سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا…(29)

اسلام آباد میں دو دن رہنے کے بعد احساس ہوا کہ سیلاب کے بعد کے معاملات سیلاب سے بھی زیادہ نازک ہیں۔ ہمارا جذبہ شاید عارضی ہے۔ ہم نے ان لوگوں کو بہت جلدفراموش کردیا جن کے زخم ابھی تک رِس رہے ہیں۔ جن کی پکار ابھی مدہم نہیں ہوئی۔ کھلے آسمان تلے بیٹھے موسم کے رحم و کرم کے شکار وہ بہن بھائی۔شبِ غم ہے کہ گزرتی ہی نہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے بارے میں لکھا لیکن ہم شاید کسی اور کہانی کی تلاش میں ہیں۔ انہی دنوں میں نے سجاد اظہر صاحب کا ایک مضمون پڑھاجس میں کچھ ہوشربا تفصیلات پیش کی گئی تھیں۔ بہت سے لوگوں کو ان باتوں کا علم ہی نہیں۔
سجاد اظہر کا کہنا ہے کہ سیلاب کے نتیجہ میں جنم لینے والی صورت حال بہت گمبھیرہے۔ '' اقوام متحدہ نے جو نئی رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق ابھی تک صرف پندرہ سے بیس فیصد متاثرین تک امداد پہنچ سکی ہے یعنی باقی اسی فیصد متاثرین بے یارومددگار ہیں۔ دوسری طرف نیشنل میڈیا میں متاثرین کی کوئی خبر نہیں ہے۔ بیماری اور بھوک سے درجنوں اموات ہو رہی ہیں مگر سکرینوں پر صرف سیاست چل رہی ہے‘ ساری سیاست کرسی کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ یورپی یونین‘ عالمی بینک اور اقوام متحدہ نے مل کر جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 14.9 ارب ڈالر ہے جبکہ بحالی اور تعمیرِ نو پر 16.3 ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم درکار ہو گی۔ ان کی اطلاعات کے مطابق سندھ کے 32 اضلاع میں ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو ملیریا اور سات لاکھ کو ڈائریا کی تشخیص ہوئی ہے۔ بنیادی صحت کا نظام متاثر ہونے کی وجہ سے متاثرین کو دوائیاں تو درکنار پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے‘ صحت و صفائی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال میں سات لاکھ ستر ہزار لوگ جلدی امراض کا شکار ہو چکے ہیں ‘‘۔ کوئی قاصد نہیں جو درد کا یہ پیغام کہیں پہنچائے۔
''سیلاب سے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے‘ مرنے والوں کی تعداد 1730اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد 80 لاکھ ہے‘ 12 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے جس کا ساٹھ فیصد سے زائدعلاقہ متاثرہ ہے۔ ابھی تک دادو‘ خیر پور‘ میرپور خاص کے اضلاع میں پانی کھڑا ہے جہاں گندم کی فصل کاشت نہیں ہو سکے گی۔ غربت کی شرح میں مزید چار فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر مزید 91 لاکھ لوگ خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور اس میں 2.2 فیصد کمی کا اندیشہ ہے‘‘۔یہ کیسے اعداد و شمار ہیں۔کوئی ہے جس کی نیند اڑے۔ کوئی ہے جو آنسو بہانے کے بجائے میدانِ عمل میں کودے۔
''نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 16لاکھ بچے عدم غذائیت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی یو این ایف پی اے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں 16لاکھ خواتین زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ صحت عامہ کے مسائل اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے زچہ و بچہ کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔متاثرین کے پاس نہ رہنے کو چھت ہے نہ کھانے کو کچھ ہے۔ شروع کے چند ہفتوں میں امداد کا کچھ حصہ لوگوں تک پہنچا لیکن اب لگتا ہے انہیں بھلا دیا گیا ہے۔متاثرہ علاقوں میں جتنی خوراک کی ضرورت ہے‘ ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس اتنے وسائل اکٹھے نہیں ہو رہے۔
عارضی پناہ گاہوں سے متاثرین کو نکالا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ واپس کہاں جائیں گے۔ ان کے کچے گھر زمین بوس ہو چکے ہیں۔ ان کی فصلیں اور جانور‘ جو انہیں زندہ رکھتے تھے‘ وہ موجود نہیں۔ پناہ گاہوں سے نکالنے کے بعد وہ سڑکوں پر آگئے ہیں جہاں خواتین کی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔70 لاکھ خواتین اور بچے افلاس کا شکار ہیں‘ 55 لاکھ کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ قوم اور عالمی برادری نے ساتھ نہ دیا تو سردیوں کے اگلے تین مہینوں میں بھوک اور بیماریوں سے 20 لاکھ متاثرین موت کے منہ میں چلے جائیں گے‘‘۔
کیا یہ باتیں دل کی دھڑکنوں کو برہم کرنے کے لیے کافی نہیں۔ محترم مصنف نے مزید لکھا ہے کہ ''سیلاب زدگان کی اشک شوئی کے لیے شروع میں ملک گیر مہم شروع ہوئی توخیراتی اداروں نے ریلیف ورک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 82 اضلاع میں 30 لاکھ لوگوں کی مدد کی۔حکومت کی جانب سے بینظیر انکم سپورٹ فنڈ سے 27 لاکھ گھرانوں کو 25 ہزار روپے فی گھرانہ کے حساب سے امداد دی گئی۔الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبدالشکور کا کہنا ہے کہ 'میڈیا کی جانب سے متاثرین پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ 'آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا‘ معاملہ ہے۔ ہمیں متاثرین کی مدد کے لیے عطیات کی شدید ضرورت ہے تاکہ متاثرین کی صحت ‘ خوراک اور بحالی کے پروگراموں پر عمل کر سکیں لیکن ہمارے پاس مطلوبہ فنڈز موجود نہیں۔جب میڈیا متاثرین کو چھوڑ کر سیاست کے پیچھے لگ جاتا ہے تو خیراتی اداروں کی امداد بھی رُک جاتی ہے۔
ایک طرف پاکستان کو سیلاب سے براہِ راست 16 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے تو دوسری جانب سیلاب سے مجموعی طور پر پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا جھٹکا لگا ہے‘ کورونا سے پہلے ہی ہماری معیشت خراب ہے اور عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کی وجہ سے بھی پاکستان شدید معاشی ابتری کا شکار ہے۔ ان حالات میں پاکستان کیلئے بحالی اور تعمیر ِنو کا چیلنج مشکل تر ہو چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اپنے وسائل کو متاثرین کی بحالی اور قومی ڈھانچے کی تعمیر نو کی جانب موڑ سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف ماحولیات کی عالمی کانفرنس ‘جس میں سو سے زیادہ سربراہانِ مملکت شرکت کر رہے‘ میں خود بھی شرکت کررہے ہیں۔وہ عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان کے سامنے پاکستان کا مقدمہ بھی پیش کریں گے کیونکہ پاکستان کا کردار عالمی ماحولیاتی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم ہے اوردوسری جانب وہ ماحولیاتی آلودگی سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے‘‘۔
حرص و ہوس کے اس ماحول میں وزیراعظم کی کاوشیں یقیناقابلِ داد ہیں۔انہوں نے ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں اپنا نکتۂ نظربڑی جرأت سے پیش کیا لیکن سجاد اظہر کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کے شور میں سیلاب زدگان کی آواز ڈوب تو نہیں گئی؟
سردیوں کی آمد آمد ہے۔ ان باتوں کا کسی اخبار یا کسی چینل پہ ذکر نہیں۔ جناب عبدالشکور کی صدا نے کسی دروازے پہ لگا قفل نہیں توڑا۔ کیا غم زدوں کو اس طرح بھلایا جاتا ہے؟ کہیں دور سندھ ‘ بلوچستان ‘ کے پی یا جنوبی پنجاب کی کسی بستی سے رہ رہ کے کوئی درد بھری آواز اٹھتی ہے لیکن ہمارے کانوں تک نہیں پہنچتی۔میری جیب میں بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانی کی تحریر ابھی تک موجود تھی... ''صدر صاحب ایوانِ صدر سے بہت دور ڈیرہ مراد جمالی‘ سکھر‘ شکار پور‘ صحبت پور کے قریب سینکڑوں گھرانے خیموں میں پناہ لیے کسی کے منتظر ہیں‘‘۔میں دیر تک یہ تحریر پڑھتا رہا۔ پھر یہ لفظ معدوم ہوتے گئے اور ان کی جگہ غالب کا ایک شعر لکھا ہوا نظر آیا:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں