"HAC" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ کے تنازعات اور سفارت کاری

مئی2019ء کے آخری ہفتے میں سعودی عرب کے شہر مکہ میں اسلامی دنیا کی تین اہم کانفرنسز منعقد ہوئیں ‘جن کا مقصد علاقائی اور عالمی امور خصوصاً متحدہ عرب امارات کی بحری حدود میں آئل ٹینکرز پر حملے اور حوثی ملیشیا کی طرف سے دو سعودی آئل پمپنگ سٹیشنز پر ڈرون حملوں کے تناظر میں ایک مشترکہ موقف پیش کرنا تھا۔یہ مقصد جزوی طور پر اس لحاظ سے حاصل ہو گیا کہ عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کی کانفرنسز نے سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا‘مگر یہ کانفرنسز مشرق وسطیٰ اورخلیج کے علاقے میں پائی جانے والی تقسیم اور مخاصمت کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئیں۔تیسری کانفرنس او آئی سی یعنی اسلامی تعاون تنظیم کی تھی‘ جس نے 31مئی کو مکہ میں اپنا چودھواں سربراہی اجلاس منعقد کیا تھا ۔
عرب لیگ میں مشرق وسطیٰ کی تمام عرب ریاستیں شامل ہیں ۔یہ 1945ء میں قائم ہوئی تھی اور یہ خطے کی سب سے پرانی تنظیم ہے۔خلیج تعاون کونسل مئی 1981ء میں قائم ہوئی تھی اور اس کے قیام کا بنیادی مقصد ایران عراق جنگ(1980-88ئ)میں صدام حسین کی مدد کرنا تھا‘مگر اب 2019ء میں جی سی سی انتشار کی شکار ہے‘ کیونکہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ریاستیں قطر کے خلاف ہو گئی ہیں۔یو اے ای ‘بحرین ‘کویت اور سعودی عرب جیسے خلیجی ممالک نے 2016ء سے قطر کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔قطر اور ان خلیجی ممالک کے درمیان کسی قسم کے دو طرفہ تجارتی تعلقات قائم نہیں ہیں۔قطر کے خلاف عرب ممالک کو بڑا شکوہ یہ ہے کہ وہ درپردہ ایران کی مدد کر رہا ہے اور حماس اور اخوان المسلمین جیسی شدت پسند اسلامی تنظیموں کی مالی اعانت کر رہا ہے۔عرب لیگ اور جی سی سی کی حالیہ کانفرنسز میں بھی فریقین کے اختلافات میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی جہاںعرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کی جانب سے قطر کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔گو کہ ایران ان تنظیموںکا رکن نہیں ہے مگر سعودی عرب اور بعض قدامت پسند عرب بادشاہتیں ایران کی علاقائی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتی ہیں ۔جب 31مئی کو اسلامی ممالک کی چودہویں سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کاماحول عرب لیگ اور جی سی سی کے اجلاسوںسے یکسر مختلف تھاکیونکہ اس میں ساری توجہ کا مرکزپوری اسلامی دنیا تھی اور یہاں بہت سے غیر عرب ممالک بھی موجود تھے ‘اس لئے او آئی سی کانفرنس قطر اور ایران پر تنقید کرنے والا فورم نہ بن سکی۔گو کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ایران پر تنقید کی تھی مگر مجموعی طور پر اس کا فوکس فلسطین سمیت پوری اسلامی دنیا کے دیگر اہم مسائل پر مرکوز رہا۔
ان تمام کانفرنسز میں قطر کی نمائندگی اس کے وزیر اعظم نے کی ۔تاہم قطری وزیر اعظم کے دورۂ سعودی عرب کے باوجود قطر اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کی برف نہ پگھل سکی۔ایران اور سعودی عرب خلیج اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں متحارب پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔سعودی عرب اور ایران کی باہمی مخاصمت کے ڈانڈے شاہ ایران (قبل از فروری1979ئ)کے دور حکومت سے جا ملتے ہیں جب دونوں ممالک خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔تاہم اس مسابقت میں زیادہ شدت اس لئے نہ آئی کیونکہ سعودی عرب اور ایران دونوں ممالک میں امریکہ نواز بادشاہتیں قائم تھیں ۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد خارجہ پالیسی میں ایک نظریاتی رنگ غالب آگیا جس میں امریکہ مخالف موقف نمایاں نظر آتا ہے۔نیز یہ کہ ایران نے یہ انقلاب ہمسایہ عرب ممالک کو برآمد کرنے کاعزم بھی ظاہر کیا جہاںزیادہ تر امریکہ نواز پالیسیوں پرعمل پیرا بادشاہتیں قائم تھیں۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ایران کے نظریاتی اور انقلابی عزائم میں وہ گرم جوشی تو برقرار نہ رہ سکی مگر اس میں وقتاً فوقتاً آنے والی شدت خطے کے ممالک کے ساتھ ایران کی پالیسیوں میں جلد بازی اور بے صبری کا باعث بنتی رہی۔
حالیہ کانفرنسز سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ایران اور عرب بادشاہتوں کے درمیان مخاصمت اور مسابقت ابھی تک بر قرار ہے۔عرب ممالک شام اور یمن سے متعلق ایرانی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیںاور دونوں ممالک اس خانہ جنگی میں مخالف دھڑوں کی حمایت کر رہے ہیں۔تاہم عرب ممالک کو ایران کی اس پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے جب وہ فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے ساتھ فرنٹ فٹ پر آکر لڑنے والی لبنانی تنظیم حزب اللہ کی مدد اور حمایت کرتا ہے ۔ جب امریکہ نے2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیاتو ایران امریکہ محاذ آرائی شروع ہونے سے ا س کشیدگی میں مزید شدت آ گئی ۔اس معاہدے کا ایک فریق ایران ہے اور دوسری جانب سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی ہیں۔اس معاہدے سے نکلنے کا امریکی فیصلہ یک طرفہ تھا‘ کیونکہ باقی پانچوں ممالک امریکی موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔اب امریکہ ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے علاوہ اس کی اسرائیل مخالف عرب فلسطینی گروپوں کی حمایت پر شدید اعتراض کر رہا ہے۔
امریکہ نے ایران پر بعض نئی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں اور ایران کو ڈرانے دھمکانے کے لئے خطے میں محدود پیمانے پر فوجی نقل و حرکت بھی کی ہے۔اس امر کی کم ہی امید ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ براہ راست کسی عسکری محاذ آرائی میں ملوث ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں خلیج سے تیل کی ترسیل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اس کے برعکس امریکہ کی ترجیح یہ ہے کہ دیگر عرب ممالک کے ذریعے ایران پر عسکری اور سفارتی دبائو بڑھایا جائے۔
خلیج او رمشرق وسطیٰ میں جاری اس روز افزوں کشیدگی میں پاکستان ایک'' انتہائی محتاط پالیسی ‘‘ پر عمل پیرا ہے۔پاکستان خطے میں جاری ا س کشیدگی پر تحمل اور لچک دار رویے کا حامی ہے۔روایتی طور پر پاکستان کا رجحان زیادہ تر سعودی عرب کی طرف ہے ۔پاکستان نے یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ اگر حرمین شریفین کا تقدس پامال کرنے کی کوشش ہوئی یا سعودی عرب کی علاقائی حدود کے اندر کسی قسم کی شورش پیدا ہوئی تو وہ ہر طرح کی عسکری مدد اور تحفظ فراہم کرنے کاپابند ہوگا۔تاہم پاکستان نے سعودی عرب کے کسی علاقائی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنی فوج بھیجنے سے گریز کیاہے اور یمنی اور شامی خانہ جنگی میں بھی ایک غیر جانبدارانہ موقف اپنا رکھا ہے۔جہاں اس کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہیں وہیں ایران کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ برقرار ہے ۔حال ہی میں پاک ایران سرحد کے آر پار دہشت گرد گروہوں کی دو طرفہ نقل و حرکت روکنے کے لئے باہمی تعاون میں اضافہ کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے۔اسلامی سربراہ کانفرنس میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں فلسطین سمیت کشمیر جیسے اہم تنازعات پر بات کی ہے۔انہوں نے رکن ممالک کے سربراہوں پر زور دیا کہ وہ باقی دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں متحرک کردار ادا کریں کہ حضوراکرم ﷺ کی ناموس او رمسلمانوں کے بنیادی عقائد کے حوالے سے توہین آمیز رویے سے گریز کیا جائے ۔انہوں نے ایسے اقدامات پر بھی زور دیا جن سے اہل مغرب کا دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کا غلط تصور بھی درست ہو جائے ۔کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کا اجلاس مکہ میں ہوا جس میں کشمیری عوام کے حق استصواب رائے کی جدو جہدکے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا گیا ۔اس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس بھی لیا گیا۔او آئی سی کے چودہویں سربراہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے سے عالم اسلام کی ترجیحات کا اظہار ہوتا ہے۔تاہم او آئی سی کے پاس اپنے اس اعلامیے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی سفارتی میکانزم موجود نہیں ہے۔اس کے رکن ممالک او آئی سی کے اعلامیے کی بجائے اپنے اپنے قومی مفادات کے تابع کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں