سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(33)

بنیتھنی ٹائجن نے گلوبل وارمنگ اور اس کے اثرات پہ قلم اُٹھا کے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بھی کی ہے اور ان اقوام کی بھی جو اِن سنگین جرائم کی مرتکب ہوئیں۔اس نے اپنی تحقیق میں مزید کہا '' موسمیاتی تبدیلیوں کے انتہائی خطرے سے دوچار ممالک کے وزرائے خزانہ کا نمائندہ گروپ اور امیر ممالک پر مشتمل جی سیون بھی اکتوبر 2022 ء میں موسمیاتی خطرات کے خلاف ایک معاہدے پر پہنچے تھے۔ گلوبل شیلڈ اگینسٹ کلائمیٹ رسکس (The Global Shield against Climate Risks) نامی معاہدے کے ذریعہ مالیاتی طریقہ کار بھی وضع کیا گیا تھا۔گلوبل شیلڈ کی توجہ ‘آفات کے بعد جلد از جلد انشورنس اور مالی امداد فراہم کرنے پر مرتکز ہے مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ فیصلہ بین الاقوامی بحث کا حصہ کیسے بنے گا۔اس حوالے سے بعض گروہوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ انشورنس پر انحصار غریب ترین لوگوں کو نظر انداز کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے خسارے اور نقصان کی تلافی کے لیے ایک خیراتی فنڈ قائم کرنے کی بحث سے توجہ ہٹ سکتی ہے۔
گلوبل وارمنگ سے اصل خسارہ کس کاہوا۔ یہ کتنا ہے اور اسے کون ادا کرے گا۔ اس پر بات کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک دو وجوہات کی بنیاد پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پہلی یہ کہ اس بات کا تعین کیسے کیا جائے کہ کون سے ممالک معاوضے کے اہل ہیں اور دوسرا یہ کہ ایسے طریقہ کار کی حدود کیا ہوں گی یعنی خسارے اور نقصان کے سبب مالی امداد حاصل کرنے والوں کا دائرہ کہاں سے شروع ہو گا؟ مختلف ممالک کو ان کے موجودہ اخراج یا مجموعی ملکی پیداوار کی بنیاد پر نقصان کے معاوضہ تک محدود کرنے کا عمل ایک مشکل اور پیچیدہ امرہے۔ایک دہائی قبل ترقی یافتہ ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو ہر سال ایک سو ارب امریکی ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھاتاہم اس عہد کو پورا کرنے میں سست روی سے کام لیا گیا اور دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جس تباہی سے دوچار ہے یہ رقم اس کی تلافی کے لیے ناکافی ہے۔ نقصان کے ازالہ کا طریقہ کار وضع کرنا عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی ناانصافیوں کا مداوا کرنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔سب کی نظریں مصر پر لگی ہوئی ہوں گی کہ عالمی رہنماؤں کا کیا ردعمل ہو گا‘‘۔
یہ مضمون بہت چشم کشا ہے۔اس مضمون میں جتنی باتیں زیر ِ بحث لائی گئی ہیں ہم ان سے آشنا ہی نہیں۔ کیا ہمیں مغرب کی اس پُر فریب حکمت عملی کا ادراک بھی ہے؟غریب اقوام کئی سوسال سے مشقِ ستم بن رہی ہیں۔ اہلِ مغرب نے پہلے تو ہمیں غلامی کی زنجیر میں جکڑا اور پھر لوٹ مار کے بعد لہو کا ہرقطرہ نچوڑ لیا۔ برطانیہ ‘ فرانس ‘ سپین ‘ پرتگال کس کس استعماری طاقت کا ذکر کریں۔ صنعتی انقلاب کے بل بوتے پہ دنیا میں جو دولت نظر آتی ہے وہ ان غلام ملکوں سے آئی جنہیں انہوں نے بزورِ شمشیر زیر کیا۔ کبھی خام مال کی صورت میں‘ کبھی غلہ اور زرعی اجناس کی صورت میں اور کبھی کڑیل جوانوں کی صورت میں۔ وہ جو عالمی جنگوں کا ایندھن بنتے رہے۔ آج انہی اقوام نے گلوبل وارمنگ کا تحفہ دے کر پوری دنیا کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ ہم پھر بھی جاہل‘ کم فہم اور غیر مہذب ٹھہرے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل خود اس امر کا بر ملا اعتراف کرچکے ہیں کہ دولت کمانے کی دوڑ میں مغرب نے ماحول کو کس طرح غارت کیا۔ غارت گرانِ فرنگ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا بھی تو کسی کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے مصر کے اس فورم پہ بہت جاندار تقریر کی۔ اپنے حقوق کے بارے میں اور مغربی ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں۔وہ بہت سے رہنماؤں سے ملے اور اس ناانصافی کا احساس دلایا جس کا ہم نشانہ بنے۔انہیں اس فورم کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔ دیکھتے ہیں ان کی اس ساری کاوش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
بنیتھنی کی طرح ماہرین نے سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کئی طرح کی تجاویز پیش کی ہیں۔انہوں نے اس مسئلہ کو سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی ‘ تکنیکی ‘ انتظامی ‘ مقامی اور بین الاقوامی ‘ کئی حوالوں سے دیکھا ہے اور مخصوص حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ساتھ عمومی تجاویز کو بھی سامنے رکھا ہے۔ ان سب کو اکٹھا کیا جائے تو کئی ضخیم کتب بن سکتی ہیں۔ لیکن ان کے مطالعہ سے کہیں زیادہ ہمیں عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بیرونی امداد ایک الگ کہانی ہے۔ ہم خود بھی تو کچھ کرسکتے ہیں۔ سلمان عابد جنہوں نے ان امور پہ کئی بار اظہارِ خیال کیا‘ کہتے ہیں کہ '' حادثات یا قدرتی آفات ایک فطری عمل ہیں۔ان سے نمٹنے کے لیے تنہا ریاست یا حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ معاشرے میں موجود رضاکاروں کو متحرک اورفعا ل کرنا بھی لازم ہے۔ جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ہم پہلے پہل بہت سرگرم نظر آتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی سانحہ گزرا‘ریاستی اور سماجی نظام سست پڑجاتا ہے بلکہ اس سانحہ کو مکمل طور پر بھلا دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں ایک مربوط ‘ مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت کا نظام درکار ہے پھر ہمیں این ڈی ایم اے(National Disaster Management Authority) ‘ پی ڈی ایم اے(Provincial Disaster Management Authority) اور ڈی ڈی ایم اے(District Disaster Management Authority) کو مستحکم کرنا چاہیے۔ ان میں ڈی ڈی ایم اے کی اہمیت سب سے زیادہ ہے کیونکہ قدرتی آفات سے نمٹنے میں بنیادی کردار بلدیاتی اور ضلعی ا داروں کا ہوتاہے۔وفاقی‘ صوبائی اور مقامی ماہرین کیایک گروہ کا قیام بھی ضروری ہے جو حکومت کو حکمت عملی کی تیاری میں مدد دے ‘عملدرآمد کے نظام میں نگران کا کردار ادا کرے اورتعمیراتی عمل میں بے قاعدگیوں کی روک تھام کے لیے تجاویز پیش کرے۔سیاسی جماعتیں انتخابی منشور میں اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔نصابی کتابوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی معلومات اور تحقیقی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔دنیا میں قدرتی آفات سے حاصل ہونے والے تجربات سے آگہی کی بھی ضرورت ہے۔قدرتی آفات پر کام کرنے والی سماجی تنظیموں کی سرپرستی ‘ نوجوانوں میں رضا کاریت کے فروغ اورمیڈیا میں کام کرنے والے افراد کی تربیت اور اس کے ساتھ وفاقی ‘ صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان موثر او رمنظم رابطہ کاری کے بغیر کوئی بھی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
یہی باتیں سوچتے ‘سکھر سے لاہور تک کا سفر طے ہوا۔ میجر امان اللہ اور جنرل (ر) فیض جیلانی راستے ہی میں اسلام آباد کی طرف مڑگئے۔ نذیر تونیو کراچی سے پنوں عاقل پہنچ کر اس سفر میں شریک ہوئے تھے۔ سکھر سے واپس لوٹنے کی بجائے وہ بھی ہمارے ساتھ لاہور پہنچے۔ انہوں نے اندرونِ سندھ کے مختلف مقامات میں رات دن کام کیا۔ ایسی جاں فشانی بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔ ایثار کا یہی جذبہ ہے جو ہمارے معاشرے کا اصل حسن ہے۔ میجر امان اللہ ‘ جنرل(ر) فیض اور نذیر تونیو۔ ان کی شب و روز کاوشوں کو دیکھ کے ایک ہی مصرع کانوں میں گونجتا ہے۔
اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں