سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(27)

تقریب کا پہلا حصہ اختتام کو پہنچا۔صدرِ پاکستان رخصت ہوئے۔ اعزازات کی تقسیم‘ تقریریں‘ کچھ سوال‘ کچھ جواب لیکن سیلاب زدگان کا ذکر ختم نہ ہوا۔ بیسیوں لوگ جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے آگاہ تھے وہاں موجود تھے۔ ہر شخص جاننا چاہتا تھا کہ ہمارے پاس طویل حکمتِ عملی کیا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ آفت پھر سے لوٹ کے آئے اور ہم تیار ہی نہ ہوں۔ یوں سیلاب اور بارشوں کی اصل وجوہات پر گفتگو شروع ہو گئی۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحول کی آلودگی۔ یہ دو اہم ترین موضوع تھے۔ انہیں سمجھے بغیر سیلاب اور بارشوں کی وجوہات کو سمجھنا مشکل ہے۔ کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مضرِ صحت گیسوں کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے۔ گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔زرخیز زمینیں کٹاؤ کا شکار ہیں۔ باغ صحرا بنے جاتے ہیں۔ اس کے نتائج بہت سنگین ہیں۔ زراعت‘ کاروبار‘صنعت‘ بودوباش اور رہن سہن سب کچھ خطرات کی زد میں ہے۔نسلِ انسانی کو اس سے پہلے ایسے خطرات لاحق نہ تھے۔ جو دس ممالک ان حالات کا سب سے بڑا شکار ہیں ان میں ہمارا وطن پاکستان بھی شامل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس (António Guterres) نے خود اعتراف کیا کہ کسی اور کی غلطیوں کی سزا پاکستان جیسے ممالک کو بھگتنا پڑرہی ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی‘ قحط کی سی صورت‘ سمندروں اور دریاؤں کے ساتھ زمین کا کٹاؤ‘ کبھی غیر معمولی خشک سالی اور کبھی غیر معمولی بارش۔لگتا ہے جگہ جگہ خزاں کا راج ہے۔ کیا ہم ان حالات سے مکمل آگاہ ہیں۔ اگر آگاہ ہیں تو کیا ان کا حل ہمارے پاس موجود ہے یا نہیں اور اگر حل موجود ہے تو کیا اس حل پر عمل کے لیے ہم کچھ کر رہے ہیں؟ سب سے اہم ذمہ داری تو حکومت کی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہم بحیثیتِ معاشرہ نگاہیں نہیں چُرا سکتے۔ دنیا کا مستقبل چند سیاستدانوں کو نہیں سونپا جاسکتا۔ ایک ماہر دانشور جناب شفقت کاکا خیل کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے میں بہت زیادہ سنجیدہ نہیں۔ شاید ہمیں ان مضر اثرات کا ادراک ہی نہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہو رہے ہیں۔ ہمارے اداروں کی انتظامی صلاحیتیں بھی ناکافی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں تعاون کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ 1992ء میں رِیو (Rio)میں ایک کانفرنس ہوئی لیکن اس کی سفارشات پر ہم عمل نہ کرسکے۔ ہم نے 2012ء میں ایک Climate Policy اپنائی لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
2008 میں Climate Changeپر پلاننگ کمیشن نے ایک ٹاسک فورس بھی بنائی تھی۔ا س ٹاسک فورس کی سفارشات پر 2012ء میں Climate Policy بنی لیکن نجانے یہ پالیسی کس سرد خانے کی زینت بن گئی۔ ان سفارشات پر عمل درآمد وزارتِ ماحولیات کی ذمہ داری تھی لیکن اس وزارت کو وسائل ہی مہیا نہ کیے گئے۔ وہ بھلا یہ کام کیا کرتے۔ اسی دوران اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپ دی گئی۔صوبائی حکومتوں میں ماہرین کی عدم موجودگی کی وجہ سے کسی کو سمجھ ہی نہ آئی کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کوئی معمولی موضوع نہیں۔ ہمارے ہاں اعلیٰ درسگاہوں میں ریسرچ کی کوئی سہولت ہی موجود نہیں۔ ہم نے وہ مضمون پڑھنا ہی چھوڑ دیے جن کا تعلق انسانی معاشروں کی تعمیر یا ماحول کے حسن وجمال سے ہے۔ اسی دوران وفاقی حکومت نے ایک قانون کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کی قومی کونسلNational Climate Change Council (NCCC) تشکیل دی جس کی سربراہی کسی اور کے نہیں خود وزیراعظم کے ذمے تھی۔ آج چار برس گزر گئے شاید کسی وزیراعظم نے کونسل کی کوئی میٹنگ ہی طلب نہ کی۔ہمارے چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز کیوں ہے؟ہم دنیا بھر کے مسائل کا حل جانتے ہیں لیکن ہماری اپنی ترجیحات میں غربت کا حل شاید سب سے نیچے ہے۔موسم کے سرد و گرم کی حقیقت کوکون سمجھے گا؟ اس تغیر کی تہہ تک کون پہنچے گا جو نسلِ انسانی کو تباہی کے دہانے پہ لے آیا؟
اس دوران اقوام متحدہ کے علاوہ جرمنی اور یوکے کی طرف سے بھی پاکستان کو کئی منصوبوں کی پیشکش ہوئی جو طویل تجربے اور دنیا بھر کی معلومات کا نچوڑ تھے لیکن کس کے پاس وقت ہے کہ سوچ بچار کرے۔ ہم اپنی ذات کے حصار سے کب نکلیں گے؟ کوئی دوراندیش‘ کوئی دوربیں ہمارے ہاں موجود ہی نہیں۔ اگر ہے تو بقول صدرِ پاکستان ایسی گاڑی میں بیٹھا ہے جس میں ایکسیلریٹر ہی نہیں۔ بس صرف ''بریک‘‘ ہے جو محض روکنا چاہتی ہے۔ یہ گاڑی تھوڑی دور چلتی ہے اورپھر لوٹ کے واپس وہیں آجاتی ہے جہاں سے چلی تھی۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر دنیا کے مختلف ممالک میں آئے دن کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ ہمارے وزرااور افسران ہر کانفرنس میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کچھ سیکھ کے آئیں اور نئے منصوبے متعارف ہوں یہ شرکت سیر و سیاحت تک محدود رہتی ہے۔ 2018 میں ایک اچھا کام ضرور ہوا جب آبی وسائل کی وزارت نے قومی آبی پالیسی (National Water Policy) تشکیل دی۔ اس پالیسی میں تمام صوبوں کی مشاورت بھی شامل تھی لیکن چار سال بیت گئے یہ پالیسی بھی ایک خوبصورت جلد میں ساگوان اور شیشے سے بنی چند الماریوں کی زینت ہے۔ 2020ء میں توانائی پر بھی ایک حکمتِ عملی بنی جس میں شمسی توانائی کی پیداوار بڑھانے پر زور دیا گیا لیکن اس حکمتِ عملی پر عمل کی بجائے شمسی توانائی کے آلات اور سامان کی برآمد پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا۔شمسی توانائی ایک بہترین حل ہے لیکن ہماری توجہ اس جانب بھی بہت کم ہے۔ ایک صاحب نے حیرت بھرے لہجے میں کہا: امریکہ ہو یا یورپ‘ہر جگہ کاروبار اور بڑی بڑی دکانیں شام سات بجے بند ہوجاتی ہیں۔ وہاں توانائی کی کوئی کمی نہیں لیکن پھر بھی سورج کی روشنی سے کام لیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں رات دس گیارہ بجے یا اس کے بھی بعد دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ صرف دکانیں ہی وقت پہ بند ہو جائیں‘ ڈیزل اور پٹرول کا ضیاع ختم ہو جائے تو کئی بلین ڈالر بچ سکتے ہیں اور ماحول کی آسودگی بھی بڑھ سکتی ہے۔
آپ شاید یہ سوال کریں کہ ان ساری باتوں کا سیلاب زدگان کی کہانی سے کیا تعلق ہے‘ لیکن یہی باتیں تو تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ہمارے وطن کا مستقبل انہی باتوں سے جڑا ہوا ہے۔ احتیاطی تدابیر نہ اختیار کی گئیں‘ پیش بندی نہ ہوئی‘موسم کی تبدیلی کو نہ سمجھا گیا۔روزمرہ کا معمول تبدیل نہ ہوا تو بارشیں اور سیلاب آتے رہیں گے۔ معیشت کوجھٹکے لگتے رہیں گے‘ غربت بڑھتی رہے گی‘گھر مسمار ہوتے رہیں گے۔ کھیتیاں اُجڑتی رہیں گی‘جمع پونجی لٹتی رہے گی۔ یہ شعر بھلا کس نے نہیں سنا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بارشیں‘ سیلاب ہمارے گناہوں کی سزا نہیں‘ یہ ہماری اپنی بھول کا نتیجہ ہیں اور سلطان سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے پاس اس کی ضرورت سے زائد ہے۔ اتنا کچھ کہ سنبھالا نہیں جاتا۔کیا ہم بھول گئے کہ دھرتی پہ جو کچھ ہے وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں