریب ہی چھوٹی سی بستی بھی تھی جہاں کئی ایک گھر اکٹھے بن رہے تھے۔ وہاں جانے کی دعوت ہم کیسے قبول نہ کرتے۔ عجب سا منظر تھا۔ ایک ایک‘ دو دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھر جو کہیں چھ اور کہیں آٹھ فٹ پانی میں ڈوب گئے۔ اب وہ کمرے رہنے کے قابل نہیں تھے۔ ان سے کچھ ہٹ کر اسی صحن میں نئے کمرے یا پھر پرانے کمروں کو منہدم کرکے نئی تعمیر شروع کی گئی۔
اس بار البتہ ایک کام اچھا ہوا کہ کمروں کی بنیاد کو کم از کم چھے فٹ بلند کیا گیا۔ غلطیوں سے ہی انسان سیکھتا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہاں مسئلہ بارش نہیں بلکہ دریائے کابل سے آنے والا پانی تھا جو موٹروے کے نیچے بنی آبی گزر گاہوں سے نکل کے یہاں پہنچا۔ اس مستقل مسئلہ کا کیا حل ہے۔ نصف صدی قبل بنا وارسک ڈیم جس نے علاقے کو زرخیز بنا دیا۔ کیا یہ ڈیم بڑا ہو سکتا ہے یا اس کی باقاعدگی سے صفائی (desilting) ممکن ہے؟ کیا اس کے علاوہ کہیں اور پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب تو ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ پانی تو ہر سال آئے گا اور آنے والے سالوں میں بارشوں میں اضافہ بھی ہوگا۔ اگر اس پانی کو ذخیرہ نہ کیا گیا تو یہ منہ زور لہریں بستیوں کو اسی طرح روند کے گزرتی رہیں گی۔ لوگ اس بات سے آگاہ تھے۔ یہی سوال وہ بار بار پوچھتے اور یہی سوال ہم حکومت کے روبرو رکھنا چاہتے ہیں۔ اخوت کے ساتھیوں نے اس بستی کے علاوہ بھی کئی گھر دکھائے۔ لوگ ان سے والہانہ محبت کررہے تھے۔ محبت کا یہ اظہار ہمیں بھی تقویت دے رہا تھا۔ ایک ساتھی نے اس دوران ایک عجب کہانی سنائی۔
اس کا کہنا تھا کہ ہمیں 29اگست کی رات انتظامیہ کی طرف سے ہدایت ملی کہ شہر سے بہت دور ایک کیمپ میں تین ہزار کے قریب افراد کو کھانا پہنچانا ہے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور اتنے لوگوں کے کھانے کا انتظام کرنا اور بھی مشکل تھا۔ دال کی پندرہ دیگیں‘ چھ ہزار سے زائد روٹیاں اور تین ہزار سے زائد پانی کی بوتلیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلیں تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے۔ مختلف تنور والوں کو جگا کر ان سے رابطہ کیا گیا اور انتظامات شروع ہو گئے۔ دال‘ مرچ مسالے‘ روٹی‘ پانی۔ جب ہم نے سب کام مکمل کر لیا اور کھانا گاڑی میں رکھا جانے لگا تو اچانک ایک بابا جی کہیں سے آئے اور پوچھنے لگے ''بیٹا اتنا کھانا آپ کہاں لے کر جارہے ہو‘‘۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہے۔ ہم نے یہ روٹیاں پکوائی ہیں اور اب سیلاب میں گِھرے ہوئے بھائیوں اور بہنوں کو پیش کرنا ہے۔ بابا جی نے پوچھا یہ کتنی روٹیاں ہیں۔ ہم نے جواب دیا‘ چھ ہزار کے لگ بھگ۔ بابا جی نے تنور والے سے کہا: مجھے دس روٹیاں دے دو اور اپنی جیب سے پیسے نکال کر قیمت ادا کی اور پھر وہ دس روٹیاں ان چھ ہزار روٹیوں کے اوپر رکھ دیں۔ یہ کہہ کر کہ یہ میرا حصہ ہے‘ کسی حقدار کو دے دینا۔
ہم کھانا لے کر روانہ ہوئے۔ ڈیڑھ بجے رات سیلاب زدگان کے کیمپ پہنچے اور تین بجے تک کھانا تقسیم ہوا۔ لوگ ہماری توقع سے زیادہ تھے لیکن نہ کھانے میں کمی ہوئی‘ نہ روٹیوں میں۔ ہم سب خوش و خرم واپس لوٹ آئے یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ان دس روٹیوں کی برکت تھی کہ کھانے میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ اگلے دن ہم نے تنور کے اردگرد محلے میں ان بابا جی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ ان کو رات کی کہانی سنا سکیں لیکن تلاش کے باوجود وہ بابا جی پھر کبھی نظر نہیں آئے۔ ''ہم نے تو ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ جس سے بھی پوچھا اس کا یہی جواب تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں