سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(34)

سکھر سے واپسی پر پھر یہ سوال اٹھا کہ اب کدھرکا رخ کریں۔ قرعۂ فال ڈیرہ اسماعیل خان کے نام نکلا۔ ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا ایک اہم شہر ہے۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پہ واقع‘ جہاں دریائے گومل‘ دریائے سندھ میں آ کے شامل ہوتا ہے۔ اس شہر کو ایک بلوچ سردار اسماعیل خان نے آباد کیا۔ اکثریت آبادی سرائیکی بولنے والوں پہ مشتمل ہے۔ پنجاب کے کئی شہروں ڈی جی خان‘ تونسہ‘ بھکر اور میانوالی کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں یہ پنجاب ہی کا حصہ تھا جبکہ مغل دورِ حکومت میں یہ صوبہ ملتان کے زیرِ نگیں رہا۔ انگریزوں نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا تو ڈیرہ اسماعیل خان بھی ان کے تسلط میں آ گیا۔ 1920ء میں جب پنجاب کے سرحدی علاقوں پر مشتمل شمال مغربی سرحدی صوبہ وجود میں آیا تو ڈیرہ اسماعیل خان کو اس صوبے کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1901ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی اکتیس ہزار تھی جن میں انیس ہزار مسلمان‘ گیارہ ہزار ہندو اور چودہ سو کے لگ بھگ سکھ بھی شامل تھے۔ 1932ء میں یہ آبادی بڑھ کر چھپن ہزار ہو گئی۔ تحریکِ پاکستان میں مقامی آبادی خصوصاً مسلمانوں نے مسلم لیگ کی حمایت کی۔ پاکستان بن گیا۔ امید اور یقین کا محور! ایک ایسی سرزمین جہاں لا الہ الا اللہ کی حکمرانی ہو اور ہر خاص و عام کو عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہنے کا موقع ملے۔ بیشتر ہندو اور سکھ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت چلے گئے جبکہ بھارت سے آنے والے مہاجرین یہاں آباد ہونے لگے۔ آج ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی سوا دو لاکھ افراد کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے اور تقریباً سب مسلمان ہیں۔ یہ الگ بات کہ امید اور یقین کا وہ محور‘ جس کے خواب دیکھے گئے‘ ابھی وجود میں نہیں آیا۔ ایک بڑی آبادی آج بھی 'پاکستان‘ بننے کی منتظر ہے۔ غربت اور افلاس کی شکار‘ ایک نئے سورج کی منتظر۔
اسلام آباد سے ڈیرہ کا سفر چار گھنٹوں پہ مشتمل تھا۔ سی پیک منصوبے کے تحت بننے والی خوبصورت سڑک۔ اردگرد کہیں سبزہ‘ کہیں ویرانی‘ کہیں سنگلاخ پہاڑ‘ کہیں کھجوروں کے جھنڈ۔ اس سڑک نے آمد و رفت کو بھی آسان کر دیا اور ترقی کے نئے دورازے بھی کھول دیے۔ اب تو ہم نے سی پیک کو فراموش ہی کر دیا۔ 'اخوت‘ کے ساتھیوں نے سب سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی تباہ کاریوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ نقصان تحصیل ''پروآ‘‘ میں ہوا جو دریائے سندھ کے بہت قریب واقع ہے۔ اس تحصیل کی دونوں طرف بہت سے سیلابی نالے ہیں جن میں کوہِ سلیمان اور دیگر پہاڑی سلسلوں سے آنے والا پانی جمع ہوتا ہے۔ انہی سیلابی نالوں کے ساتھ موجود آبادیاں بارش اور سیلابی پانی کی زد میں آئیں۔ اگست 2022ء کے آخری ہفتے میں بارشوں کے فوراً بعد ہمارے لوگ متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مختلف علاقوں میں پہنچ گئے۔ اخوت کے برانچ منیجر الطاف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جو کہانی سنائی وہ اسی کی زبانی سنیے: ''بارشوں کے فوراً بعد سڑکیں بڑی حد تک ناقص ہو چکی تھیں۔ گاڑیوں کا جانا ممکن نہ تھا۔ ہم سیلاب کے پانی میں سے گزرتے ہوئے ان علاقوں تک پہنچے تو بہت لرزہ خیز مناظر روبرو تھے۔ بہت سے گھر تباہ ہو گئے‘ کچھ آبادیوں کا مکمل صفایا اور فصلوں کا نشان تک باقی نہ تھا۔ لوگ کبھی اپنے برباد گھروں کو دیکھتے اور کبھی تباہ شدہ فصلوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے۔ بچوں کو دودھ تو کیا‘ روٹی کا ٹکڑا تک میسر نہیں تھا۔ ہر طرف پانی ہونے کے باوجود شدتِ پیاس سے ان کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ اتنا زیادہ پانی لیکن یہ بھی کیا پانی ہے جو کسی پیاسے کی پیاس نہ بجھا سکے۔ کسی کے خشک حلق کو تر نہ کر سکے۔ ساز و سامان بھی بہہ گیا اور مویشی بھی۔ ڈوبنے والے ڈوب گئے اور بچنے والوں کو اپنی زندگی کی فکر لاحق ہونے لگی۔ نہ سر پر چھت‘ نہ رہنے کے لیے زمین کا کوئی خشک ٹکڑا۔ ہم نے سب سے پہلے بچوں‘ عورتوں اور بزرگوں کو صاف پانی پیش کیا۔ گہرے پانی میں چار چار‘ پانچ پانچ کلومیٹر پیدل چلے۔ چاروں طرف ہر طرح کے حشرات الارض موجود تھے۔ سانپ‘ بچھو اور کئی اور زہریلے کیڑے۔ موبائل سروس نہ ہونے کی وجہ سے اور بھی مشکل! اللہ تعالیٰ نے ہمیں حوصلہ دیا اور ہم ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کے آگے بڑھتے رہے۔ صاف پانی‘ کھانا‘ راشن‘ کپڑے اور بعض جگہ لوگوں کو نقد رقوم پیش کیں۔ بھڑکی‘ مکڑ‘ جھوک ماچھی غربی‘ بچانی‘ بستی ڈھانڈلہ‘ بستی سکھانی‘ ببر پکہ‘ ہزارہ پکہ‘ بستی شیخاں والی‘ پروآسٹی‘ ٹھٹھ سولہڑ‘ کالو جھوک سکندر‘ جھنڈیر‘ جھوک مکہ‘ جھوک گاڈی‘ ٹیکن‘ حاجی مورہ‘ فتح شہر‘ بستی کہاوڑ۔ ہم ان تمام آبادیوں میں پہنچے‘‘۔ میں اس شخص کی یادداشت پہ محوِ حیرت تھا۔ اسے یہ پور ا علاقہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح یاد تھا۔ ''ایک دن میں ہم نے تین‘ تین مختلف جگہوں پر مختلف بستیوں میں راشن اور نقد کیش کی تقسیم کی۔ بربادی کی یہ خبر عام ہوئی تو دیگر تنظیموں نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ آہستہ آہستہ پانی کا زور ٹوٹا لیکن اس میں کئی ہفتے لگ گئے۔ اب اس سے بھی بڑا مرحلہ درپیش تھا کہ ان گھروں کو کیسے تعمیر کیا جائے جو پانی کے ریلوں اور بارش کا زور نہ سہہ سکے۔ لوگوں کو بالآخر گھر تو واپس جانا ہی تھا۔
صرف ایک یونین کونسل میں اڑھائی سو ایسے گھروں کی نشاندہی ہوئی جو مکمل طور پر تباہی کا شکار ہو چکے تھے۔ آج چند ہفتوں کے اندر ان میں سے دو سو پچیس گھروں کو ہماری طرف سے تعمیر کے لیے امداد دی جا چکی ہے۔ چھ سو کے لگ بھگ افراد کو اپنا کاروبار شروع کرنے اور جانور خریدنے کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ چار ہزار کے قریب خاندان ایسے ہیں جن کو راشن اور نقد رقم تحفتاً پیش کی گئی۔ ایک ہزار کے قریب خاندانوں کو کپڑے‘ لحاف اور رضائیاں پیش ہوئیں۔ فوری بیماریوں کے تدارک کے لیے دو میڈیکل کیمپس بھی لگائے گئے جہاں سے سینکڑوں لوگ مستفید ہوئے۔ حاجی مورہ نامی ایک گاؤں‘ جہاں پندرہ سو کے قریب گھر آباد ہیں‘ تباہی کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔ صرف اسی گاؤں میں ایک سو پینتالیس گھر تعمیر ہوئے۔ الحمدللہ! تین ماہ کے اندر ان تمام افراد کی سر پہ دوبارہ سے چھت موجود تھی۔ ہم اس گاؤں کے ہر شخص کے دکھ کا مداوا تو نہ کر سکے لیکن اپنے حصے کی شمع تو روشن کی‘‘۔ الطاف کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا۔ یہ ہمارے آٹھ سو دفاتر میں سے چند دفاتر کی کارکردگی تھی۔ ہم حاجی مورہ پہنچ چکے تھے۔ سب کچھ ہمارے روبرو تھا۔ لوگ‘ گھر اور گلیوں میں ہنستے کھیلتے بچے۔ زندگی کہیں رکتی نہیں۔ مشکلوں کے باوجود آگے بڑھتی ہے۔ میں یہ سب دیکھ کے حیران ہوتا رہا اور اپنے ساتھیوں کی بے لوث کاوش کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ منتخب اور بے مثال لوگ! جون ایلیا نے البتہ کچھ اور کہا تھا:
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
لیکن یہ منتخب اور بے مثال لوگ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں